ضیاء محی الدین سے میرا پہلا تعارف میرے ایک استاد نے سکول میں کرایا تھا‘ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا‘ ٹیلی ویژن اس زمانے میں خال خال ہوتا تھا‘ پورے محلے میں ایک سیٹ ہوتا تھا اور لوگ کھڑکیوں سے لٹک کر اور دہلیزوں پر بیٹھ کر ڈرامے‘ شوز اور خبریں دیکھتے تھے‘ ہم محلے میں نسبتاً امیر لوگ تھے لہٰذا ہمارے گھر میں فلپس کا بلیک اینڈ وائیٹ ٹیلی ویژن تھا‘
ٹی وی کو ناب گھما کر آن کیا جاتا تھا اور یہ چلنے سے پہلے گرم ہوتا تھا‘چرررررکی آواز آتی تھی‘ پھر سکرین پر ہلکا سا جھماکا ہوتا تھا اور پھر آڑھی ترچھی لکیریں تصویر میں بدل جاتی تھیں‘ اس زمانے میں پی ٹی وی پر ضیاء محی الدین شو چلتا تھا‘ یہ بہت مشہورتھا مگر ہم بچوں کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا چناں چہ ہم شو کے وقت گلی ڈنڈا کھیلنے چلے جاتے تھے یا باندر کلہ کھیلتے تھے‘ اس دور میں ایک دن ہمارے کسی استاد کا کوئی پرانا شاگرد ملاقات کے لیے آیا اور ان سے بے روزگاری کا گلہ کرنے لگا‘ شاگرد نے تازہ تازہ بی اے کیا تھا اور وہ زارو قطار نوکری تلاش کر رہا تھا‘ ہمارے ماسٹر صاحب نے توجہ سے اس کی بپتا سنی اور آخر میں ضیاء محی الدین کا حوالہ دے کر بولے ’’تم ضیاء محی الدین کو سنا اور دیکھا کرو‘ اس شخص نے تلفظ کو اپنا روز گار بنا لیا ہے اور یہ اس سے ماہانہ ہزاروں روپے (یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم ہوتی تھی) کما رہا ہے‘ تم بھی اپنے اندر کوئی ایسی خوبی پیدا کر لو‘ تم بھی روزگار کی تکلیف سے آزاد ہو جائو گے‘‘ یہ بات میرے پردہ سماعت سے ٹکرائی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دماغ سے چپک گئی‘ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو یہ ضیاء محی الدین کی طرح صرف تلفظ کے سہارے بھی زبردست قسم کی زندگی گزار سکتا ہے۔ہم انسان صرف تین وجوہات سے کام کرتے ہیں‘ ہم امیر ہونا چاہتے ہیں‘ ہم مشہور ہونا چاہتے ہیں اور ہم طاقتور بننا چاہتے ہیں‘ یہ تین پی ہماری زندگی کی ڈرائیونگ فورسز ہوتی ہیں‘ پی سے پیسہ‘پی سے پاپولیرٹی اور پی سے پاور اور یہ حقیقت ہے قدرت نے دنیا میں بہت کم ایسے پیشے تخلیق کیے ہیں جن میں یہ تینوں چیزیں ایک ہی جگہ دستیاب ہوں‘
ضیاء محی الدین ایک ایسی شخصیت تھی جنہیں اللہ نے تلفظ کے ذریعے ان تینوں نعمتوں سے نواز دیا‘ یہ تلفظ کی وجہ سے مشہور بھی ہوئے‘ پیسہ بھی کمایا اور یہ مختلف اوقات میں مختلف اداروں کے سربراہ بھی رہے اور مختلف اداروں کے مختلف سربراہ اپنی تمام تر اتھارٹی کے باوجود ان کے اردگرد طواف بھی کرتے رہتے تھے‘ ضیاء صاحب نے یہ سب کچھ تلفظ‘ لہجے اور گفتگو کے سلیقے سے حاصل کیا‘
میں نسلاً پنجابی ہوں لہٰذا میں جانتا ہوں پنجابیوں کے لیے اردو اور انگریزی سیکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے‘ ہم یہ دونوں زبانیں روانی سے پڑھ اور لکھ تو سکتے ہیں لیکن یہ دونوں ہمارے حلق میں نہیں اترتیں‘ ہم چار جنم لے لیں تو بھی ہم’’ منقار زیر پر‘‘ کو دہلوی اور لکھنوی لہجے میں نہیں بول سکتے مگر ضیاء محی الدین ایک ایسے پنجابی تھے جو انگریزی بولتے تھے
تو انگریز اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیتے تھے اور یہ جب اردو کے میدان میں اترتے تھے تو بڑے سے بڑے اردو دان کے چھکے بھی چھوٹ جاتے تھے اور وہ ان کے حلق کی گراریوں پر رشک کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا‘ ضیاء صاحب کا کمال تھا یہ جب اردو بولتے تھے تو انگریزی کا ایک لفظ ان کی زبان پر نہیں آتا تھا اور یہ جب انگریزی بولتے تھے تو ان کے اندر سے شیکسپیئر نکل آتا تھا لہٰذا ہم اگر یہ کہیں یہ اپنی ذات میں ڈیوڈ بانکے علی خان تھے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
ضیاء محی الدین کی جوانی میں ن م راشد‘ فیض احمد فیض اور مجید امجد بڑے شاعر تھے‘ یہ لوگ جتنے بڑے شاعر تھے یہ اتنا ہی اپنی شاعری کو برا پڑھتے تھے‘ پورے برصغیر میں غالب‘ میر تقی میر اور علامہ اقبال کو اچھے طریقے سے پڑھنے والے لوگ بھی موجود نہیں تھے‘ ضیاء صاحب کو محسوس ہوا برصغیر میں نثر اور شاعری پڑھنے کی صنعت خالی پڑی ہے چناں چہ یہ اس میدان میں کود پڑے
اور اپنی ساری صلاحیتیں تلفظ اور ادائیگی پر لگا دیں‘ یہ الفاظ کو ان کے اصل مخرج سے پکڑ کر بولنے لگے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں اداکاری اور آواز کا فن دے رکھا تھا‘ انہوں نے اپنی یہ دونوں صلاحیتیں تلفظ میں شامل کر لیں اور پھر برصغیر پاک وہند کے ادب پر حکمرانی کرنے لگے‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ضیاء محی الدین کی آواز زیادہ جان دار نہیں تھی‘ ان کی آواز میں ایک پیدائشی لرزہ تھا‘
ان کی آواز کانپتی اور لڑکھڑاتی تھی لیکن یہ ان کا کمال تھا انہوں نے اس شکستہ‘ لرزتی اور کانپتی آواز کو اپنی طاقت بنا لیا‘ اسے فن میں تبدیل کر دیا اور پوری دنیا ان کی گرویدہ ہو گئی‘ ظرافت میں مشتاق احمد یوسفی کا کوئی متبادل نہیں تھا لیکن یوسفی صاحب کو بھی فیض صاحب اور مجید امجد کی طرح پڑھنا نہیں آتا تھا‘
انہیں پڑھا صرف ضیاء محی الدین صاحب نے تھا‘ یوسفی صاحب کا ہر وہ مضمون جو ضیاء صاحب کے حلق سے ادا ہو گیا وہ نقطہ کمال تک پہنچ گیا اور جو صفحہ ان کی نظر اور آواز سے پوشیدہ رہ گیا وہ گم نامی کا شکار ہو گیا‘ شاید اسی لیے یوسفی صاحب نے فرمایا تھا ’’اے خدا قیامت میں میرا نامہ اعمال ضیاء محی الدین سے پڑھوانا کہ لوگ میرے گناہوں کے بجائے ان کی پڑھت میں مگن رہیں‘‘
یوسفی صاحب کا یہ بھی فرمانا تھا ضیاء محی الدین مردہ سے مردہ شاعر کو بھی پڑھ کر زندہ کر دیتے ہیں اور یہ دونوں آبزرویشنز حرف بہ حرف درست ہیں‘ ضیاء صاحب نے برے سے برے شاعروں اور نثرنگاروں اورانتہائی بچگانہ لطائف کو بھی پڑھ کر ادب کا درجہ دے دیا‘
دنیا بھر کے ادیب ہاتھوں سے لکھتے اور شاعر سوچ سے شعر بُنتے ہیں لیکن ضیاء صاحب نے پوری زندگی آواز اور لہجے سے ادب تخلیق کیا‘ ٹیلی ویژن پر آج بھی گوجر خان کی کسی ہائوسنگ سکیم کا اشتہار چلتا ہے‘ اس اشتہار میں ضیاء محی الدین کی آواز ہے‘ آپ یہ اشتہار سن لیں‘ پلاٹ بکیں یا نہ بکیں اور سکیم بنے یا نہ بنے لیکن ضیاء محی الدین کی آواز نے گوجر خان اور ہائوسنگ سکیم دونوں کو امر کر دیا‘
ضیاء صاحب ادب میں ایک نئی صنف کے بانی بھی ہیں اور وہ صنف ہے ’’پڑھت‘‘ یعنی دوسروں کے نثر پاروں اور شاعری کو پڑھنا‘ ضیاء صاحب سے پہلے گلوکار شاعری گاکر عام کر دیتے تھے‘ نثر صرف اخبار یا کتاب میں پڑھی جاتی تھی یا پھر فلموں‘ ڈراموں اور سٹیج پر مکالموں کی شکل میں پیش کی جاتی تھی لیکن ضیاء صاحب نے ان دونوں کو ’’پڑھت‘‘ میں تبدیل کرکے دنیا کو بتایا شاعری اور نثر کو سٹیج پر پڑھا بھی جا سکتا ہے
اور اس سے لذت اور لطف بھی لیا جا سکتا ہے اور فن کار اس فن سے خوش حال اور مطمئن زندگی بھی گزار سکتے ہیں‘ ضیاء صاحب لفظوں کو توڑ کر اس طرح بولا کرتے تھے کہ ان کے معانی واضح ہو جاتے تھے‘ میں نے فیض صاحب کی نظم تنہائی درجنوں مرتبہ پڑھی لیکن مجھے
’’پھر کوئی آیا دل زار‘‘ کی سمجھ ضیاء محی الدین سے آئی‘ ضیاء صاحب ایک ایک لفظ اور ایک ایک مصرعے کو اس طرح الگ کر کے پڑھاتے تھے کہ پوری نظم تنہائی اور نارسائی کے دکھوں کے ساتھ دل پر اتر جاتی تھی‘ میں نے یہ بیسیوں مرتبہ ضیاء صاحب کی آواز میں سنی اور ہر بار اس کے احساس اور گہرائی میں اضافہ محسوس کیا۔ضیاء محی الدین روزانہ تین چار گھنٹے مطالعہ کرتے تھے‘
پسندیدہ پیرا گراف اور فقرے انڈر لائین بھی کرتے تھے اور انہیں الگ بھی لکھ لیتے تھے۔ ’’پڑھت‘‘ سے قبل تمام الفاظ پر اعراب لگاتے تھے‘ زیر‘ زبر اور شد کا خصوصی خیال رکھتے تھے‘ فقروں کو سانس اور معانی کے مطابق توڑتے تھے‘ روکو مت جانے دو کو بولنے سے پہلے یہ فیصلہ کرتے تھے یہ روکو‘ مت جانے دو ہے یا پھر روکو مت‘ جانے دو ہے اور پھر پوری تسلی کے بعد اسے بولتے
یا ریکارڈ کراتے تھے‘ آواز سے اداکاری کیا کرتے تھے‘ اداس لمحات کو اداسی‘ جذباتی صورت حال کو جذباتی اور ظریفانہ پس منظر کو ظریفانہ انداز سے بیان کرتے تھے‘ آپ کہا کرتے تھے ہم نے لوگوں کو رلانا ہے خود نہیں رونا‘ ہم نے لوگوں کو ہنسانا ہے خود نہیں ہنسنا لہٰذا یہ رلانے والی باتوں پر روتے نہیں تھے اور ہنسنے والی باتوں پر ہنستے نہیں تھے صرف ان کی آواز کا زیرو بم سننے اور دیکھنے والوں تک پہنچتا تھا اور وہ کیفیت کے مطابق ہنستے اور روتے تھے۔
ضیاء محی الدین کی خاندانی زندگی اتار چڑھائو کا شکار رہی‘ پہلی بیگم سرورزمانی سے دو صاحب زادے ہیں‘ ان سے آخری وقت تک رابطہ رہا‘ دوسری بیگم ناہید صدیقی کتھک ڈانسر تھیں‘ ان سے بھی ایک صاحب زادے ہیں‘ یہ بھی پوری زندگی والد سے رابطے میں رہے اور تیسری بیگم عذرا زیدی ان سے
عمر میں چالیس سال چھوٹی ہیں‘ ان سے ان کی صاحب زادی ہیں اور یہ لندن میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘ یہ تیسری بیگم ملک کے نامور صحافی مظہر عباس کی عزیزہ ہیں‘ ضیاء صاحب آخر وقت تک ان کے ساتھ رہے‘ ہم اگر ضیاء محی الدین کی زندگی کا چند لفظوں میں تجزیہ کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں انسان اگر چاہے تو یہ تلفظ اور پڑھت کے سہارے بھی شان دار اور بھرپور زندگی گزار سکتا ہے‘ آپ بھی پڑھت کی انڈسٹری میں آ کر ضیاء محی الدین بن سکتے ہیں بس ان جتنی تپسیا کرنا پڑے گی۔