میں نے عرض کیا ’’میرا آپ سے صرف ایک سوال ہے؟‘‘ وہ ہنسا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’’میں جانتا ہوں آپ مجھ سے کیا پوچھیں گے؟‘‘ میں بھی ہنس پڑا‘ وہ بولا ’’ہم جرمن دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ہم سے صرف ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے’’ آپ لوگ ہٹلر سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘
میں نے قہقہہ لگاکر کہا ’’ آپ کا اندازہ درست ہے‘ میں حیران ہوں جرمن قوم ایک وقت میں ہٹلر کے لیے تن‘ من اور دھن قربان کر رہی تھی اور پھراچانک جرمن لوگ اپنے کسی بچے کا نام تک ہٹلر نہیں رکھتے‘ ہٹلر کا نام سن کر آپ سب کا رنگ بھی سرخ ہو جاتا ہے اور ان دونوں رویوں میں صرف دو سال کا فاصلہ ہے‘ 1944ء تک جرمنی کا ہر شخص ہٹلر کے حکم پر دوزخ میں بھی چھلانگ لگانے کے لیے تیار رہتا تھا لیکن 1945ء میں وہی ہٹلر پوری قوم کے لیے گالی بن گیا‘ یہ تبدیلی حیران کر دیتی ہے‘‘ وہ مسکرایا اور آہستہ آواز میں بولا ’’میرے بھائی‘ ہم جرمن خود کو بہت سپیریئر سمجھتے تھے‘ ہم سمجھتے تھے دنیا میں کوئی قوم ہم سے زیادہ پڑھی لکھی‘ سمجھ دار اور بہادر نہیں‘ ہم لٹریچر میں بھی لیڈ کرتے تھے‘ ہم ٹیکنالوجی میں بھی پوری دنیا سے آگے تھے‘ ہماری یونیورسٹیاں آئن سٹائن‘ سگمنڈ فرائیڈ اور نطشے جیسے لوگ پیدا کررہی تھیں‘ دنیا میں ہائیڈل برگ کا نام تھا‘ یہ اس وقت برینڈ تھا جب لوگ ایجوکیشن کی ای کو بھی انڈرسٹینڈ نہیں کرتے تھے‘ ہم نے دنیا کو پرنٹنگ پریس اور ڈیزل انجن دیا‘ ہم نے مرسڈیز‘ بی ایم ڈبلیو اور او ڈی بھی دی‘ ہم تین دن میں پورا ہوائی جہاز بنا دیتے تھے‘ ہمارے ملک میں تین سیاسی جماعتیں تھیں اورتینوں کے اپنے کالجز تھے اور ان کے لیڈرز اس وقت تک کونسلر نہیں بن سکتے تھے جب تک وہ ان کالجز سے ڈگری نہ لے لیتے اور ہم خودداری میں بھی پوری دنیا سے آگے تھے‘ کوئی شخص جرمن ہو اور وہ بھیک مانگ لے یہ ممکن ہی نہیں تھا لیکن پھر اتنی سائنسی‘ عقل مند‘ سمجھ دار اور ٹیکنیکل قوم ہٹلر کے پیچھے لگ گئی اور ہم نے نہ صرف پوری دنیا کی مت مار دی بلکہ 8 کروڑ لوگوں کی جان بھی لے لی‘
ہم میں سے جب بھی کوئی شخص یہ سوچتا ہے تو وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے‘ہم اگر واقعی اتنے سیانے تھے تو پھر ہم نے یہ جھک کیسے مار دی‘ ہم ہٹلر کے پیچھے کیسے لگ گئے؟ بس یہ وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اس سوال سے پرہیز کرتے ہیں‘‘ میں نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا‘ اسے تھپکی دی اور ہم الگ الگ ہو گئے۔ یہ میرا ایک جرمن پروفیسر کے ساتھ ائیرپورٹ پر مکالمہ تھا‘ ہم دونوں لائونج میں بیٹھے تھے‘ وہ فرینکفرٹ جا رہا تھا اور میں ہیلسنکی‘ لائونج میں رش تھا لہٰذا ہم دونوں ایک میز پر بیٹھ گئے‘ بات شروع ہوئی تو میں نے اس سے وہ سوال پوچھ لیا جو پوری دنیا 75 سال سے جرمنوں سے پوچھ رہی ہے اور مجھے پہلی مرتبہ جرمن قوم کی شرمندگی کی وجہ معلوم ہوئی‘مجھے پتا چلا جرمن قوم اپنی حماقت پر شرمندہ ہے‘
ہم انسان جب دھوکا کھاتے ہیں تو ہم دو قسم کی تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں‘ پہلی تکلیف نقصان سے متعلق ہوتی ہے‘ کسی نے آپ کو دھوکا دے کر آپ کی رقم‘ آپ کی جائیداد یا آپ کا کوئی اثاثہ ہڑپ کر لیا‘ آپ کو یقینا تکلیف ہو گی لیکن یہ تکلیف وقتی ہو گی‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساسِ نقصان کم ہوتا جائے گا اور اس کے ساتھ تکلیف بھی ختم ہو جائے گی‘ دوسری تکلیف بے وقوف بننے کی تکلیف ہے‘یہ تکلیف دیرپا ہوتی ہے اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے‘ ہم انسان کیوں کہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں‘
ہم تجربہ کار‘ ذہین اور فطین بھی ہوتے ہیں‘ ہم اڑتے پرندے کے پر بھی گن لیا کرتے ہیں چناں چہ ہم سمجھتے ہیں ہمیں بے وقوف بنانا ممکن نہیں لیکن جب ہم کسی شخص یا صورت حال کے ٹریپ میں آ جاتے ہیں اور ہمارا نقصان ہو جاتا ہے تو ہماری انا کو ٹھیک ٹھاک ٹھیس پہنچتی ہے اور ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کیا ہم واقعی عقل مند ہیں؟ ہم اگر ہیں تو پھر ہمیں سامنے پڑی چھپکلی نظر کیوں نہیں آئی؟ ہم نے بانس کوگنا کیوں سمجھ لیا تھا؟اور اس کے ساتھ ہی ہم زندگی بھر کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ جرمن قوم کے ساتھ بھی یہی ہوا‘یہ دوسری جنگ عظیم کا نقصان بھول گئی لیکن اس میں بے وقوفی کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے لہٰذا آج اگر پوپ بھی جرمنی میں آ کر تقریر کرے تو جرمن اسے بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ اس کی تقریر بھی بائبل سے ویری فائی کرتے ہیں۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ فوج اور آئی ایس آئی دونوں سمجھ دار اور منظم ادارے ہیں‘ ان کا سسٹم بھی مضبوط ہے‘ یہ کسی اجنبی سے ملاقات سے پہلے اس کا پورا ڈیٹا جمع کرتے ہیں‘ اس کا تعلیمی‘ نفسیاتی اور طبی تجزیہ کرتے ہیں‘ ان کی ادارہ جاتی یادداشت بھی بڑی تگڑی ہے‘ آپ کو ماضی کی کسی شخصیت کے بارے میں کسی ادارے میں تحقیق یا رپورٹ نہیں ملے گی لیکن فوج اور آئی ایس آئی کے آرکائیو میں برٹش آرمی کی تشکیل سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ تک خطے کے ہر اہم واقعے اور شخص کی مکمل رپورٹ مل جائے گی‘
آپ نے اگر 1949ئ‘ 1965ئ‘ 1971ء اور کارگل کی جنگ کے بارے میں بھی کوئی چیز معلوم کرنی ہو ‘ آپ سٹاف کالج چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ہر چیز مل جائے گی‘ میرٹ اور ٹریننگ میں بھی یہ ادارے پرفیکٹ ہیں‘ یہ پورے ملک سے بیسٹ نوجوان تلاش کرتے ہیں اور انہیں تراش کر ہیرا بنا دیتے ہیں‘ فوج میں کتابیں پڑھنے کی شرح بھی باقی تمام اداروں سے زیادہ ہے‘ ہمارے پروفیسر پوری زندگی اتنی کتابیں نہیں پڑھتے جتنی کتابیں ایک عام فوجی افسر میجر بننے تک پڑھ جاتا ہے اور ہمارے اداروں کی میز پر کام یابی کے ڈھیر بھی لگے ہوئے ہیں‘
دنیا میں اس وقت چار بڑی طاقتیں ہیں‘ امریکا‘ روس‘ چین اور بھارت‘ ہماری فوج اور آئی ایس آئی ان چاروں کی دائی ہے‘ ہم نے امریکا کو 65 سال سے اپنے ساتھ لٹکا رکھا ہے اور یہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ہم سے جان نہیں چھڑا سکا‘ ہم نے سوویت یونین کو توڑ کر روس بنا دیا اور اب اس کے ساتھ تعلقات بھی استوار کر رہے ہیں‘ یہ ہمیں سستا تیل اور گیس دینے کے لیے تیار ہو چکا ہے‘ چین سے پوری دنیا خائف ہے لیکن اس سے ہماری دوستی شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے‘
بھارت ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے لیکن ہم نے آج تک اسے بھی ہلنے نہیں دیا‘ بھارت کے ایک ارب چالیس کروڑ لوگ آج بھی پاکستانی سرحدوں کی طرف خوف سے دیکھتے ہیں اور ہم اگر اس فہرست میں گلف کی ریاستوں کو بھی شامل کر لیں تو ہماری اچیومنٹس کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہم آج گئے گزرے حالات میں بھی سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر کے شاہی خاندانوں کے محافظ ہیں‘
دوحا میں فیفا ورلڈکپ کی سیکورٹی بھی ہمارے پاس تھی اور یو این کے پیس مشنز میں بھی ہم نے ہمیشہ لیڈ کیا‘ ہماری آئی ایس آئی دنیا کی چھ بڑی سیکرٹ ایجنسیز میں شامل ہے‘ سی آئی اے بھی مشرق وسطیٰ اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے معاملے میں اس کی محتاج ہے‘ امریکا نے افغانستان میں آنا ہو یا پھر واپس جانا ہو‘ راستہ بہرحال آئی ایس آئی سے ہی ہو کر گزرتا ہے مگر ان تمام تر اچیومنٹس کے باوجود جب ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی طرف دیکھتی ہے تو یہ فوری طور پر خود کو جرمن محسوس کرنے لگتی ہے اور شرمندہ ہو جاتی ہے‘ آپ بلندی دیکھیے‘ ہماری اسٹیلشمنٹ ایک طرف امریکا‘ روس‘ چین‘ بھارت‘ سعودی عرب اور قطر کے ساتھ ڈیل کرتی ہے‘ یہ دنیا کو آنے والے حالات کے بارے میں بتاتی ہے‘
یہ سعودی عرب کو ایران اور ایران کو سعودی عرب کی تبدیلیوں کے بارے میں بریفنگ دیتی ہے اور یہ امریکا کو چین اور چین کو امریکا کے بارے میں بتاتی ہے اور امریکی صدر بھی ہمارے آرمی چیف سے ملتا ہے اور چین اور روس کے صدور بھی آرمی چیف سے ون آن ون ملاقات کرتے ہیں‘ سعودی شاہ آرمی چیف کی درخواست پر پاکستان کو تین بلین ڈالر دے دیتا ہے‘ سعودی عرب مسلم امہ کی جوائنٹ آرمی بنا کر جنرل راحیل شریف کو اس کا پہلا سپہ سالار بنا دیتا ہے جب کہ دوسری طرف آپ پستی ملاحظہ کیجیے‘
ہماری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو نہیں سمجھ پاتی اور اسے 2011ء میں عمران خان میں قوم کا مسیحا دکھائی دینے لگتا ہے اور یہ اسے پالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے اور اسے وزیراعظم بنانے اور چلانے کے لیے اپنے سارے اثاثے جھونک دیتی ہے‘ یہ لوگ ایک طرف سائبیریا میں اڑتے پرندوں کے پر گن لیتے ہیں‘ یہ کلبھوشن یادیو کو ایران سے پکڑ کر لے آتے ہیں جب کہ دوسری طرف یہ میز پر پڑے طوفان کو نہیں دیکھ پاتے‘
یہ عمران خان کی فطرت‘ جبلت‘ طرز سیاست اور پلٹ کر جھپٹ مارنے کی عادت کو نہیں سمجھ پاتے اور یہ اس کے پیچھے لگ کر پورے ملک کی مت مار دیتے ہیں چناں چہ مجھے محسوس ہوتا ہے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے نقصان کی اتنی تکلیف نہیں جتنی تکلیف ان کو جرمن بننے پر ہو رہی ہے‘جتنی شرمندگی اس کو اپنی ’’مس جج منٹ‘‘ پر ہے‘ یہ لوگ اس دکھ سے نہیں نکل پا رہے اور یہ روز سوچتے ہیں ہم لوگ بہت عقل مند ہوا کرتے تھے‘ ہم تمام فیصلے سوچ سمجھ اور ٹھونک بجا کر کیا کرتے تھے لیکن ہم نے یہ کیا کر دیا؟ہم نے اپنے گلے میں یہ ڈھول کیسے باندھ لیا؟۔
آج اسٹیبلشمنٹ اپنے جرمن ہونے پر شرمندہ ہے‘ مجھے یقین ہے چند ماہ بعد پوری قوم شرمندگی کے اسی عمل سے گزر رہی ہوگی‘ ہم سب یہ سوچ کر اپنے سر‘ اپنے ماتھے پیٹ رہے ہوں گے یار ہم لوگ کتنے سمجھ دار تھے لیکن ہم نے اس کے باوجود یہ کیاکیا؟ کیا ہماری مت ماری گئی تھی!۔