میں نے پوچھا ’’عمران خان کا بشریٰ بی بی سے دوسرا نکاح کب ہواتھا ؟‘‘ عون چوہدری نے جواب دیا ’’18 فروری 2018 کو بی بی کی عدت پوری ہونے کے بعد‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیایہ نکاح بھی مفتی سعید نے پڑھایا تھا؟‘‘یہ بولے ’’جی ہاں اور اس کی تصویر ہم نے 18 فروری کو نشر کی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن نکاح نامہ کب تیار ہوا تھا؟‘‘ یہ بولے
’’یکم جنوری 2018کو اور اس پر بی بی کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان دونوں تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ یہ تصدیق کرتے ہیں یہ نکاح عدت کے دوران ہوا تھا اور آپ اس کے گواہ تھے؟‘‘یہ بولے ’’جی ہاں یہ درست ہے اورمیں اور ذلفی بخاری دونوں اس کے گواہ ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مفتی سعید کو علم تھا یہ عدت میں کسی خاتون کا نکاح پڑھا رہے ہیں؟‘‘ یہ بولے ’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ آپ یہ سوال مفتی سعید سے پوچھیں‘‘ میں نے پوچھا ’’بشریٰ بی بی بنی گالا کیسے پہنچیں؟‘‘یہ مسکرا کر بولے ’’یہ ہمارے قائد کی بیگم تھیں‘ یہ ایک چھوٹے سے بکسے کے ساتھ بنی گالا آئیں اور دنوں میں انھوں نے بنی گالا پر قبضہ کر لیا‘ پرانے ملازمین ایک ایک کر کے فارغ کر دیے گئے‘ آپ نے توشہ خانہ سے متعلق ایک آڈیو سنی ہو گی‘ بی بی نے انعام خان کو بھی بنی گالا سے فارغ کر دیا‘ یہ سرکاری گھر میں رہتا تھا‘ اس سے ایک دن میں سرکاری گھر بھی خالی کرا لیا گیا‘ جہانگیر ترین اور میں ان کی ہٹ لسٹ میں تھے‘ جہانگیر ترین کو سیاست اور پارٹی دونوں سے فارغ کر دیا گیاجب کہ میں 17اگست 2018 کی رات وزیراعظم کی حلف برداری کے کارڈز تقسیم کر رہا تھا لیکن پھررات ڈیڑھ بجے مجھے عمران خان کا فون آیا اور کپتان نے مجھے بتایا‘ بشریٰ بی بی نے خواب میں دیکھا اگر تم حلف برداری کے دوران ایوان صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں نظر آئے تو نحوست ہوگی اور میں وزیراعظم نہیں بن سکوں گا چناں چہ تم کل کے فنکشن میں نہیں جائو گے اور یوں میں دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیاگیا‘ میرے بعد صرف وہ لوگ وزیراعظم کے قریب رہے جنھیں بی بی کی منظوری حاصل ہوتی تھی‘ وزارتوں اور سیکریٹریوں تک کا فیصلہ بی بی تصویریں دیکھ کر کرتی تھی‘
بہرحال قصہ مختصر میرے کپتان نے مجھے ستمبر2018 میں وزیراعلیٰ پنجاب کا ایڈوائزربنا دیا اور میں لاہور چلا گیااور اگلے دو سال پنجاب کو عثمان بزدار کے ہاتھوں تباہ ہو تا دیکھتا رہا‘ عثمان بزدار بے وقوف بھی تھا‘ ناتجربہ کار بھی اور کرپٹ بھی‘ میرے سامنے افسر پیسے دے کر کمشنر لگتے تھے‘ لاہور کے ڈی سی اور آر پی او تک رقم دیتے تھے اور پوسٹنگ لیتے تھے‘
میں گواہ ہوں طاہر خورشید سرکاری افسروں سے کولیکشن کرتا تھا اور یہ رقم کہاں کہاں جاتی تھی میں آپ کو بتا نہیں سکتا‘ بشریٰ بی بی کے بچے بھی دنوں میں ارب پتی ہو گئے‘ آپ ان کے اثاثے نکال کر دیکھ لیں آپ کو ساری کہانی سمجھ آ جائے گی‘‘۔ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا ایک میڈیا ٹائیکون سے عمران خان کی ملاقات آپ نے ارینج کرائی تھی‘‘ یہ بولے ’’جی ہاں میں نے بھی اس میں کردار ادا کیا تھا‘
عمران خان 2014 کے دھرنے کے دوران اس سے ناراض ہوگئے تھے‘الیکشن جیتنے کے بعد یہ خان سے صلح کرناچاہتے تھے‘ ہم لوگ حکومت میں آنے سے پہلے عمرے پر سعودی عرب گئے تھے‘ بشریٰ بی بی‘ ذلفی بخاری‘ علیم خان اور ان کی بیگم بھی ہمارے ساتھ تھی‘ میں نے حدود حرم میں ان کی اور عمران خان کی ملاقات کرائی‘ دونوں نے گلے شکوے کر کے اپنے دل صاف کر دیے‘
عمران خان نے انھیں دل سے معاف کر دیا‘ انھیں گلے بھی لگایا لیکن پھر عمران خان نے اسی کو گرفتار کرا دیا اور اٹھا کر جیل میں بھی پھینک دیا‘ میںیہ خبر سن کر حیران رہ گیا کیوں کہ عمران خان نے حدود حرم میں بیٹھ کر یہ اعلان کیا تھا میرے دل میں آپ کے خلاف کوئی شکوہ موجود نہیں اور ہم آج سے دونوں بھائی بھائی ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اس گرفتاری میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی کردار تھا؟‘‘
یہ ہنس کر بولے ’’میں خود اس وقت زیرعتاب تھا لہٰذا میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ سچ ہے اسٹیبلشمنٹ نے اس کو حراست کے دوران رعایتیں دی تھیں اور ان پر بھی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ کیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ یہ گرفتاری کس کے مشورے پر ہوئی تھی؟‘‘
یہ بولے ’’میری اطلاعات کے مطابق یہ گرفتاری بھی بشریٰ بی بی کی ہدایت یا خواب پر ہوئی تھی‘ یہ بی بی سے متعلق خبریں نشر کرتے تھے لہٰذاا نہیں سزا ملی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ نے عمران خان کو عثمان بزدار کی حرکتوں اور کرپشن کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی تھی؟‘‘ یہ بولے ’’میں پوری رپورٹ لے کر عمران خان کے پاس گیاتھالیکن اس رپورٹ کے بعد مجھے وزیراعلیٰ کے
اسپیشل کوآرڈی نیٹر کی پوزیشن سے ہٹا دیا گیااور یوں میں اور علیم خان دونوں فارغ ہو گئے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ سچ ہے 13 جولائی 2018کو جب میاں نواز شریف مریم نواز کے ساتھ لاہور ائیرپورٹ پر اترے تھے توانھیں آپ نے گرفتار کروایا تھا؟‘‘ عون چوہدری یہ سوال سن کر خاموش ہو گئے‘ میں نے دوبارہ پوچھا‘ یہ بولے ’’میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا‘‘
میں نے تیسری مرتبہ زور دے کر پوچھا تو یہ آہستہ آواز میں بولے ’’ہاں یہ درست ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو میرے کہنے پر لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار کیاگیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ یہ بولے ’’25 جولائی 2018 کو جنرل الیکشن تھے‘ بیگم کلثوم نواز بھی علیل تھیں اور میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف 6 جولائی کو عدالتی فیصلہ بھی آ چکا تھا لہٰذا ہمارا خیال تھا
نواز شریف الیکشن سے پہلے واپس نہیں آئیں گے لیکن نواز شریف نے 13 جولائی کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا‘ عمران خان گھبرا گئے اور انھوں نے مجھے بلا کر کہا اگر نواز شریف واپس آ گیا تو ہم یہ الیکشن ہار جائیں گے‘ تم ’’انھیں‘‘ کہو یہ اسے روکیں یا پھر دونوں باپ بیٹی کو گرفتار کر لیں‘
الیکشن سے پہلے نواز شریف کی کوئی تقریر نہیں ہونی چاہیے‘ میں نے عمران خان کا یہ پیغام آگے پہنچا دیا‘ مجھے جواب ملا‘ آپ لوگ صرف الیکشن کمپیئن پر توجہ دیں‘ نواز شریف کی فکر نہ کریں اور یوں 13 جولائی 2018 کو نواز شریف اور مریم بی بی کو لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے نواز شریف کی گرفتاری کی درخواست کس سے کی تھی؟‘‘
عون چوہدری دوبارہ خاموش ہو گئے‘میں نے اپنا سوال دہرا دیا‘ یہ آہستہ بولے ’’ہم کس سے کہہ سکتے تھے؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں‘‘ میں نے زور دے کر پوچھا ’’کیا آپ نے جنرل فیض حمید سے کہا تھا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’جنرل فیض حمید اس وقت اس پوزیشن میں نہیں تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے پھر کس سے کہا تھا؟‘‘ یہ آہستہ آواز میں بولے ’’میں نے جنرل باجوہ سے درخواست کی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے یہ درخواست ان سے براہ راست کی تھی؟‘‘
عون چوہدری نے فوراً جواب دیا’’ جاوید صاحب میں اس ایشو پر مزید ایک لفظ نہیں بولوں گا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’اوکے کوئی بات نہیں‘میں اس تفصیل سے پوری طرح واقف ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا عمران خان کا جنرل باجوہ سے 2017میں پہلا رابطہ ہوا تھا‘‘ یہ بولے ’’جی ہاں یہ درست ہے‘ ہم2017 کے شروع میں پہلی بار جنرل باجوہ سے ملے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا لیفٹیننٹ جنرل ۔۔۔۔۔نے یہ رابطہ کرایا تھا‘‘
یہ دیر تک میری طرف دیکھتے رہے اور پھر مسکرا کر بولے ’’میرا خیال ہے مرشد آپ کو ہونا چاہیے ‘ یہ نام صرف چار لوگوں کو پتا تھا اور مجھے یقین ہے ان چار میں سے کسی نے آپ کو نہیں بتایا ہو گا‘ آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’یہ مجھے میرے موکل نے بتایا تھا‘‘ یہ بھی کھل کر ہنسے اور پھر نہایت سنجیدگی سے جواب دیا ’’میں آپ کو یہ کنفرم نہیں کر سکتا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آپ لوگوں کی ملاقاتیں کہاں ہوتی تھیں؟‘‘ یہ بولے ’’عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقاتیں جنرل باجوہ کے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد کے گھر ہوتی تھیں جب کہ دوسرے لیول کی ملاقاتیں اسلام آباد میں علیم خان کے گھر میں ہوتی تھیں‘
علیم خان کا گھر ہمارے قبضے میں تھا ’’وہ لوگ‘‘ اُدھر سے وہاں آ جاتے تھے اور ہم اِدھر سے وہاں چلے جاتے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’ان ملاقاتوں کا ایجنڈا کیا ہوتا تھا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’الیکشن اور کیا؟ ہم ہر صورت الیکشن جیتنا چاہتے تھے اور ہمارے مہربان ہمیں ہر صورت الیکشن جتوانا چاہتے تھے چناں چہ ہم وہاں الیکشن کی اسٹرٹیجی بناتے تھے‘‘
میں نے پوچھا ’’عمران خان پر پارٹیز یا پلے بوائے کے الزامات لگتے ہیں‘ یہ کس حد تک درست ہیں؟‘‘ یہ سنجیدگی سے بولے ’’میں کبھی ان کی کسی پارٹی میں شریک نہیں ہوا‘ ہمارا ان کے ساتھ احترام کا رشتہ تھا‘ یہ کام اگر ہوتا بھی تھا تو وکی کے گھر ہوتا تھا‘ وہ بے چارہ فوت ہو چکا ہے‘ وہ موبائل زون کمپنی کا مالک تھا اور خان صاحب کا پرانا دوست تھا‘ ہم خان صاحب کو اس کے گھر پر چھوڑ کر واپس آ جاتے تھے وہاں اس کے بعد کیا ہوتا تھا یہ اللہ تعالیٰ اور عمران خان کا معاملہ ہے‘‘۔
نوٹ: میرے گزشتہ کالم میں غلطی سے تاریخیں غلط شایع ہوگئیں‘ آپ مہربانی فرما کر تصحیح کر لیں‘ بشریٰ بی بی کی طلاق 14 نومبر 2017 اور عمران خان سے نکاح یکم جنوری 2018کو ہوا تھا‘ یہ تاریخیں غلطی سے ’’14 نومبر 2016 اور یکم جنوری 2017 شایع ہو گئیں‘ میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔