میری بدھ چار جنوری کو علیم خان سے تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی‘ ان کا کہنا تھا‘ میرے والد گرینڈ لاز بینک لاہور میں ملازم تھے‘ والدہ کالج میں فلسفہ پڑھاتی تھیں‘ ہم لوئر مڈل کلاس فیملی تھے‘ میں تعلیم کے بعد پراپرٹی کے بزنس میں آ گیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے 30 سال کی عمر میںسب کچھ دے دیا‘ میری آج 44 کمپنیاں ہیں‘ چار ہزار ملازمین ہیں‘
دو جہاز ہیں اور اللہ نے صحت اور اولاد کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے‘ میں ہرگز اس قابل نہیں تھاجتنااللہ تعالیٰ نے مجھے نواز دیا لہٰذا میں ایک لفظ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ آپ پی ٹی آئی کے لوگوں سے پوچھ لیں‘ کیامیںمنافق یا جھوٹا ہوں؟ میری گواہی یہ لوگ دیں گے‘ علیم خان کا کہنا تھا‘ مجھے 1996ء میں کینسر ہو گیا‘ میں نے علاج امریکا سے کرایا لیکن میں ٹیسٹ شوکت خانم سے کراتا تھا یوں میرا عمران خان سے تعلق پیدا ہو گیا‘میں چودھری پرویز الٰہی کی کابینہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وزیرتھا‘ میں اس دور میں بھی عمران خان سے ملتا تھا‘ میں نے2008ء میں ق لیگ چھوڑدی جب کہ پارٹی نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لیا اور پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر بن گئے‘ مونس الٰہی اس زمانے میں عسکری ون میں نیب کی حراست میں تھے‘ میں ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا اور انہیں ق لیگ کا عمران خان سے مرجر کا مشورہ دیا‘ یہ ہنسے اور کہا ’’آپ ہمیں کس بے وقوف کے پاس لے جانا چاہتے ہیں‘ اس شخص کا کوئی فیوچر نہیں‘ میں آج جب مونس الٰہی اور عمران خان کو ایک دوسرے کی تعریف کرتے دیکھتا ہوںتوبے اختیار ہنسی بھی آ جاتی ہے اورمجھے وہ گالیاں بھی یاد آ جاتی ہیں
جو عمران خان پرویز الٰہی اور مونس کو دیا کرتے تھے‘ 30اکتوبر 2011ء کا جلسہ آیا تو عمران خان میاں عبدالرشید کے ساتھ میرے پاس آئے اور مجھ سے جلسے کے لیے ڈونیشن مانگا‘ جلسے کے لیے کل 75 لاکھ روپے چاہیے تھے‘ میں نے انہیں 25 لاکھ روپے دے دیے‘
یہ چلے گئے لیکن راستے سے فون کیا اور کہا‘ ہم جلسے کا سارا بندوبست آپ کو دینا چاہتے ہیں‘آپ یہ ذمہ داری اٹھا لیں‘ میں نے ان کی خواہش پر جلسے کا سارا بندوبست کر دیا‘ کرسیاں‘ بینرز‘ لائیٹس‘ سائونڈ سسٹم اور کھانا ہر چیز کا انتظام میں نے کیا تھا‘ پارٹی کا ایک پیسہ خرچ نہیںہوا‘ جلسہ کام یاب ہو گیا ‘
عمران خان نے مجھے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی اور میں شامل ہو گیا‘پارٹی کے اندر کوئی سٹرکچر نہیں تھا‘ پارٹی میں بڑے بڑے نام ہیں لیکن کوئی شخص بھی پارٹی پر ایک روپیہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘حامد خان‘ عارف علوی اورعمر سرفراز چیمہ آپ کسی سے پوچھ لیں کیا اس نے کبھی پارٹی کو ایک لاکھ روپے بھی دیے؟
یہ سارا بوجھ صرف دو لوگوں پر تھا‘ جہانگیر ترین اور علیم خان‘ عمران خان کی گاڑیاں‘ سیکورٹی اور باقی اخراجات میں برداشت کرتا تھا‘ ان کے پاس دو بلٹ پروف گاڑیاں تھیں‘ بلیک ترین صاحب کی تھی اور وائیٹ میری‘ گارڈز اور سیکورٹی کی گاڑیاں میری تھیں‘ جہاز ترین صاحب کا استعمال ہوتا تھا‘ 2018ء کے الیکشن سے قبل عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے میٹنگز میرے گھر میں ہوتی تھیں‘
میرا گھر ان کے قبضے میں رہتا تھا‘ یہ جنرل باجوہ سے جتنی مرتبہ ملے‘ یہ ملاقاتیں آرمی چیف ہائوس میں ہوئیں یا جنرل اعجاز امجد کے گھر( سکیم تھری) میں ہوئیں‘ وسائل صرف میرے استعمال ہوئے‘ جنرل باجوہ کے سسر جنرل اعجاز امجد میرے سسر راجہ محمد صابر کے بھتیجے راجہ عباس کے پرانے دوست تھے‘ 1999ء میں جب جنرل باجوہ لیفٹیننٹ کرنل تھے‘
جنرل اعجاز امجد اس وقت میری سوسائٹی پارک ویو لاہور کے ممبر بنے تھے‘ میری جنرل اعجاز سے نیاز مندی تھی لیکن ہم کیوں کہ اس وقت نیا پاکستان بنا رہے تھے چناں چہ ہمارے وسائل‘ تعلقات‘ جذبات اور محبت سب کچھ عمران خان کے لیے وقف تھا اور ہم نے پھر اس کی بھاری قیمت بھی چکائی۔میں نے ان سے پوچھا’’ کیاآپ عمران خان کی ریکارڈنگزبھی کرتے رہے؟ ‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہم دس سال دن رات اکٹھے رہے ہیں‘
میں اور جہانگیر ترین ہفتے میں چار دن عمران خان کے ساتھ ڈنر کرتے تھے‘ یہ ہماری گاڑیاں اور گھر بھی استعمال کرتے تھے اور ہم فون پر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے چناں چہ یہ جہاں جاتے تھے‘ جوکرتے تھے مجھے پتا ہوتا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’عمران خان نے اس قربت کے باوجود آپ کو 2013ء میں ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ ‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میراٹکٹ روحانیت کی نذر ہوگیا تھا‘
عمران خان کے ایک دوست ہیں‘ عمر فاروق گولڈی‘ یہ شیپس(Shapes) جم کے مالک ہیں‘ یہ خان کو اپنے پیر میاں بشیر کے پاس جہلم لے گئے‘ عمران خان ان سے بہت متاثر تھے‘خان صاحب نے مجھے 2013ء کے الیکشن سے قبل بتایا‘میاں بشیر کا حکم ہے تم نے اگر علیم خان کو ٹکٹ دیا تو تم وزیراعظم نہیں بن سکو گے لہٰذا میں تمہیں ٹکٹ نہیں دے رہا‘ میں نے ہنس کر کہا‘ خان صاحب اگر آپ اس طرح وزیراعظم بنتے ہیں
تومجھے کوئی دکھ نہیں چناں چہ عمران خان نے لاہور میں میرے حلقے سے ایاز صادق کے خلاف الیکشن لڑا اور یہ الیکشن بھی ہار گئے اور وزیراعظم بھی نہیں بنے‘ میں نے بعدازاںاکتوبر 2015ء میں اس حلقے سے ضمنی الیکشن لڑا تھا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ریحام خان کے ساتھ شادی میں آپ کا کیا کنٹری بیوشن تھا؟‘‘ یہ بولے ’’بالکل نہیں تھا‘ ریحام خان لاہور میرے گھر آئی تو عمران خان کی بہنیں میرے ساتھ ناراض ہو گئیں‘
میں نے بنی گالا میں عمران خان سے پوچھا ‘آپ کا ریحام خان کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ ان کا جواب تھا‘ میں نے اس سے شادی کر لی ہے لیکن ابھی انائونس نہیں کی‘ میں نے کہا‘ آپ یہ شادی انائونس کر دیں آپ کی بہنیں مجھ سے ناراض ہو رہی ہیں‘ عمران خان نے جواب دیا ’’عورتوں کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے؟ میں کس سے شادی کرتا ہوں میری بہنوںکواس سے کیا مطلب؟
بہرحال عمران خان نے نکاح کے ڈیڑھ ماہ بعد شادی ڈکلیئر کر دی‘‘ میں نے علیم خان سے پوچھا ’’کیا ریحام خان کی طلاق میں آپ کا کوئی عمل دخل تھا؟‘‘ یہ سنجیدگی سے بولے ’’ہرگز نہیں‘ یہ طلاق صرف دو لوگوں کی وجہ سے ہوئی‘ بشریٰ بی بی اور شوکت قادری‘ بشریٰ بی بی نے عمران خان سے کہا تھا‘ آپ نے اگر اسے 24گھنٹے میں طلاق نہ دی تو آپ کبھی وزیراعظم نہیںبن سکیں گے
جب کہ شوکت قادری نے کہا تھا ریحام تمہیں سوٹ نہیں کرتی اور یوں طلاق ہوگئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ شوکت قادری کون ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ یہ میرے حلقے میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب رہتے ہیں‘ ان کا مدرسہ میاں معراج کے صاحبزادے حامد معراج کے گھر کے پیچھے ہے‘یہ اچھے اور نیک بزرگ ہیں‘ عمران خان مجھے ایک دن ان کے پاس لے گئے‘
قادری صاحب بڑے پیار سے ملے‘ عمران خان نے ان سے پندرہ منٹ تنہائی میں ملاقات کی اور مجھے راستے میں بتایا‘ مجھے قادری صاحب نے کہا ہے ریحام خان تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے‘ مجھے ان کے لہجے سے محسوس ہوا یہ طلاق کا ارادہ کر چکے ہیں لیکن طلاق بہرحال بشریٰ بی بی کے حکم پر ہوئی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی بشریٰ بی بی سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟‘‘
یہ بولے ’’مجھے عمران خان نے ان کے پاس بھیجا تھا‘ یہ انہیں شوکت قادری سے بھی بڑا پیر سمجھتے تھے‘ ہم لاہور میں کلمہ چوک کے قریب خاور مانیکا کے گھر میں بھی بی بی سے ملے تھے‘ بشریٰ بی بی کا دعویٰ تھا‘ عمران خان پر کسی نے جادو کر رکھا ہے اور خان صاحب ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے‘‘میں نے پوچھا’’اور آپ کا کیاخیال تھا؟‘‘یہ بولے ’’میں ان کا صرف احترام کرتا تھا لہٰذا
یہ مجھ سے مایوس ہو گئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا عمران خان نے آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ کیاتھا؟‘‘ یہ فوراً بولے ’’بالکل نہیں کیا تھا ہاں البتہ میں نے 2017ء میں ایک دن ان سے پوچھا تھا‘ ہمارا پنجاب میں وزیراعلیٰ کون ہوگا ؟ ان کا جواب تھا جہانگیر ترین اور تم وفاق میں میرے ساتھ ہو گے‘ ان کا خیال تھا یہ مجھے ہائوسنگ کی منسٹری دیں گے لیکن میں نے اسی وقت یہ منسٹری لینے سے انکار کر دیا تھا‘
میری نظر میں یہ کنفلیکٹ آف انٹرسٹ تھا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کا ان سے اختلاف کیسے سٹارٹ ہوا؟‘‘ یہ بولے’’ 25 جولائی 2018ء الیکشن کے دن تک کوئی ایشو نہیں تھا‘ میرے الیکشن کے نتائج حیران کن تھے‘ میں نے ایم پی اے کی سیٹ پر 7ہزارکی لیڈ لی تھی جب کہ میں اسی علاقے سے ایم این اے کی سیٹ سے سات ہزار ووٹوں سے ہار گیا تھا‘ یہ اتفاق ثابت کرتا تھا
مجھے جان بوجھ کر وفاق میں جانے سے روکا گیا تھا‘ شاہ محمود قریشی بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے‘ یہ بھی ایم پی اے کی سیٹ سے ہار گئے تھے جب کہ جہانگیر ترین عدالتی حکم کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے تھے چناں چہ میں وزارت اعلیٰ کا قدرتی امیدوار تھا لیکن الیکشن کے تین دن بعد مجھے نیب نے طلب کر لیا‘ مجھ پر آمدنی سے زائد اثاثوں کا الزام تھا‘
نیب مجھے عثمان بزدار کی تعیناتی تک بار بار بلاتی رہی‘ میں دو اگست 2018ء کو نیب کے ڈی جی میجر (ریٹائرڈ)شہزاد سلیم کی پیشی بھگت رہا تھا تو میں نے ٹیلی ویژن پر ٹکرز دیکھے عمران خان نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے‘
میں نے میجر شہزادسلیم سے کہا ’’ سروزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ ہو گیا ہے‘ آپ اب میری جان چھوڑدیں‘‘ یہ سن کراس کی ہنسی نکل گئی‘ مجھے بعدازاں ایک دوست کے ذریعے علم ہوا شہزاد سلیم کو یہ حکم جنرل فیض حمید نے عمران خان کی خواہش پر دیا تھا۔ (جاری ہے)