شیرون بشنوسکی (Sharon Beshenivsky) پولیس کانسٹیبل تھی‘ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں کام کرتی تھی‘ 18 نومبر 2005ء کو مورلی سٹریٹ کے ایک ٹریول ایجنٹ کا ایمرجنسی الارم بجا‘ شیرون اپنی کولیگ ٹریسا میلبرن کے ساتھ ٹریول ایجنٹ کے آفس کے سامنے پہنچی اور اندر موجود لوگوں کو وارننگ دے دی‘ اندر موجود مجرموں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی‘
برطانیہ میں ہتھیار نہیں ہوتے چناں چہ پولیس اہلکار عموماً تیاری کے بغیر موقع واردات پر پہنچ جاتے ہیں‘ شیرون اور ٹریسا کے ساتھ بھی یہی ہوا‘توقع کے برخلاف فائرنگ شروع ہوئی اور دونوں شدید زخمی ہو گئیں‘ پولیس کمک آئی‘ دونوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچایا گیا مگر شیرون بشنوسکی جاں بر نہ ہو سکی جب کہ ٹریسا کی جان بچ گئی‘ فائرنگ کرنے والوں میں ایک پاکستانی پیراں دتہ خان بھی شامل تھا‘ یہ فوری طور پر فرار ہوا اور پاکستان آ گیا‘ پیراں دتہ سات رکنی گینگ کے ساتھ ڈکیتی کے لیے ٹریول ایجنٹ کے دفتر میں داخل ہوا تھا‘ دفتر میں سیکورٹی الارم لگا ہوا تھا‘ وہ بج گیا اور پولیس پہنچ گئی‘ پیرا دتہ کے پاس ریوالور تھا‘ اس نے فائرنگ کر دی‘یہ فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کام یاب ہو گیا جب کہ باقی چھ ملزم پکڑے گئے اور پیراں دتہ کا پیچھا شروع ہو گیا‘ پیراں دتہ پاکستان میں آ کر چھپ گیا‘ برطانوی حکومت نے اس کی اطلاع پر 20 ہزار پائونڈز انعام بھی رکھ دیا اور پاکستان میں موجود اپنے سفارت خانے کو بھی ایکٹو کر دیا‘ برطانیہ کو پیراں دتہ کو تلاش کرنے میں 15 سال لگ گئے‘ اس پر بے تحاشا رقم بھی خرچ ہوئی اور افرادی قوت بھی مگر یہ لوگ 2020ء میں پیراں دتہ تک پہنچ گئے یوں اسلام آباد پولیس نے برطانیہ کی اطلاعات اور مدد سے 2020ء میں اسے گرفتار کر لیا‘ مجرم گرفتار ہوگیا مگر یہاں ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا‘ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا ایگریمنٹ مکمل نہیں ہوا تھا‘ برطانیہ کو یہ ایگریمنٹ کرنے میں اڑھائی سال لگ گئے یہاں تک کہ 11 اپریل 2023ء کو برطانیہ کی پولیس اسلام آباد آئی اور یہ ملزم کو ہتھکڑی لگا کر لندن لے گئی اور اسے اسی تھانے کی حوالات میں بند کر دیا جس کی کانسٹیبل کو اس نے 17 سال قبل گولی ماری تھی‘
پیراں دتہ کی عمر اس وقت 74 سال ہے اوریہ ریاستی رٹ کی تازہ ترین مثال ہے اور یہ مثال ثابت کرتی ہے آپ کسی زندہ ملک میں جرم تو کر سکتے ہیں لیکن آپ جرم کے بعد سزا سے نہیں بچ سکتے‘ ریاست آپ کو دنیا کے آخری کونے سے بھی تلاش کر کے لائے گی اور آپ کو کیفردار تک پہنچائے گی خواہ اس کے لیے اسے کتنی ہی محنت اور سرمایہ کیوں نہ خرچ کرنا پڑے۔
آپ اسامہ بن لادن اور امریکا کی مثال بھی لے لیں‘ اسامہ بن لادن نے نائین الیون کرایا‘ یہ ہو گیا اور اسامہ بن لادن اس کے بعد غائب ہو گیا‘امریکا نے اسے تلاش کرنا شروع کر دیا‘ اس تلاش میں چار بلین ڈالرز بھی خرچ ہوئے اور سینکڑوں لوگ بھی استعمال ہوئے مگر امریکا نے بالآخر اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ٹریس کیا اور دو مئی 2011ء کو اسے گولی مار کر اس کی لاش سمندر میں پھینک دی‘
یہ امریکی تاریخ کا مہنگا ترین پراجیکٹ تھا‘ امریکا کواس کے لیے دس سال صبر بھی کرنا پڑا اور جستجو بھی‘ اسامہ بن لادن کی اس مثال نے ثابت کر دیا آپ امریکا پر حملہ کر سکتے ہیں مگر آپ حملے کے بعد بچ نہیں سکتے‘ امریکا آپ کو پاتال سے بھی تلاش کر کے لائے گا اور سزا دے گا‘ دنیا میں سزا کا چھوٹا یا بڑا ہونا اہم نہیں ہوتا‘ سزا کا قطعی ہونا اہم ہوتا ہے‘
آپ بے شک چوری کی سزا چھ بار پھانسی رکھ دیں لیکن اگر مجرم‘ جج اور پولیس کو سزا کا یقین نہیں ہو گا تو جرم بھی ہوتا رہے گا اور مجرم بھی بڑھتے رہیں گے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ بے شک معمولی سزا دیں مگر وہ سزا قطعی ہونی چاہیے‘ مجرم کو یہ معلوم ہونا چاہیے اگر میں نے جرم کیا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے سزا سے نہیں بچا سکے گی‘ میں پاتال میں بھی چھپ گیا تو بھی حکومت مجھے کھود کر نکال لے گی اور پھر عدالت اور جیل میرا مقدر ہوگا‘ میں اکثر ہندوستان کے بادشاہ علائوالدین خلجی کی مثال دیتا ہوں‘
وہ چوری کے معاملے میں بہت سخت تھا‘ اس کے دور میں چوری کی سزا موت ہوتی تھی‘ وہ چور پکڑتا تھا اور اسے سرعام پھانسی چڑھا دیتا تھا اور اس کی لاش پورا سال لٹکی رہتی تھی‘ وہ اس معاملے میں اتنا سخت تھا کہ اس کے مرنے کے 60 سال بعد تک ہندوستان میں چوری نہیں ہوئی‘ لوگوں کا خیال تھا ہم نے اگر چوری کی تو وہ قبر سے نکل کر بھی ہمیں نہیں چھوڑے گا‘ ہم ہمیشہ حضرت عمر فاروقؓ کی مثال دیتے ہیں‘
حضرت عمر فاروقؓ میں ہزاروں خوبیاں تھیں لیکن ان کا طرہ امتیاز انصاف تھا‘ شاید اسی لیے آج 14 سو سال بعد بھی جب حضرت عمر فاروقؓ کا نام آتا ہے تو ان کے ساتھ عدل فاروقی لکھا جاتا ہے‘ آپؓ کا کمال تھا آپؓ کے دور میں کوئی شخص جرم کے بعد بچ نہیں سکتا تھا وہ خواہ آپؓ کا اپنا صاحب زادہ ہی کیوں نہ ہو‘ وہ بھی قاہرہ سے پکڑ کر لایا جاتا تھا اور خلیفہ خود اپنے ہاتھ سے اسے کوڑے مارتا تھا‘
تاریخ کا بہت مشہور واقعہ ہے جب حضرت عمر فاروقؓ کا وصال ہوا تو ریاست مدینہ کی سرحد پر کھڑے گڈریے نے اعلان کر دیا والئی مدینہ کا انتقال ہو چکا ہے‘ لوگوں نے اطلاع کا سورس پوچھا تو اس نے چلا کر کہا‘ آج جنگلی بھیڑیا میری ایک بھیڑ اٹھا کرلے گیا ہے‘ یہ حرکت حضرت عمر فاروقؓ کی حیات میں ممکن نہیں تھی‘
یہ ہوتا ہے سزا کا قطعی ہونا جب کہ ہمارے ملک میں ہم قانون سخت کرتے جاتے ہیں مگر جرائم اس کے باوجود نہیں رکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ مجرم جانتے ہیں اول مجھے نظام انصاف پکڑ نہیں سکتا اور اگر اس نے پکڑ بھی لیا تو بھی ہم بچ جائیں گے‘ ہم بڑا وکیل کر لیں گے‘ وہ نہ ملا تو جج صاحب کر لیں گے اور اگر یہ دائو بھی نہ چلا تو ہماری حکومت آئے گی اور ہمیں این آر او مل جائے گا اور یوں ہمارے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے اور یہ ہے ہمارا اصل المیہ۔
ہم من حیث القوم 9 مئی کو رو رہے ہیں لیکن ہم 9 مئی کی وجوہات تلاش نہیں کر رہے‘سوال یہ ہے عوام یا پی ٹی آئی کے ورکرز کو کس نے حوصلہ دیا یہ ڈنڈے لے کر نکلیں اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کر کے پورا گھر برباد کر دیں‘ یہ جی ایچ کیو پر حملہ آور ہو جائیں‘میانوالی میں جہاز کے ماڈل کو آگ لگا دیں‘قلعہ بالاحصار پشاور پر حملہ کر دیں‘
سرگودھا کی یادگار شہداء توڑ دیں ‘پشاور ریڈیو سٹیشن‘ سوات ٹول پلازہ اور کراچی کی رینجرزچوکی جلا دیں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کردیں اور عام لوگوں کی پراپرٹیز‘ گاڑیاں اور دکانیں بھی جلا دیں؟ کیا یہ سچ نہیں انہیں یہ حوصلہ کم زور نظام عدل نے دیا تھا‘ یہ جانتے تھے ہم پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر ہم پکڑے گئے تو عمران خان کے جج ہمیں ضمانت پر رہا کر دیں گے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکا تو عمران خان اقتدار میں آ کر ہمیں پارڈن بھی کر دیں گے اور ہمیں ایم پی اے اور ایم این اے کے ٹکٹ بھی دے دیں گے
چناں چہ یہ آگے بڑھتے چلے گئے اور ہمیں آج یہ بھی ماننا ہوگا ان کی یہ سوچ غلط نہیں تھی‘ ریاست نے جب ٹی ایل پی کی یلغار معاف کر دی‘ ریاست جب چھ پولیس اہلکاروں کی لاشیں دفنا کر بھول گئی تو پھر پی ٹی آئی یہ جسارت کیوں نہ کرتی‘ یہ آگے کیوں نہ بڑھتی؟ ہم جب عام آدمی کے نقصان کو عام آدمی کا نقصان سمجھتے ہیں اور ہم ملزموں اور مجرموں کو الٹا جیلوں میں مفت کھانا‘
مفت بجلی اور مفت بستر بھی دیتے ہیں تو پھر لوگ دوسروں کی جائیدادیں اور اثاثے کیوں نہ جلائیں‘ ریاست جب پولیس اہلکاروں کا قتل بھی معاف کر دے تو پھر لوگ ڈی آئی جی رینک کے افسروں کو کیوں نہ ماریں‘ یہ پولیس وینز کو آگ کیوں نہ لگائیں اور ایدھی کی ایمبولینس کو کیوں نہ جلائیں؟
آپ یقین کریں ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کرتے ریاست یونیفارم کو ہاتھ لگانے والوں کے ہاتھ توڑ دے گی اور جس نے کسی ریاستی یا سویلین پراپرٹی پر حملہ کیا وہ باقی زندگی مزدوری کر کے یہ نقصان پورا کرے گا اور جیل میں بھی مجرم کو مفت کھانا‘ بجلی‘ گیس اور بستر نہیں ملے گا‘ اسے بارہ گھنٹے کام کرنا پڑے گا اور کوئی بھی شخص جرم کے بعد ریاست کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکے گا‘
ریاست کو خواہ اسے پیراں دتہ کی طرح بیس سال ڈھونڈنا پڑایہ اسے ڈھونڈے گی اور پھر اسے سزا بھی دے گی تو پھر دیکھتے ہیں ایدھی کی ایمبولینس یا کور کمانڈر کے گھر یا عام شہری کی موٹر سائیکل کون جلاتا ہے؟ 1971ء میں مکتی باہنی نے بھی کسی کور کمانڈر کا گھر نہیں جلایا تھا لیکن لاہور کے واقعے نے پوری دنیا میں ہمارے دفاعی نظام کے منہ پر کالک مل دی اور دنیا پوچھ رہی ہے
ہم اگر کور کمانڈر کو اپنے لوگوں سے نہیں بچا سکے توپھر ہم کل کو اپنا نیو کلیئر بم غیروں سے کیسے بچائیں گے؟ چناں چہ ہم نے اگر اپنی عزت اور نظام دونوں بچانے ہیں تو پھر ایک بار یہ ثابت کر دیں لوگ ایک بار سرکاری اور غیرسرکاری پراپرٹیز پر حملہ کر سکتے ہیں لیکن یہ حملے کے بعد بچ نہیں سکتے‘ ریاست ان کو قبر سے کھود کر بھی نکالے گی اور نکال کر لٹکائے گی خواہ اسے اس کے لیے پورا خزانہ اور ساری فوج ہی کیوں نہ لگانی پڑ جائے‘ یہ ملک پھر بچے گا‘ پھر چلے گا ورنہ آپ اب اپنی اور ملک دونوں کی فاتحہ پڑھ لیں۔