یہ جرمنی کا واقعہ ہے‘ میرے ایک دوست 80 کی دہائی میں جرمنی میں کام کرتے تھے‘ یہ زرعی آلات کی فیکٹری تھی ‘ میرا دوست صبح سات بجے فیکٹری جاتا تھا اور شام پانچ بجے واپس آ جاتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘ ایک رات یہ گھر میں بیٹھا تھا‘
فیکٹری سے اس کے جرمن کولیگ کا فون آ گیا‘ کولیگ کو ڈیزائن کی فائل نہیں مل رہی تھی‘ میرا دوست رات کو کولیگ کا فون سن کر حیران رہ گیا‘ وہ جرمن کولیگ اس کے ساتھ دفتر سے گھر گیا تھا چنانچہ اس کا دوبارہ دفتر جانااوررات دس بجے اسے فون کرنا اچنبھے کی بات تھی ‘ میرا دوست گھر سے فیکٹری چلا گیا‘ وہ فیکٹری پہنچا تو وہ وہاں کا ماحول دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ فیکٹری کی تمام لائٹس آن تھیں‘ مشینیں چل رہی تھیں‘ دفتر کھلا تھا اور جرمن مزدور دھڑا دھڑا کام کر رہے تھے‘ میرے دوست نے فائل نکالی‘ اپنے کولیگ کو دی اور اس سے پوچھا ’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ جرمن کولیگ نے حیرت سے کہا ’’کیا تم نہیں جانتے ہم جرمن شام کے کھانے کے بعد دوبارہ فیکٹری آتے ہیں اور رات بارہ بجے تک کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست کو یہ معلوم نہیں تھا‘ اس نے معذرت کر لی‘ جرمن کولیگ بولا ’’ہم جرمن پورے ملک میں رات کے وقت بھی دو‘ تین گھنٹے کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’کیا یہ اوور ٹائم ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جوا ب دیا ’’نہیں‘ہم یہ کام مفت کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’اور کیا یہ تمام جرمنوں کی عادت ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہاں یہ پورے جرمنی میں‘ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہوتا ہے‘ ہم لوگ شام کے وقت گھر جاتے ہیں‘ بچوں سے ملتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں‘ چائے کافی پیتے ہیں اور دوبارہ دفتر آ جاتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور رات گئے واپس گھر چلے جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’تمہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہم یہ کام مالی فائدے کے لیے نہیں کرتے‘ یہ نیشنل سروس ہے ‘ اس کا فائدہ پوری قوم کو ہوتا ہے‘
دوسرا ایکسٹرا کام کی وجہ سے ہماری مہارت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے‘ ہم اپنے کام میں زیادہ ماہر ہو جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’لیکن آپ لوگ ہم غیر ملکیوں کو اس سروس میں شامل کیوں نہیں کرتے‘‘ اس نے جواب دیا ’’آپ ہمارے مہمان ہیں‘ آپ پیسے کمانے کے لیے جرمنی آئے ہیں‘ ہم آپ پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ‘ہم جرمن بھی اس کے پابند نہیں ہیں‘ ہم اگر رات کی شفٹ میں فیکٹری نہیں آتے تو ہمیں کوئی پوچھ نہیں سکتا مگرہم میں سے اکثریت اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر یہاں آ جاتی ہے‘‘ میرے دوست نے اس سے آخری سوال پوچھا ’’لیکن تمہارے ایکسٹرا کام کا فائدہ فیکٹری مالک کو ہوتا ہے‘
اس کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ تم فائدے میں شیئرز طلب کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’میں کمائوں یا میرا مالک کمائے فائدہ بہرحال جرمن قوم کو ہوگا‘ میرے کام سے میرے مالک کو زیادہ بچت ہو گی‘ یہ اس بچت سے دوسری فیکٹری لگا ئے گا‘ اس فیکٹری میں نئی جابز نکلیں گی اوران جابز سے میرے کسی بھانجے‘ بھتیجے‘ بھائی‘ بہن یا بچی کو فائدہ ہو گا لہٰذا مجھے اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے‘‘ یہ دلائل سن کر میرے دوست کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
میرے دوست کے لیے حیرانی کی دوسری بات ڈیوٹی کی پابندی تھی‘ وہ بار بار دیکھتا تھا اس کے جرمن کولیگز رات دو بجے تک شراب پیتے ہیں‘ ڈسکو کلبز میں ڈانس کرتے ہیں‘ بڑی مشکل سے گرتے پڑتے‘ ٹیکسیوں اور بسوں پر گھر پہنچتے ہیں لیکن صبح آٹھ بجے وقت مقررہ پر دفتر ہوتے ہیں۔میرا دوست انہیں جب بھی نشے میں دیکھتا تھا یہ سمجھتا تھا یہ صبح وقت پر نہیںاٹھ سکیں گے لیکن یہ نہ صرف وقت پر اٹھتے تھے بلکہ یہ کام پر بھی پہنچتے تھے اور معمول کے مطابق کام بھی کرتے تھے‘ میرے دوست نے جرمنوں کی یہ دونوں عادتیں بتائیں تو مجھے اس کے ساتھ ہی جاپانی قوم یاد آ گئی۔
جاپانی قوم بھی کام کے معاملے میں ان تھک ہے‘ جاپانی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی تاجر بتاتے ہیںہم جس وقت جاپان فون کرتے ہیں ہمیںان کے دفتر کھلے ملتے ہیں اور دوسری طرف سے باقاعدہ ریسپانس بھی ملتا ہے‘ مجھے چند دن قبل لاہور کے ایک دوست نے دل چسپ بات بتائی‘ یہ دوست جاپان سے کاغذ امپورٹ کرتا ہے‘ دوست نے بتایا‘ مجھے جاپان سے اکثر رات کے وقت فون آ جاتا ہے ‘ وہ لوگ مال کے بارے میں پوچھتے ہیں یا پھر بتاتے ہیں‘
میں نے ایک دن ان سے پوچھ لیا’’آپ لوگ کام کس وقت سٹارٹ کرتے ہیں‘‘ انہوں نے جواب دیا’’ ہم صبح ساڑھے چھ بجے دفتر آ جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’واپس کب جاتے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’عموماً رات کے سات آٹھ بج جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا دفتر کے تمام لوگ اسی وقت آتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ بعض لوگ صبح پانچ ‘ساڑھے پانچ بجے آ جاتے ہیں اور ہمارے بعد گھر جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا ان لوگوں کو اوور ٹائم ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ ہم اوور ٹائم نہیں لیتے‘ ہم کام ختم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں‘
ہم میں سے جو شخص کوئی کام شروع کرتا ہے وہ اس وقت تک گھر نہیں جاتا جب تک وہ کام مکمل نہیں ہو جاتا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن تمہیں اس مشقت سے کیا ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’تسکین‘ اطمینان اور خوشی‘‘۔
یہ جرمنی اور جاپان دو ایسے ملکوں کی مثالیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے‘ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو آپس میں تقسیم کر لیا‘ کساد بازاری اور افراط زر کی حالت یہ تھی چائے کیتلی سے کپ میں گرتے گرتے مہنگی ہو جاتی تھی‘
لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر لے جاتے تھے اور بڑی مشکل سے ایک کلو آلو ملتے تھے‘ جرمنی کا ہر دوسرا مرد قبرستان میں تھا اور پہلا زخمی اور جنگ کے دس سال بعد تک خواتین کو شادی کے لیے مرد نہیں ملتے تھے‘ جاپان کی حالت اس سے بھی پتلی تھی‘ جاپان کے دو جدید اور صنعتی شہر ناگا ساکی اور ہیروشیما ایٹم بم سے تباہ ہو گئے ‘ جنگ میں ناکامی کی وجہ سے پوری قوم ڈی مورلائزڈ تھی‘ امریکیوں نے جاپان کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا‘ فوج ختم کر دی ‘
ہتھیار ضبط کر لیے اور شہریوں کو جبری مشقت پر لگا دیا لیکن صرف دس برسوں میں جاپان اور جرمنی نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑے تھے بلکہ یہ ترقی کی دوڑ میں سر پٹ بھاگتے ملکوں کی فہرست میں بھی شامل تھے‘ ہم آج جرمنی اور جاپان کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہماری ٹوپیاں فرش پر آ جاتی ہیں اور ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ’’کیا کبھی ہم بھی جاپان یا جرمنی بن سکیں گے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں ہمالیہ جتنا بڑا’’نہیں‘‘ جگمگانے لگتا ہے‘ ہم جرمنی اور جاپان کیوں نہیں بن سکتے اس کی واحد وجہ ہمارا رویہ ہے‘ ہم کام نہیں کرتے ‘ ہم 22 کروڑ لوگوں میں سے نوے فیصد لوگ کام کو توہین سمجھتے ہیں اور باقی جو دس فیصد کام کرتے ہیں یہ بھی کام کو بوجھ سمجھ کر سر سے پٹختے رہتے ہیں‘
آپ صبح دفتروں کا چکر لگا کر دیکھ لیجیے‘ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں دس ساڑھے دس بجے تک حاضری پوری نہیں ہوتی اور لوگ چار بجے سے پہلے گھروں کو رخصت ہو چکے ہوتے ہیں اور ان چار ‘ساڑھے چار گھنٹوں کے درمیان چائے‘ لنچ اور نماز کا وقفہ بھی آتا ہے‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہم پر نماز فرض ہے ‘ ہمیں نماز ضرور پڑھنی چاہیے لیکن ہمیں نماز کے وقت کے برابر اپنی ڈیوٹی بڑھا لینی چاہیے ‘ ہمیں پانچ کے بجائے ساڑھے پانچ یا چھ بجے تک ڈیوٹی کرنی چاہیے تا کہ ہم اپنا وہ وقت پورا کر سکیں جس کا ہم معاوضہ لے رہے ہیں‘ اسی طرح ہم لوگ صرف ڈیوٹی پر آنے کا معاوضہ لیتے ہیں‘
ہم کام‘ کام کی تکمیل اور کام کی نفاست کا معاوضہ نہیں لیتے چناںچہ ہم دفتروں اور فیکٹریوں سے یوں بھاگ کر باہر نکلتے ہیں جیسے وہاں آگ لگ گئی ہو‘ہم اپنے کام کو دوسرے کا کام سمجھتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ بھی ملک کو معاشی قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دے رہا‘ ہم اسی لیے دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں‘ ہم اگر اس ملک کو جرمنی یا جاپان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح کام کرنا ہوگا ورنہ ہم اسی طرح بھیک مانگتے رہیں گے۔