’’سارے نابالغ ایک سائیڈ پر ہو جائیں اور کان پکڑ لیں‘‘ ہال میں سراسیمگی پھیل گئی‘ یہ فقرہ ہم سب کے لیے عجیب تھا‘ہمیں بلوغت کی دیواریں عبور کیے مدت ہو چکی تھی لہٰذا ہم سامنے کھڑے ڈشکرے کو حیرت سے دیکھنے لگے‘ ڈشکرے نے شیطانی قہقہہ لگایا اور کہا ’’جس جس نے جھوٹے روپ کے درشن پڑھی ہوئی ہے وہ بالغ ہے اور جو ابھی تک اس سے محروم ہے
وہ نابالغ ہے لہٰذا جلدی فیصلہ کرو تم میں نابالغ کون ہے اور بالغ کون؟‘‘ ہم سب بلوغت کے اس ٹیسٹ سے ناواقف تھے چناں چہ ہم نے چپ چاپ کان پکڑ لیے اور ڈشکرا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے ہماری تشریفوں کا معائنہ کرنے لگا۔یہ واقعہ 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی کے 9 نمبر ہاسٹل میں پیش آیاتھا‘ میں نے تازہ تازہ ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا‘ ہاسٹل گیا تو پہلی رات سینئر سٹوڈنٹس نے ہماری ریگنگ شروع کر دی‘ سینئرز کا لیڈر منڈی بہائوالدین کا کوئی چدھڑ تھا‘ شکل اور آواز سے بدمعاش لگتا تھا جب کہ ہم سب چھوٹے چھوٹے چوچے تھے‘ ڈشکرے چدھڑ کا بلوغت کا صرف ایک ہی معیار تھا جس سٹوڈنٹ نے کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پڑھ رکھی ہو وہ اس کی نظر میں بالغ تھا اور باقی نابالغ‘ ہال میں موجود تمام نئے طالب علم اس رات نابالغ نکلے چناں چہ منڈی بہائوالدین‘ پھالیہ اور سرگودھا کے گوندل‘ رانجھے اور چدھڑ ساری رات ہماری تشریفوں پر طبلہ بجاتے رہے‘ میں نے دوسری صبح سب سے پہلے یونیورسٹی کی بک شاپ سے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ خریدی اور شام سے پہلے پہلے بالغ ہو گیا۔یہ راجہ انور کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا‘راجہ انور ایک طلسماتی شخصیت کا نام تھا‘ یہ کلرسیداں کے گائوں درکالی شیرشاہی میں پیدا ہوئے تھے‘ یہ گائوں شیرشاہ سوری نے آباد کیا تھا‘ وہ پانچ سو سال پہلے روات کے گکھڑوں سے مقابلے کے لیے کلرسیداں آیا اور جاتے جاتے یہاں درکاری شیر شاہی چھوڑ گیا‘ راجہ انور نے اس گائوں کی شیرشاہی فضا میں آنکھ کھولی‘
یہ بیک وقت سکالرشپ ہولڈر اور باغی تھے‘ گارڈن کالج راولپنڈی میں 1966ء میں سٹوڈنٹس پالیٹکس میں آئے اور کمال کر دیا‘ صدر یحییٰ خان کا بیٹا علی آغا ان کا کلاس فیلو تھا‘ وہ ایف اے میں فیل ہو گیا لیکن والد نے اسے اٹک آئل کمپنی میں ڈائریکٹر لگوا دیا‘ راجہ صاحب نے اس اقرباء پروری پر دھواں دار تقریر کر دی‘ پولیس آئی‘ گرفتار ہوئے اور ایک سال قید کی سزا ہو گئی‘
انہیں سخت گرمیوں میں بہاولپور جیل میں پھینک دیا گیا یہاں سے ان کی قیدوبند کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ان کی آدھی زندگی جیلوں اور کچہریوں کی نذر ہوگئی‘ یہ ساڑھے نو ماہ بعد جیل سے رہا ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا‘ ذہین اور پڑھاکو تھے‘
خوب صورت بھی تھے اور بلاکے مقرر بھی تھے چناں چہ پوری یونیورسٹی میں مشہور ہو گئے‘ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کنول نام کی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے‘ یہ دونوں ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے‘ محبت ختم ہو گئی لیکن خط بچ گئے‘ راجہ انور نے یہ خط ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیے اور اس کتاب نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا‘
ہمارے زمانے میں یہ کتاب طالب علموں کے غیرنصابی نصاب کا حصہ ہوتی تھی‘ یہ ممکن نہیں تھا کوئی نوجوان پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے اور وہ یہ کتاب نہ پڑھے۔راجہ صاحب تعلیم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے سٹوڈنٹس اینڈ لیبر افیئرز کے ایڈوائزر بن گئے‘ ان کی پوری جوانی بھٹو صاحب اور بیگم بھٹو کے ساتھ گزری‘ وزیراعظم کے ساتھ سفر بھی کیا‘ کھایا بھی اور پیا بھی اور بھٹو کو اچھی طرح دیکھا اور پرکھا بھی‘
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو یہ بھٹو کے بڑے صاحب زادے میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ افغانستان بھاگ گئے‘ افغانستان میں اس زمانے میں نور محمد تراکئی اور حفیظ اللہ امین کی کمیونسٹ حکومت تھی‘ مرتضیٰ بھٹو اور راجہ انور نے وہاں الذوالفقار نام کی عسکری تنظیم بنائی اور مارشل لائی حکومت پر حملے شروع کر دیے‘ میر مرتضیٰ امیچور‘ جلدباز اور ڈکٹیٹر مزاج کا شخص تھا‘
وہ پاکستان میں پچاس ساٹھ اہم لوگوں کو قتل کرنا چاہتا تھا‘ راجہ انور نے اس پلان کی مخالفت کی تو مرتضیٰ بھٹو ناراض ہو گیا اور اس نے راجہ انور کو کابل کی بدنام زمانہ پل چرخی جیل میں محبوس کر دیا‘ 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے گلبدین حکمت یار اور افغانستان نے مرتضیٰ بھٹو کو یہ اختیار دے رکھا تھا
یہ اپنے کسی بھی ساتھی کوغیرمعینہ مدت کے لیے جیل میں نظربند کر سکتے تھے اور اس حکم کے خلاف کسی عدالت میں کوئی اپیل دائر نہیں ہو سکتی تھی‘راجہ انور اڑھائی سال جیل میں رہے‘ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا‘ اس دوران بی بی سی نے ان کے انتقال کی خبر بھی نشر کر دی اور ان کے دوست احباب اور رشتے داروں نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھ لی‘
کابل جیل کے احاطے میں ان کی قبر تک موجود تھی لیکن یہ بہرحال زندہ تھے اور زندہ رہے‘ میر مرتضیٰ اس کے بعد انڈیا پھر شام اور پھر فرانس چلا گیا اور راجہ انور جیل سے رہائی کے بعد جرمنی چلے گئے‘ وہاں کاروبار شروع کیا‘اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور یہ خوش حال ہو گئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء میں پاکستان آئیں تو یہ اپناکاروبار چھوڑ چھاڑ کر اسلام آباد آ گئے‘ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ کے ایڈوائزر ہو گئے‘ یہ وزیراعظم کی تقریریں بھی لکھا کرتے تھے لیکن مرتضیٰ بھٹو ان کے اس نئے کیریئر کے راستے میں بھی رکاوٹ بن گئے اور یوں یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا مگر قلم اور کاغذ کے ساتھ ان کا رشتہ برقرار رہا‘ انہوں نے کالم لکھنا شروع کر دیا
اور بہت جلد ملک کے نامور کالم نگار بن گئے‘ راجہ انور نے پاکستانی جیلوں میں اپنے ’’قیام‘‘ پر بڑی جیل سے چھوٹی جیل جیسی معرکۃ الآراء کتاب لکھی‘ افغان جیل پل چرخی پر ان کی کتاب ’’قبر کی آغوش‘‘ آئی‘ میر مرتضیٰ بھٹو اور الذوالفقار پر انگریزی میں ’’ٹیررسٹ پرنس‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کی‘ انہوں نے خالد حسن کی کتاب ریئر ویو مرر کا کمال ترجمہ بھی کیا
اور بھارت کا سفرنامہ بھی لکھا اور یہ ’’بازگشت‘‘ کے نام سے خبریں اخبار میں کالم بھی لکھتے رہے‘ میری ان سے پہلی ملاقات خبریں اخبار میں ہوئی تھی‘ میں بھی وہاں کالم لکھتا تھا‘ راجہ صاحب نے ایک دن مجھے فون کیا اور میں نے انہیںپنجاب یونیورسٹی کا واقعہ بڑی تفصیل سے سنایا‘ یہ دیر تک ہنستے رہے‘ مجھے اس زمانے میں ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کے درجنوں پیرا گراف زبانی یاد تھے‘
میں نے وہ بھی ان کے کانوں میں انڈیل دیے اور یوں ان کے ساتھ رفاقت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ یہ آج کل جرمنی‘ برمنگھم اور اسلام آباد میں رہتے ہیں‘یہاں گرمی آتی ہے تو اُدھر چلے جاتے ہیں اور اُدھر سردی آجاتی ہے تو یہاں آ جاتے ہیں‘ مجھے ان کے ساتھ چلنے پھرنے اور کھانے پینے کا موقع ملا‘ یہ بڑی شان دار کمپنی ہیں‘ انسان ان کے پاس بیٹھ کر بور نہیں ہوتا‘یہ درمیان میں تین سال غائب بھی رہے‘
میں انہیں فون کرتا رہا‘ ان کے واٹس ایپ پر میسجز بھی چھوڑے لیکن ان کا کوئی جواب نہ آیا‘ پچھلے سال میں نے ایک دن انہیں آن لائین دیکھا تو انہیں کال کر لی‘ ان کی آواز میں نقاہت تھی اور یہ اٹک اٹک کر بول رہے تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا‘ میری شوگر اچانک گر گئی تھی جس کی وجہ سے میں قومے میں چلا گیا تھا لیکن اب اللہ کا کرم ہے میں بحال ہو رہا ہوں‘ چل پھر لیتا ہوں‘
بول اور سن بھی لیتا ہوں لیکن ہاتھ میں رعشہ ہے‘ یہ بھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا‘ میں دکھ میں چلا گیا‘ میں نے انہیں ہمیشہ متحرک دیکھا تھا‘ یہ چند ماہ بعد پاکستان آئے اور انہوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ ’’بازگشت‘‘ مجھے بھجوا دیا‘ میں نے کتاب پڑھی اور ان کے گھر چلا گیا‘ یہ روایتی تپاک سے ملے اور میں دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’انسان کو زندگی میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے‘
ان کا جواب تھا‘ انسان کواپنا پیسہ بلاوجہ ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ بڑھاپے میں پیسہ بہت اہم ہو جاتا ہے‘ دوسرا انسان کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہونے چاہییں‘ آپ سارا دن کام کر کے گھر واپس آئیں تو کم ازکم گھر میں کھچ کھچ نہیں ہونی چاہیے ورنہ انسان کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے‘ تیسرا میں کمیونسٹ رہا ہوں لیکن آج سمجھتا ہوں انسان کا اللہ پر پختہ ایمان ہونا چاہیے‘
زندگی کی ہر چیز من جانب اللہ ہے اور ہمیں صرف اور صرف اس سے مانگنا چاہیے اور چوتھی چیز زندگی نعمت ہے‘ اسے بلاوجہ فضول سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ زندگی میں ہر کام مفید ہونا چاہیے‘‘۔راجہ انور آج کل پاکستان ہیں‘ میرے گھر کے قریب رہتے ہیں‘ میں ان سے کبھی کبھار ملتا رہتا ہوں‘ یہ بہت ہی شان دار انسان ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں وژن‘ تجربہ اور احساس تینوں نعمتوں سے نواز رکھا ہے‘
میں نے پاکستان میں ان سے بہتر نثر نگار نہیں دیکھا‘ یہ لفظوں سے نہیں لکھتے جذبات سے لکھتے ہیں اور قلم سے تحریر نہیں کرتے شہنائی‘ بانسری اور ہارمونیم سے تحریر کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے تحاشا روانی دے رکھی ہے‘آپ انہیں پڑھنا شروع کر دیں تو پھر آپ پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں‘
میرا دعویٰ ہے آپ بس ان کی کوئی تحریر شروع کرلیں‘ یہ آپ کو اس کے بعد دائیں بائیں نہیں دیکھنے دے گی‘ ان کالموں اور کتاب دونوں کا نام بازگشت ہے‘ یہ دونوں واقعی بازگشت ہیں‘ گئے زمانوں اور بیتی ہوئی شخصیات کی بازگشت‘ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی بازگشت‘
جیل کے بند اور کھلتے آہنی کواڑوں کی بازگشت اور انسان کے ٹوٹتے‘ بکھرتے اور دفن ہوتے آئیڈیلز کی بازگشت‘ میں جب بھی ان کی تحریریں پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اگر راجہ انور نہ ہوتے تو ماضی کی یہ بازگشتیں ہم تک کیسے پہنچتیں‘ ہم ان سے کیسے واقف ہوتے لہٰذا تھینک یو راجہ صاحب تسی گریٹ ہو۔