پہلی مثال‘ سوئچی ناکا گاوا جاپان کا وزیر خزانہ تھا‘ یہ خاندانی سیاستدان تھا‘ یہ 1998ء میں پہلی بار جاپان کا وزیر زراعت بنا اور ترقی کرتا کرتا 24 ستمبر 2008ء کو وزیر خزانہ بن گیا‘ یہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا سب سے مشہور سیاست دان تھا اور اس کے کیریئر کی گاڑی سیاست کے موٹروے پر ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی تھی کہ اچانک سوئچی ناکا گاوا سے ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی‘ 14
فروری2009ء کو اٹلی کے شہرروم میں دنیا کے سات بڑے ممالک یعنی جی سیون کی کانفرنس تھی‘ کانفرنس کے آخر میں نیوز بریفنگ تھی‘ سوئچی ناکا گاوا کانفرنس میں شراب پی کر آگیا‘ صحافیوں نے سوال پوچھنے شروع کیے تو میڈیا کو سوئچی ناکا گاوا کے جواب لڑکھراتے ہوئے محسوس ہوئے چناںچہ نیوز کانفرنس میں موجود ایک صحافی نے سوئچی ناکا گاوا پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا‘ یہ الزام جاپانی حکومت کے نوٹس میں آ گیا‘ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سوئچی ناکا گاوا جاپانی حکومت کا وزیر خزانہ تھا‘ دنیا کی تمام حکومتیں چار وزراء کے کندھوں پر کھڑی ہوتی ہیں‘ وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ‘ وزیر اطلاعات اور وزیر خزانہ۔ یہ دعویٰ درست ہے کیوںکہ واقعی وزیراطلاعات‘ وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ حکومت ہوتے ہیں اور اگر یہ لوگ اچھے‘ سمجھ دار‘ سلجھے ‘ مضبوط اور ایمان دار ہوں تو حکومت بھی مضبوط اور شان دار ہوتی ہے اور اگر یہ لوگ کمزور اور بے ایمان ہوں تو حکومت کو رخصت ہوتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی‘ سوئچی ناکا گاوا بھی حکومت تھا لیکن اس کا جرم اس کی اتھارٹی سے کہیں بڑا تھا چناںچہ اس کے خون کے نمونے لیے گئے اور بدقسمتی سے شراب نوشی ثابت ہو گئی لہٰذا سوئچی ناکا گاوا کو اپنے مضبوط ترین عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیا‘ سوئچی مستعفی ہو گیا لیکن استعفیٰ کے باوجود جاپانی معاشرے نے اسے معاف نہ کیا‘ وہ سوشل بائیکاٹ کا شکار ہو گیا‘لوگوں نے اس سے میل ملاقات اور گفت وشنید بند کر دی اور وہ عملاً اپنے فلیٹ تک محدود ہو کر رہ گیا‘ یہ سوشل بائیکاٹ سوئچی ناکا گاوا کے لیے اس قدر خوف ناک ثابت ہوا کہ سوئچی ناکا گاوا نے اتوار 4 اکتوبر2009ء کی صبح خود کشی کر لی ‘پولیس نے 4اکتوبر کی صبح سوئچی کی لاش فلیٹ سے نکالی تو وہ تمام بدنامیوں سے دور جا چکا تھا۔
دوسری مثال ‘لڑکی پلیٹ فارم پر کھڑی تھی‘ پلیٹ فارم‘ ریل کی پٹڑی اور پورا ریلوے سٹیشن برف میں دفن تھا‘ درختوں کی ٹہنیوں تک نے برف کے دستانے پہن رکھے تھے‘ سامنے سے ٹرین آ رہی تھی‘ انجن کی ہیڈ لائیٹس روشن تھیں‘ ہیڈ لائیٹس کی روشنیاں منظر کو مزید خوب صورت بنا رہی تھیں‘ لڑکی کے گلے میں سرخ مفلر تھا‘ پشت پر تھیلا تھا اور ہاتھ میں ہینڈ بیگ‘ اس خواب ناک منظر کی ایک جھلک 8 سال قبل فیس بک پر ظاہر ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’وائرل‘‘ ہو گئی‘
یہ تصویر دنیا کی تقریباً ہر اچھی اور بڑی ’’وال‘‘ تک پہنچی اور اس نے دل کھول کر ’’لائیکس‘‘ حاصل کئے۔یہ جاپان کے گائوں ’’کامی شراتاکی‘‘کی ایک طالبہ کی تصویر تھی‘ یہ گائوں جاپان کے ’’ہوکائیدو‘‘ جزیرے میں واقع ہے‘ یہ بچی گائوں کی واحد طالبہ تھی‘ یہ روزانہ کلاسز لینے کے لیے شہر جاتی تھی‘ شہر گائوں سے 56 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ جاپانی حکومت نے 1932ء میں کامی شراتاکی میں مال بردار گاڑیوں کے لیے ریلوے سٹیشن بنایا تھا‘ گائوں میں ریل کی پٹڑی اور ریلوے سٹیشن کی وجہ سے مسافر ٹرینوں کی آمدورفت بھی شروع ہو گئی لیکن جاپان میں 1987ء میں ریلوے کی نج کاری ہو گئی اور یہ سٹیشن جے آر ہوکائیدو کمپنی کے پاس چلا گیا‘ کامی شراتاکی میں صرف 40 لوگ رہتے تھے
یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ دوسرے قصبوں میں شفٹ ہو گئے یوں مسافر ٹرین کی سواریاں ختم ہو گئیں چناںچہ کمپنی نے 2012ء میں یہ روٹ اور ریلوے سٹیشن بند کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن پھر کمپنی کو اچانک سٹیشن پر سولہ سال کی لڑکی کانا ہراڈہ نظر آئی‘ یہ کالج کی طالبہ تھی اور یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ ٹرین کے ذریعے ہوکائیدو کے ہائی سکول جاتی تھی‘ جاپان ریلوے کو جب یہ معلوم ہوا
ہماری ٹرین اس طالبہ کا واحد سفری ذریعہ ہے اور ہم اگر یہ روٹ بند کر دیں گے تو یہ طالبہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے گی تو ریلوے نے طالبہ کی تعلیم مکمل ہونے تک یہ روٹ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا‘یہ سلسلہ تین برس جاری رہا‘ 2012ء سے ایک ٹرین صبح اس لڑکی کو کالج لے جانے کے لیے ’’کامی شراتاکی‘‘ آتی تھی اور دوسری شام کے وقت اسے واپس چھوڑنے آتی تھی‘ یہ طالبہ ان دونوں ٹرینوں کی واحد مسافر تھی‘ جاپانی ریلوے اس طالبہ کی وجہ سے ماہانہ ہزاروں ڈالر نقصان اٹھاتی رہی‘ طالبہ کے کالج کی تعلیم 26 مارچ 2016ء کو مکمل ہو ئی اور ریلوے نے اس کے بعد یہ سٹیشن بند کیا۔
تیسری مثال‘ ہیروشیما کا ہائیر ٹیکنیکل سکول 1920ء میں بناتھا‘یہ بنیادی تعلیم کے بعد ٹیکنیکل ایجوکیشن دیتا تھا‘ یہ سکول 1944ء میں ٹیکنیکل کالج ہو گیا‘ اس کالج کو ہیروشیما یونیورسٹی کی سپورٹ حاصل تھی‘ ہیروشیما یونیورسٹی 1929ء میں قائم ہوئی اور یہ جاپان کی بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی تھی‘ یونیورسٹی کا موٹو تھا ’’ٹرائی نیوتھنگز‘ ڈونیو تھنگز‘‘ (نئی چیزیں شروع کریں اور نئی چیزیں بنائیں) ‘ امریکا نے 6 اگست 1945ء کو ہیرو شیما پر پہلا ایٹم بم گرایا‘ شہر کا نوے فیصد حصہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘ 80 ہزار لوگ فوری طور پر ہلاک ہو گئے‘ کل اموات ایک لاکھ 20 ہزارہوئیں‘
امریکا نے تین دن بعد 9 اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرا دیا‘ یہ شہر بھی تباہ ہوگیا‘ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی تھی‘ جاپان کی کمر ٹوٹ گئی‘ شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے 15 اگست 1945ء کوغیر مشروط ہتھیار ڈال دیئے‘ امریکا نے جاپان پر قبضہ کر لیایوں دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی‘ ایٹم بم کے حملے کے وقت ہیرو شیما ٹیکنیکل کالج میں طالب علموں کے پریکٹیکل چل رہے تھے‘ کالج کے 95 فیصد طالب علم ایٹم بم کا رزق بن گئے‘ صرف مضافات کے نوجوان محفوظ رہے‘
زیادہ تر استاد بھی ہلاک ہو گئے لیکن آپ جاپانی قوم کی علم پرستی ملاحظہ کیجیے‘ ایٹمی حملے کے صرف ایک ماہ بعد ہیرو شیما کی لوکل گورنمنٹ نے مضافات میں عارضی ٹیکنیکل کالج بنایا‘ زندہ بچ جانے والے طالب علم اور استاد اکٹھے کئے‘ ملک کے باقی حصوں سے لیبارٹری کے آلات یہاں منتقل کئے اور یوں سٹوڈنٹس کے پریکٹیکل مکمل کرائے‘ زخمی والدین اپنے زخمی بچوں کو کندھوں پر لاد کر عارضی لیبارٹری میں لے کر آتے تھے‘ زخمی استاد انہیں پریکٹیکل کراتے تھے اور یہ لوگ کلاس کے بعد گھسٹ گھسٹ کر کیمپوں تک پہنچتے تھے‘
جنگ زدہ‘ شکست زدہ جاپان نے صرف چار سال میں ایٹم بم سے تباہ حال ہیرو شیما میں دوبارہ یونیورسٹی تعمیر کر دی‘ یونیورسٹی میں 31مئی 1949ء میں کلاسز شروع ہوئیں اور یہ آج تک چل رہی ہیں‘ ہیرو شیما یونیورسٹی میں اس وقت گیارہ ہزار انڈر گریجویٹس‘ ساڑھے چار ہزار گریجویٹس اور84 مختلف ممالک کے1638 بین الاقوامی طالب علم ہیں‘ ان سترہ ہزار طالب علموں کو پڑھانے کیلئے ساڑھے تین ہزار پروفیسر ہیں‘ جاپان میں تعلیم کے حوالے سے دو روایات حیران کن ہیں‘ پہلی روایت تسلسل ہے‘
جاپانی کسی بھی حال میں اپنے تعلیمی ادارے بند نہیں ہونے دیتے‘ ایٹمی حملوں کے بعد بھی ہیرو شیما اور ناگاساکی میں سب سے پہلے تعلیمی ادارے کھولے گئے‘ ہیروشیما کا شہر بننے سے پہلے یونیورسٹی بنی اور اس میں کلاسز شروع ہوئیں‘ دوسری روایت معیار تعلیم ہے‘ یہ لوگ کسی بھی حال میں اپنے تعلیمی معیار کو نیچے نہیں گرنے دیتے‘
جاپانیوں نے ایٹمی حملے کے بعد بھی 5 فیصد طالب علموں کے لیے عارضی لیبارٹری بنائی اور زخمی طالب علموں تک کو پریکٹیکل کرائے‘ آپ 11 مارچ 2011ء کے سونامی کی مثال بھی لیجئے‘ سونامی سے جاپان کے آدھے ساحلی شہر تباہ اور چھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے لیکن آپ جاپانیوں کا کمال دیکھئے‘ انہوں نے فوری طور پر عارضی سکول بنائے‘ متاثرہ علاقوں کے بچوں کو ان سکولوں میں منتقل کیا اور تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیا جہاں یہ 11 مارچ 2011ء کو ٹوٹا تھا‘ آپ ان عارضی سکولوں کی فوٹیج آج بھی یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔
میں اس وقت اس جاپان میں ہوں‘ میں اسے ایکسپلور کرنے آیا ہوں اور میں آپ کو وقتاً فوقتاً جاپان کے بارے میں بتاتا رہوں گا۔