جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

صحت

datetime 30  اپریل‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت موسیٰ ؑ تاریخی‘ مذہبی اور ادبی لحاظ سے (نعوذ باللہ) مظلوم ہیں‘ یہ دنیا کی ان چند شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جن کے نام پر ہزاروں غیر مصدقہ واقعات گھڑے گئے اور دنیا میں کوئی شخص ان واقعات کی تردید‘ تصدیق اور وضاحت نہیں کر رہا‘ آپ کوئی مذہبی کتاب اٹھا کر دیکھیں‘ آپ کو اس میں حضرت موسیٰ ؑ سے منسوب سینکڑوں واقعات ملیں گے لیکن آپ اگر ان واقعات کے بارے میں تحقیق کریں تو آپ کو ان کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا‘آج حضرت موسیٰ ؑ کو دنیا سے رخصت ہوئے ہزاروں سال ہو چکے ہیں‘

دنیا میں حضرت موسیٰ ؑکے دور کی کوئی کتاب موجود نہیں‘ حضرت موسیٰ ؑ کے دور میں کتابیں لکھی اور شائع نہیں کی جاتی تھیں‘ یہ کاغذ سے پہلے کا زمانہ تھا‘ فرعون پیپرس نامی درخت کی چھال پر اپنے فرامین لکھواتے تھے‘ یہ فرامین اور درختوں کی یہ چھالیں بھی ختم ہو چکی ہیں‘ فرعونوں کے دور کا رسم الحظ اور طرز تحریر بھی آج موجود نہیں‘ ماہرین احراموں کی دیواروں پر کندہ عبارت تک نہیں سمجھ پا رہے چناںچہ حضرت موسیٰ ؑ سے منسوب واقعات کی تاریخی لحاظ سے تصدیق ممکن نہیں‘ دوسرا حضرت موسیٰ ؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کوئی عینی شاہد بھی نہیں‘ حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور پر تشریف لے جاتے تھے تو آپ کے ساتھی ایک خاص مقام تک پہنچ کر رک جاتے تھے جب کہ حضرت موسیٰ ؑ وہاں تک جاتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوتا تھا‘ اس گفتگو میں کوئی تیسرا شخص یا ذی روح شامل نہیں ہوتا تھا چناںچہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ ؑ کے مکالمات کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا‘ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور سے واپس آ کر اپنے کسی پڑھے لکھے ساتھی کو اللہ تعالیٰ سے ہونے والا مکالمہ لکھوا دیتے تھے لیکن سوال یہ ہے وہ لکھا ہوا کہاں ہے؟ وہ اگر کتاب کی شکل میں تھا تو وہ کتاب کہاں ہے؟ وہ اگر پتھر پر کندہ ہوا تو وہ پتھر کہاں ہے اور وہ واقعات اگر درختوں کی چھال پر لکھے گئے تھے تو درختوں کی وہ چھال کہاں ہے؟ دنیا میں کسی جگہ ان کا کوئی آثار نہیں ملتا لہٰذا یہاں سوال پیدا ہوتا ہے پھر یہ واقعات کہاں سے آ رہے ہیں اور ان کا پس منظر کیا ہے؟ یہ سوال آج کے اذہان میں بار بار پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کو پریشان کرتا ہے‘

ہمارے پاس حضرت موسیٰ ؑ کے چند مصدقہ واقعات ہیں‘ یہ انجیل اور قرآن مجید میں درج واقعات ہیں‘ یہ واقعات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں چناںچہ ہم ان پر یقین رکھتے ہیں مگر وہ واقعات جو قرآن مجید یا انجیل مقدس میں درج نہیں یا جن کا حوالہ متفقہ احادیث سے نہیں ملتا ہم انہیں کہاں رکھیں گے‘ ہم ان کا کیا کریں گے؟ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اس معاملے میں ہم گناہ گاروں اور جاہلوں کی رہنمائی فرمائیں۔

یہ پس منظر تھا‘ میں اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں‘ میں نے کسی کتاب میں حضرت موسیٰ ؑ سے منسوب ایک واقعہ پڑھا‘ یہ واقعہ غیر مصدقہ ہے مگر یہ اس کے باوجود حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے‘ لکھنے والے نے لکھا‘ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا ’’ یا باری تعالیٰ اگر آپ کا بھی کوئی رب ہوتا تو آپ اس سے کیا مانگتے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ میں اس سے صحت مانگتا‘‘ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا‘

صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت اور منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی‘ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے‘ یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘

مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘ مثلاً دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘

مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘ ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیا ہیں‘ یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں‘ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں‘

سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چناںچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘ مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘

سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘ آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔

ہم روزانہ سوتے ہیں‘ ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے‘ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘ صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘

ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘ ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پائوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے‘ ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں‘ یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘

دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘ دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں‘ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘

ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘ دنیا کے سینکڑوں‘ ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘ لوگ صحت مند گردے کے لیے ساٹھ ستر لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘ آنکھوں کا قرینا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘ دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘ آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں‘

گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے‘ قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘ دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے‘

آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے‘ شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی‘ منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں‘

ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں‘ ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے اور یہ اتنا بڑا کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا ’’ میرا بھی کوئی رب ہوتا تو میں اس سے صحت کی دعا کرتا‘‘ مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں‘ ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے‘

ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے‘ ہم سیدھا چل سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ جھک سکتے ہیں اور ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں‘ ہم آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے چھو‘ ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل‘ اس کے کرم کے قرض دار ہیں اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیوںکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے‘ ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…