کمبوڈیا کا اہم ترین سیاحتی مقام اینکور واٹ (Angkor Wat) کے مندر ہیں‘ یہ مندر سیم ریپ (Seim Reap) شہر میں ہیں اور سیم ریپ پونوم پین سے چھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ملک کے وسط میں واقع ہے‘ سیم ریپ جنگلوں میں گھرا ہوا‘ سرسبز‘ شاداب اور کھلا ڈھلا فرحت بخش شہر ہے‘ اس کی فضا میں نرمی‘ طراوت اور ایک روحانی دھیما پن ہے‘
کمبوڈیا کے ننانوے فیصد سیاح یہ شہر ضرور دیکھنے آتے ہیں‘ شہر میں ہڑبونگ اور افراتفری نہ ہونے کے برابر ہے‘ آپ کو دائیں بائیں ہریالی اور سلیقہ دکھائی دیتا ہے‘ لوگ بھی نرم خو اور شائستہ ہیں‘ یورپین سیاح اس شہر پر مرتے ہیں‘ آپ کسی طرف چلے جائیں آپ کو ہزاروں گورے نظر آئیں گے‘ لوگ یورپ سے آ کر دو دو‘ تین تین سال سیم ریپ میں رہتے ہیں‘ موسم کو انجوائے کرتے ہیں‘ مندر دیکھتے ہیں اور کمبوڈین مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ سیم ریپ کا ائیرپورٹ انٹرنیشنل ہے‘ یہاں سے ویت نام‘ ملائیشیا‘ سنگا پور‘ انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ اور لائوس کے لیے فلائٹس ملتی ہیں‘ ائیرپورٹ فرنچ کمپنی نے بنایا اور یہ صاف ستھرا اور خوب صورت ہے‘ کمبوڈیا میں فلائیٹس ٹائم پر اڑتی اور وقت پر لینڈ کرتی ہیں اور یہ رویہ غربت کے باوجود حیران کن ہے۔
میں اور میرے دوست مبشر شیخ پونوم پین سے سلیپنگ بس سے سیم ریپ آئے‘ سلیپنگ بس میں ٹرین کی طرح برتھ ہوتی ہیں اور مسافر لیٹ یا سو کر منزل مقصود تک پہنچتے ہیں‘ ہم نے سلیپنگ بس تین وجوہات سے پسند کی‘ پہلی وجہ فلائیٹ تھی‘ ہمیں صبح کی فلائیٹ نہیں مل رہی تھی جب کہ تمام سیاح طلوع آفتاب کے نظارے کے لیے اینکور واٹ جاتے ہیں‘ ہم یہ نظارہ مس نہیں کرنا چاہتے تھے‘ دوسری وجہ‘ ہم نے زندگی میں کبھی سلیپنگ بس کا سفر نہیں کیا تھا اور تیسری وجہ‘ ہمارے پاس صرف ایک دن تھا‘ ہم نے صبح اینکورواٹ پہنچ کر شام کو واپس آنا تھا کیوں کہ اگلی صبح ہماری واپسی کی فلائیٹ تھی لہٰذا ہم نے جانے کے لیے سلیپنگ بس اور واپسی کے لیے فلائیٹ لے لی‘ ہماری بس رات ساڑھے دس بجے چلی‘ ہمارے دائیں بائیں اور اوپر نیچے تمام برتھوں پر گوروں کا قبضہ تھا‘ بس کی ایک سائیڈ پر ڈبل بیڈ تھے‘
دوسری طرف سنگل اور درمیان میں گلی تھی‘ واش روم بھی تھا‘ بس ٹھیک تھی لیکن ہمارا سفر زیادہ آرام دہ نہیں گزرا‘ ڈرائیور جب راستے میں ٹرن لیتا تھا یا بریک لگاتا تھا تو جھٹکا لگتا تھا اور آنکھ کھل جاتی تھی‘ ایک آدھ بار یوں بھی محسوس ہوا جیسے بس کھائی میں گر رہی ہے اور اس احساس کے ساتھ ہی ہماری نیند اڑ گئی‘ بس کی برتھیں بھی قبر کی طرح محسوس ہوتی تھیں چناں چہ سوناکس کافر نے تھا‘ ہم بہرحال جیسے تیسے ساڑھے چھ گھنٹوں میں سیم ریپ پہنچ گئے‘ اڈے کے باہر قطار اندر قطار ٹک ٹک رکشے کھڑے تھے‘
ٹک ٹک مسافروں کو پہلے ٹکٹ گھر لے کر جاتا تھا اور پھر ٹیمپل‘ ٹکٹ گھر شہر کے درمیان تھا‘ یہ جدید اور وسیع تھا‘ ہم وہاں 22 کائونٹر دیکھ کر حیران رہ گئے‘ پتا چلا سیزن میں یہاں اتنے سیاح آتے ہیں کہ 22 کائونٹر بھی کم پڑ جاتے ہیں اور سڑک تک لائنیں لگ جاتی ہیں‘ کائونٹر سے دو قسم کے ٹکٹ ملتے ہیں‘ ایک دن یا تین دن کا ٹکٹ‘ تمام ٹیمپل دیکھنے کے لیے سیاحوں کو کم از کم تین دن چاہییں‘ تین دن کا ٹکٹ 70 ڈالر جب کہ ایک دن کا ٹکٹ 35 ڈالر میں ملتا ہے‘
آپ اس سے سیم ریپ کے مندروں کی کمائی کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ کریڈٹ کارڈز‘ ڈیبٹ کارڈز اور اے ٹی ایم کی سہولت بھی موجود تھی‘ ہم نے بہرحال ٹکٹ لیا‘ ٹکٹ پر ہماری تصویر پرنٹ کی گئی تاکہ ہم یہ ٹکٹ کسی دوسرے سیاح کو نہ دے سکیں‘ ہم اس کے بعد دوبارہ ٹک ٹک پر سوار ہوئے اور اینکورواٹ پہنچ گئے‘ یہ مندر پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں کے درمیان ہے اور یہ حقیقتاً حیران کن کمپلیکس ہے‘ پتھر کے طویل کوریڈورز کے ساتھ سینکڑوں کمرے ہیں‘ چھتیں اونچی اور پتھر کی ہیں‘
دیواروں پر ہاتھوں سے کھود کر نقش بنائے گئے ہیں‘ پورے پورے کوریڈورز میں میورل بنے ہوئے ہیں‘ یہ مہا بھارت کی کہانیاں ہیں‘ کسی جگہ بادشاہ کو تخت پر بٹھایا جا رہا ہے‘ کسی جگہ جشن چل رہا ہے اور کسی جگہ جنگ ہو رہی ہے‘ تمام نقش پتھر میں باریک اوزاروں سے بنائے گئے ہیں اور یہ حقیقتاً کمال ہیں‘ آپ اگر ایک بار ٹیمپل میں داخل ہو جائیں تو آپ عمارتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور ہر سائیڈ آپ کو ورطہ حیرت میں لا پھینکتی ہے‘ وہاں درجنوں عمارتیں ہیں‘
تمام عمارتیں بلندی پر بنی ہیں اور یہ کسی نہ کسی تالاب‘ لان‘ باغ یا جنگل میں کھلتی ہیں‘ سو سو فٹ اونچی چٹانوں پر بھی مندر بنے ہیں اور وہاں پہنچنے کے لیے انسان کو بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے‘ گائیڈز دعویٰ کرتے ہیں اینکور واٹ کے ٹیمپلز جنوں نے بنائے تھے اور یہ دعویٰ ہر قدم پر حقیقت محسوس ہوتا ہے‘ یہ واقعی انسانی کام محسوس نہیں ہوتا‘ اتنی باریکی اور وہ بھی دیو ہیکل چٹانوں اور پتھروں پر یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں لگتی‘ اینکور واٹ کے ٹیمپلز کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے‘
کیا یہ دعویٰ سچ ہے‘ میں حتمی طور پر نہیں بتا سکتا‘ کیوں؟ کیوں کہ دنیا کی چار عمارتوں کو آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے ‘ ان میںاردن کا گم گشتہ شہر پیٹرا بھی شامل ہے اور چین کے شہر شیان میں موجود ٹیراکوٹا واریئرز کے مجسمے اور پیرو کے ماچو پیچو (Machu Picchu) کے آثار اور اینکورواٹ کے ٹیمپلز بھی‘ مجھے ماچو پیچو کے علاوہ تینوں جگہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا لہٰذا سچی بات ہے میں ان تینوں میں سے کسی ایک کو آٹھویں عجوبے کا ٹائٹل نہیں دے سکا‘ یہ تینوں حقیقتاً انسانی صناعی کا نکتہ کمال ہیں‘ میں یہاں پر یہ بھی دعوے سے کہہ سکتا ہوں ہمارا موہنجو داڑو ان سے بھی کہیں بر تر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے اس کی مارکیٹنگ نہیں کر سکے چناں چہ یہاں کتے موت رہے ہیں جب کہ باقی چار مقامات پر ہر سال لاکھوں سیاح جاتے ہیں اور یہ ملک ان سے اربوں ڈالر کا سرمایہ سمیٹتے ہیں۔
سیم ریپ میں اینکور واٹ جیسے درجنوں ٹیمپل ہیں‘ یہ علاقہ دراصل خمیر (کھمیر) سولائزیشن کا گڑھ ہوتا تھا‘ وہ لوگ آج کے ویت نام‘ لائوس اور نصف تھائی لینڈ کے حکمران تھے‘ سیم ریپ ان کا دارالحکومت تھا‘ ان لوگوں نے بھی سولائزیشن کی پیک پر پہنچ کر دوسری تہذیبوں کی طرح شہر میں مندر اور محل بنائے‘ محل ختم ہو گئے لیکن مندر بچ گئے‘ یہ سولائزیشن بھی باقی سولائزیشنز کی طرح بلندی کو چھو کر ختم ہو گئی اور وہ لوگ تھائی لینڈ‘ لائوس اور کمبوڈیا میں بکھر گئے تاہم یہ آج بھی خود کو کھمیر کہتے ہیں‘ سیم ریپ میں ٹیمپلز کو دیکھنے کے دو وقت ہیں‘ سیاح طلوع آفتاب کے وقت اینکورواٹ کے مندر میں پہنچتے ہیں اور غروب آفتاب کے وقت بیکھینگ مندر سے وادی کو دیکھتے ہیں‘ ہم اینکور واٹ پہنچے‘ مندر کے سامنے پانی کا تالاب ہے‘
تمام سیاح تالاب کے کنارے کیمرے لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ سورج ٹیمپل کے پیچھے سے طلوع ہوتا ہے‘ آفتاب جب مندر کی سیاہ پتھریلی عمارتوں کو اپنی گرم سرخ شعاعوں سے گدگداتا ہے تو وہ منظر واقعی ملکوتی اور بے قیمت ہوتا ہے‘ ہم نے بھی سینکڑوں سیاحوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اینکورواٹ کی پشت سے سورج کو طلوع ہوتے دیکھا اور دیر تک اللہ کی قدرت کا شکر ادا کرتے رہے‘ ہمارے خدا نے اس زمین پر کیا کیا منظر کاشت کیے ہیں اور ساتھ ہی ہم جیسے نالائق اور بے فیض لوگوں کویہ منظر دیکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے‘
ہم اپنے رب کا اس مہربانی پرجتنا بھی شکریہ ادا کریں وہ کم ہو گا لہٰذا ہم نے وہاں کھڑے کھڑے اللہ کا شکر ادا کیا‘ سورج کے سامنے جھکے‘ مندر کو دیکھا اور عمارتوں کے جنگل میں اتر گئے‘ یہ عمارتیں کبھی جھوٹے خدائوں کی سجدہ گاہیں ہوتی تھیں‘ ہمارے سچے رب نے کن کہا‘ جھوٹے خدا یہاں سے فرار ہو گئے اور اس کے بعد ہمارے سچے خدا نے اس جگہ کو عبرت گاہ بنا کر سیاحوں کے قدموں میں روند دیا اور لوگ آج بھی دنیا جہاں سے صبح کے نظارے کے لیے یہاں آتے ہیں‘ جھوٹے خدائوں کی سجدہ گاہوں کو اپنے قدموں میں روندتے ہیں اور سچے خدا کی کبریائی کا اعتراف کر کے واپس چلے جاتے ہیں‘ اینکورواٹ کا مندر آٹھ بجے تک ویران ہو جاتا ہے‘ لوگ مندر دیکھتے ہیں‘ عارضی کینٹینوں پر ناشتہ کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں لوٹ جاتے ہیں‘ ہم بھی نکلے‘ ہوٹل لیا اور چھ گھنٹے کے لیے سو گئے۔
سیم ریپ کی دوسری اہم وزٹ غروب آفتاب کے وقت شیو کا مندرہے‘ ہم شام سے پہلے پونوم بیکھینگ (Phonom Bakheng) پہنچ گئے‘ یہ شہر سے باہر ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے اور اس پر باقاعدہ ٹریک کر کے اوپر جانا پڑتا ہے‘ چوٹی پر مندر ہے اور یہ بھی کمال ہے تاہم مندر کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے ڈیڑھ دو سو سیڑھیاں بھی چڑھنا پڑتی ہیں‘ یہ مندر چوٹی پر قائم ہے اور اس کے چار اطراف نیچے جنگل پھیلا ہوا ہے‘ آپ یقین کریں اس چوٹی سے غروب آفتاب کا منظر واقعی دنیا کے قیمتی ترین مناظر میں شامل ہے‘یہ ’’مدر آف آل ویوز‘‘ ہے‘ مندر کے سامنے کھڑے ہو کر سامنے آسمان پر آگ لگتے دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے انسان ایک بار پھر پیدا ہو رہا ہو‘
جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر کن کہہ دیا ہو‘ کائنات نے انگڑائی لی ہو اور بلیک ہول سے زمین نے جنم لے لیا ہو یا پھر جیسے کائنات کی آخری سانس آ گئی ہو اور قدرت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو دم توڑتی کائنات کے آخری نظارے کی اجازت دے دی ہو‘ ہم سب دم سادھ کر مغرب کی طرف دیکھ رہے تھے‘ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سورج نے زمین کا ماتھا چوما‘ آسمان کے چاروں سرے کھلے اور کائنات کے خیمے کو آگ لگ گئی اور دور موجود جھیل کے پانیوں نے آگ کی پیاس بجھانے کے لیے اس کی طرف دوڑ لگا دی ہو‘ وہ لمحہ صرف لمحہ نہیں تھا‘ وہ تخلیق کا لمحہ تھا اور میں نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا‘ میں نے سیم ریپ کی ایک صبح اور ایک شام دونوں اپنے پاس قید کر لیں۔