ضیاء محی الدین صاحب پنجابی اوریجن تھے‘ خاندان مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک سے نقل مکانی کر کے لائل پور (فیصل آباد) آیا اور ضیاء صاحب نے 1931ء میں فیصل آباد ہی میں آنکھ کھولی‘ پنجابی پس منظر میں پلے بڑھے لیکن انگریزی اور اردو دونوں زبانیں ان پر فدا تھیں اور انہوں نے پوری زندگی ان کے عشق میں گزار دی‘ پروفیشنل ایکٹر اور صدا کار تھے‘
اداکاری کی انٹرنیشنل اکیڈمیز سے باقاعدہ تعلیم اور تربیت حاصل کی‘ ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی کام کیا‘ برطانیہ میں سٹیج ڈرامے بھی کرتے رہے‘ شیکسپیئر ازبر تھا اور یہ سٹیج پر اس کے کرداروں کو ان کی زبان میں بیان کرتے تھے‘ پاکستان میں ضیاء محی الدین شو کے نام سے مقبول ترین ٹی وی شو بھی کرتے رہے اور پوری زندگی اردو نثر بھی پڑھتے رہے‘ ضیاء صاحب کو سن کر‘ دیکھ کر یہ کہا جا سکتا تھا انسان صرف تلفظ کی بنیاد پر بھی زندگی گزار سکتا ہے۔ضیاء محی الدین 13 فروری 2023ء کو 91برس کی عمر میں کراچی میں انتقال فرما گئے‘ یہ حقیقتاً لیجنڈ تھے‘ ایک ایسے لیجنڈ جو قوموں میں کبھی کبھار ہی پیدا ہوتے ہیں‘ آج کی نسل یقینا ان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہو گی لیکن ہماری اور ہماری بزرگ نسل نے ضیاء صاحب کے سائے میں زندگی گزاری چناں چہ ان کے جانے کا ہمیں بہت نقصان ہوا‘ یہ ایک حیران کن شخصیت کے مالک تھے ‘ یہ 91 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے لیکن انہوں نے ایک دن بھی علالت میں نہیں گزارا‘ یہ کوئی دوا نہیں کھاتے تھے‘ یہ جب آخر میں تین دن کے لیے ہسپتال داخل ہوئے اور ہسپتال کے عملے اور ڈاکٹرز نے ان کی بیگم عذرا زیدی سے ان کی ادویات کی تفصیل پوچھی تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے ضیاء صاحب 91 سال کی عمر میں بھی بلڈ پریشر‘ دل‘ شوگر‘ گردوں اور ہڈیوں کی کوئی دوا نہیں کھا رہے تھے‘ انہوں نے زندگی میں صرف دو تین مرتبہ بروفین اور کورونا میں پانچ دن پینا ڈول لی تھی اور بس‘ یہ گھر میں دوسری منزل پر رہتے تھے
اور یہ آخری دنوں تک سیڑھیاں چڑھ کر اپنے بیڈ روم میں جاتے اور آتے تھے جب کہ عام لوگ ساٹھ سال کے بعد سیڑھیاں چڑھنا اترنا بند کر دیتے ہیں‘ یہ ایک غیر معمولی بات تھی لہٰذا میں نے ضیاء صاحب کی صحت کا نسخہ حاصل کرنے کے لیے ان کی بیگم سے رابطہ کیا اورمیں ان کی عادتیں جان کر حیران رہ گیا مثلاً بیگم صاحبہ کا کہنا تھا‘ ضیاء صاحب کی کھانے کی عادت عام لوگوں سے مختلف تھی‘
یہ ہر صبح موسمی پھل کا جوس ضرور لیتے تھے‘ انار کے دنوں میں انار اور کینو کے دنوں میں کینو کے جوس کا ایک گلاس آخر تک ان کی روٹین رہا‘ جوس کے ساتھ موسمی پھل بھی لیتے تھے لیکن مقدار بہت ہی کم ہوتی تھی‘ یہ سیب بھی دو پھانکوں سے زیادہ نہیں کھاتے تھے‘ خربوزے کی صرف ایک پھانک لیتے تھے‘ تربوز کی بھی صرف ایک بائیٹ کافی تھی‘ کیلا یہ ہمیشہ آدھا کھاتے تھے‘
کیلے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے اور پھر اسے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر کھالیتے تھے‘ یہ تمام پھل بھی اکٹھے نہیں لیتے تھے‘ ایک دن سیب کی دو پھانکیں‘ دوسرے دن خربوزے کی ایک پھانک‘ تیسرے دن تربوز کی بائیٹ اور چوتھے دن آدھا کیلا‘ ناشتہ روز تبدیل کرتے تھے
آدھا ٹوس‘ اس پر غیر نمکین تھوڑا سا مکھن اور بس‘ دوسرے دن سیریل لے لیا‘ تیسرے دن انڈہ ٹوس اور چوتھے دن آدھے ٹوس پر تھوڑا سا مارمائیٹ لگا لیا‘یہ بھی لندن سے آتا تھا اور ایک بوتل چار پانچ ماہ نکال جاتی تھی‘ ناشتے کا وقت طے تھا‘ آگے پیچھے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ لنچ میں ابلے ہوئے انڈوں کا سینڈوچ اور سالاد کھاتے تھے‘ سالاد میں گاجر‘ کھیرا‘ بند گوبھی اور سالاد کے پتے ہوتے تھے
اور ان پر معمولی سی ہری چٹنی ہوتی تھی‘ کبھی دال اور پاستہ بھی لے لیتے تھے لیکن یہ کھانا بھی بہت کم ہوتا تھا‘ شام کی چائے پانچ بجے پیتے تھے‘ اس میں ایک سیکنڈ کی تاخیر بھی ممکن نہیں تھی لیکن چائے کے صرف تین سپ لیتے تھے‘ پوری زندگی چائے کا چوتھا گھونٹ نہیں بھرا‘ اس کے ساتھ سپر بسکٹ کا آدھا ٹکڑا یا گلاب جامن یا کوئی اور مٹھائی لے لیتے تھے مگر ضیاء صاحب کا ایک گلاب جامن چھ دن چلتا تھا‘
یہ چائے کی چمچ سے گلاب جامن کے چھ ٹکڑے کرتے تھے اورایک دن صرف ایک ٹکڑا کھاتے تھے اور بس‘ موتی چور کا لڈو‘ امرتی اور دودھ والی سویاں بھی پسند تھیں لیکن یہ بھی صرف ایک ٹی سپون لیتے تھے‘ پانچ بجے سے آٹھ بجے تک کچھ نہیں کھاتے تھے‘ آپ انہیں چاول کا ایک دانا بھی نہیں کھلا سکتے تھے تاہم ان کا ڈنر بڑا ہوتا تھا‘ اس میں یہ ٹماٹر یا سبزیوں کا سوپ ضرور لیتے تھے‘
میز پر چار پانچ کھانے رکھے جاتے تھے اور ان میں سے بھی یہ بہت ہی معمولی مقدار میں تمام چیزیں ٹرائی کرتے تھے‘ سگریٹ پیتے تھے مگر ایک سگریٹ دن میں تین بار استعمال ہوتا تھا‘ سگریٹ سلگاتے تھے‘ دو کش لگاتے تھے اور پھر بجھا دیتے تھے‘ تین گھنٹے بعد اسی سگریٹ کو دوسری بار سلگا کر دو کش لے لیتے تھے اور پھر شام کے وقت تیسری مرتبہ وہی سگریٹ سلگا کر ختم کر دیتے تھے لہٰذا یہ تیس دنوں میں صرف تیس سگریٹ پیتے تھے۔
ضیاء محی الدین کا ڈسپلن بھی کمال تھا‘ یہ پوری زندگی صبح پونے نو بجے اٹھے‘ اٹھ کر 15 منٹ واک کی‘ تیار ہوئے اور ناشتہ کیا‘ لنچ پوری زندگی پونے دو بجے کیا‘ ناپا (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس) میں خدمات کے دوران لنچ دو بجے پر شفٹ ہو گیا اور یہ روٹین بھی آخری دن تک جاری رہی‘ پوری زندگی شام کی چائے پانچ بجے پی‘ اس میں دس سیکنڈ کی تاخیر بھی نہیں ہوئی‘
ایک مرتبہ ملازم نے چائے دس سیکنڈ لیٹ کر دی‘ ضیاء صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور کہا‘ بیٹا آپ لیٹ ہو گئے ہو ہم اب چائے کل پئیں گے‘ ملازم نے گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا ’’صاحب صرف دس سیکنڈ لیٹ ہوئے ہیں‘‘ یہ بولے ’’نہیںاب 30 سیکنڈ اوپر ہو چکے ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر ٹیبل سے اٹھ گئے‘ رات کا کھانا ہر صورت 8 بجے ہی کھایا‘ رات ساڑھے گیارہ بجے سونے کے لیے چلے جاتے تھے‘
کتابیں اور نوٹس سٹڈی میں ہوتے تھے‘ بیڈروم میں صرف سونے کے لیے جاتے تھے‘ رات کو اگر کوئی بات یاد آ جاتی تھی تو یہ اوپر سے نیچے آتے تھے‘ نوٹس بناتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے‘ گھڑی نہیں باندھتے تھے لیکن نظریں ہمیشہ گھڑی کی طرف رہتی تھیں‘ مہمان خواہ صدر ہو یا وزیراعظم وہ اگر لیٹ ہو گیا تو یہ ملاقات سے معذرت کر لیتے تھے‘
ناپا میں پڑھانا شروع کیا تو کلاس سے پہلے ان کا سیکرٹری طالب علموں کی گنتی کرتا تھا اگر 30 طالب علموں کی کلاس میں کم از کم 20 سٹوڈنٹس ہوتے تھے تو یہ کلاس لے لیتے تھے اور اگر تعداد 19 ہو تی تو یہ کلاس نہیں لیتے تھے‘ جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر ایک دن فون کیا‘ یہ رات کا کھانا کھا رہے تھے‘ ملازمہ نے جواب دے دیا ’’صاحب کھانا کھا رہے ہیں اور یہ کھانے کی میز سے کھانے کے دوران نہیں اٹھتے‘
آپ آدھ گھنٹہ بعد فون کیجیے گا‘‘ آدھ گھنٹہ بعد فون آیا تو آپریٹر نے ضیاء صاحب کو ہولڈ نہیں کرایا‘ یہ صدر کو فون پر پہلے لے کر آیا اور ضیاء صاحب نے فون بعد میں اٹھایا‘ شام 40 منٹ واک کرتے تھے‘ یہ روٹین بھی پوری زندگی جاری رہی‘ ضیاء صاحب کی زندگی کا کوئی ایک بھی دن ایسا نہیںگزرا جس میں انہوں نے شام کے وقت 40 منٹ واک نہ کی ہو‘ بیٹی کو بھی آپ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے‘
ملازموں کوبیٹا کہتے تھے‘ چیزوں کو ترتیب سے رکھنا‘ صفائی کا خیال رکھنا ان کی فطرت تھی‘ گھر کی کوئی چیز ٹیڑھی ہوتی تھی تو یہ کسی کو بلا کر اسے سیدھا نہیں کراتے تھے‘ خود اٹھ کر اسے سیدھا کر دیتے تھے‘ آخری دن جب ہسپتال جا رہے تھے تو دیکھا دہلیز پر جوتے ٹیڑھے پڑے ہوئے ہیں‘ یہ اپنی تکلیف بھول گئے‘ گاڑی سے اترے اور جوتے سیدھے کر کے ہسپتال گئے‘ کرسیاں‘ میز‘ گل دان‘ سرہانے اور صوفے غرض گھر کی ہر چیز ترتیب سے رکھتے تھے‘ انہیں بے ترتیبی قطعاً پسند نہیں تھی۔
ضیاء محی الدین پوری زندگی بیمار نہیں ہوئے‘ اس کی وجہ ان کا ڈسپلن اور کھانے میں احتیاط تھی‘ انسان ہمیشہ ڈسپلن میں کمی اور کھانے میں بے احتیاطی سے بیمار ہوتا ہے اور ضیاء صاحب نے یہ مسئلہ ایک ہی بار حل کر لیا تھا چناں چہ پوری زندگی صحت مند رہے تاہم بڑھاپے کی وجہ سے ایک بار گر گئے‘ اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا پروردگار مجھے چلتے پھرتے لے جانا‘
میرا بوجھ کسی کے کندھوں پر نہ ڈالنا‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سن لی‘ فروری کے دوسرے ہفتے ان کے پیٹ میں درد ہوا‘ ہسپتال لے جائے گئے‘ پتا چلا اپینڈکس پھٹ گیا ہے ‘انٹرنل بلیڈنگ ہو رہی ہے‘ضیاء صاحب کے لیے خون کی ضرورت تھی‘یہ سن کر ناپا کے تمام طالب علم خون دینے کے لیے قطار میں کھڑے ہو گئے‘ ہسپتال کی انتظامیہ نے آج تک یہ منظر نہیں دیکھا تھا کہ
کسی استاد کے لیے شاگرد اس طرح خون دینے کے لیے تیار بیٹھے ہوں‘ بہرحال دو دن آئی سی یو میں رہے‘ آخری بار آنکھیں کھولیں‘ کمرے کا پردہ الجھا ہوا تھا‘ نرس کو ہاتھ کے اشارے سے پردہ سیدھا کرنے کا اشارہ کیا‘ نرس نے پردہ درست کر دیا‘ ضیاء صاحب نے لمبی سانس لی اور ہمیشہ کے لیے
آنکھیں موند لیں اور یوں ادب‘ صدا کاری‘ اداکاری اور ڈسپلن کا ایک شان دار باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا‘ ہم ضیاء محی الدین سے محروم ہو گئے لیکن یہ جاتے جاتے یہ بتا گئے زندگی اس طرح بھی گزاری جا سکتی ہے اور یہ عام لوگوں کے مقابلے میں طویل اور اچھی بھی ہو سکتی ہے۔