میرے ہاتھ میں سیب کا ٹکڑا تھا‘ میں نے وہ پھینکنے کے لیے دائیں بائیں دیکھا‘ مجھے دور دور تک کوئی ڈسٹ بین نظر نہ آئی‘ میں ٹکڑا ٹھا کر آگے چل پڑا‘ میں دو کلومیٹر تک چلتا رہا لیکن راستے میں کسی جگہ کوئی ڈسٹ بین یا کچرا سنٹر نہیں تھا‘ میں نے دو تین مرتبہ سوچا میں اسے جھاڑیوں میں پھینک دیتا ہوں مگر دائیں بائیں‘ آگے پیچھے سارا ماحول اس قدر خوب صورت اور صاف تھا کہ مجھے ہمت نہیں ہوئی
لہٰذا میں سیب کا ٹکڑا اٹھا کر چلتا چلا گیا‘ خدا خدا کر کے ایک جگہ ڈسٹ بین نظر آئی‘ میں نے سیب کا ٹکڑا اس کے اندر پھینکا‘ ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کیا‘ اللہ کا شکر ادا کیا اور آگے چل پڑا‘ یہ سنگا پور کے ساتھ میرا تازہ ترین تعارف تھا‘ دنیا بھر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے ڈسٹ بین ہوتی ہیں لیکن سنگا پور نے ڈسٹ بین ختم کر دی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ صفائی کے اس لیول پر چلے گئے ہیں جہاں کوئی شخص کسی جگہ کوئی چیز پھینکتا ہی نہیں اور اگر کوئی شخص یہ غلطی کر بیٹھے تو پولیس اسے فوراً گرفتار کر لیتی ہے اور اس کے بعد اسے تین سو ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور سڑکوں اور پارکوں کی صفائی بھی‘ پولیس سبز رنگ کی چمک دار جیکٹ پہنا کر اسے ایک علاقہ دے دیتی ہے اور یہ اپنے جرم کی نوعیت کے مطابق وہ علاقہ چمکا کر صاف کرتا رہتا ہے اور اسے یہ خدمت سزا پوری ہونے تک سرانجام دینا پڑتی ہے یوں سنگا پور دنیا کا صاف ستھرا ملک بن گیا‘ چیونگم آج بھی اس ملک میں بین ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ملک میں چیونگم ملتی نہیں ہیں‘ یہ ملتی ہیں مگر یہ عام روایتی چیونگم نہیں ہوتیں‘ ان کی ڈبیاں‘ برینڈ‘ کلر اور گولی کا سائز سیم ہوتا ہے مگر سنگاپوری چیونگم ٹافی کی طرح منہ میں گھل جاتی ہے‘ یہ ربڑ نہیں بنتی چناں چہ آپ کو پورے ملک میں کسی جگہ چیونگم چپکی ہوئی نہیں ملتی‘ صفائی ہم مسلمانوں کے لیے آدھا ایمان ہے
لیکن اس پر عمل صرف سنگا پور کے غیر مسلم کرتے ہیں مگر یہ لوگ اس کے باوجود دوزخ میں جائیں گے اور ہم الحمد للہ مسجدوں میں گند ڈال کر بھی جنتی ہیں۔میں پانچ دسمبر 2022ء کو تیسری مرتبہ لی کو آن یو کے ملک سنگا پور آیا اور اگلے تین دن ششدر ہو کر اس ملک کو دیکھتا رہا‘ یہ ملک بنیادی طور پر ملک نہیں ہے‘ یہ ایک سٹی سٹیٹ ہے‘23 کلومیٹر چوڑی اور 42 کلو میٹر لمبی اور ملک ختم۔ یہ مناکو اور ویٹی کن سٹی کے بعد دنیا کی تیسری بڑی سٹی سٹیٹ ہے لیکن
گوجر خان جتنا یہ چھوٹا سا ملک نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا بزنس فرینڈلی ملک ہے‘ یہ دنیا کا سبز ترین اور انڈور آبشاروں کا دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی ہے‘ ملک کا کل رقبہ 683 مربع کلو میٹر ہے لیکن اس میں 700 کلومیٹر طویل جنگل‘ باغ اور پارک ہیں‘ اب سوال یہ ہے کم ترین رقبے میں طویل ترین جنگل کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ لوگ ہر عمارت اور ہر چھت پر جنگل اگاتے ہیں‘
ستر منزلہ عمارت کی چھت پر بھی پارک ہوگا اور اس میں اونچے اونچے درخت اور دس دس میٹر چوڑی جھاڑیاں بھی ہوں گی‘ ان کا بوٹینک گارڈن 150 سال قدیم ہے اور یہ عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے‘ ان لوگوں نے سمندر کے اندر مٹی ڈال کر بھی گارڈن بنا دیے ہیں‘ آپ کو ہر عمارت میں درخت اور پودے ملتے ہیں‘سگریٹ نوشی پر پابندی ہے‘ آپ کو پورے ملک میں سگریٹ پیتے لوگ نظر نہیں آتے‘
آپ صرف مخصوص ایریاز میں سگریٹ پی سکتے ہیں اور وہاں بھی درخت اور پودے ضرور ہوں گے‘ ان ایریاز کے علاوہ اگر آپ کے ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبی نظر بھی آ گئی تو آپ کو پولیس پکڑ لے گی اور آپ کے لیے جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی‘ سنگا پور کوالٹی آف لائف میں سوئٹزر لینڈ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے‘ یہ گلوبل فنانشل سنٹر بھی ہے‘
دنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز یا سیکنڈ ہیڈکوارٹرز سنگاپور میں ہیں‘ مجھے گوگل کے آفس میں جانے کا اتفاق ہوا‘ میں یہ آفس دیکھ کر سکتے میں چلا گیا‘ پورے ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں ہوٹلز ہیں اور ہر ہوٹل کے ساتھ سینٹورس سے بڑا مال ہے چناں چہ سیاحوں کو ہوٹل اور اپنے مال سے باہر نہیں جانا پڑتا‘ یہ سارا دن اس میں گزار دیتے ہیں‘
فطرت سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ یہ درختوں کو گود لے لیتے ہیں‘ اپنی ساری دولت ان کے لیے وقف کر دیتے ہیں‘ سنگاپور میں روزانہ دو نئے ریستوران اور دو اڑھائی درجن کمپنیاں کھلتی ہیں‘ روزانہ کوئی نہ کوئی عالمی فنکشن ہوتا ہے‘ کسی جگہ آرٹ میلہ لگا ہے‘ کسی جگہ سپورٹس‘ کلچر‘ لائف سٹائل اور فوڈ کی نمائش چل رہی ہے اور کسی جگہ کوئی تہوار ہو رہا ہے‘ لوگ ایشیا کے ایمان دار ترین لوگ ہیں‘
دس پیسے بھی واپس کریں گے اور پانچ پیسے وصول کر کے رہیں گے‘ سنگاپورین دھیمے مزاج کے ہمدرد لوگ ہیں‘ آپ کسی سے ایڈریس پوچھیں وہ آپ کو آپ کی منزل پر پہنچانے چلا جائے گا‘ شور نہیں کرتے‘ اونچی آواز میں بات نہیں کرتے‘ رٹ کا یہ عالم ہے حکومت نے 2020ء میں ماسک لگانے کا حکم دیا اور لوگ اب تک چہرے پر ماسک چڑھا کر پھر رہے ہیں
اور حکومت جب تک ماسک اتارنے کا آرڈر نہیں دے گی یہ لوگ اس وقت تک ماسک استعمال کرتے رہیں گے‘ پبلک ٹرانسپورٹ صاف ستھری‘ رواں اور آسان ہے‘ پورا شہر میٹرو ٹرین سے منسلک ہے لیکن آپ کو ٹرین کی پٹڑی نظر نہیں آتی‘پلیٹ فارم پر پٹڑی کے ساتھ شیشے کی دیواریں اور گیٹ ہیں‘ ٹرین رکنے کے بعد شیشے کے گیٹ کھلتے ہیں اور آپ ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں‘
ٹرین روانہ ہونے سے پہلے یہ گیٹ بند ہو جاتے ہیں‘ یہ بندوبست مسافروں کی سیفٹی کے لیے کیا گیا چناں چہ یہاں ٹریک پر گرنے کے واقعات نہیں ہوتے‘ یہ دنیا کی واحد ٹرین ہے جس کے لیے آپ گیٹ یا بوتھ پر اپنا کریڈٹ کارڈ ٹچ کریں اور سسٹم سیکنڈز میں آپ کے کریڈٹ کارڈ سے رقم نکال کر آپ کے لیے گیٹ کھول دے گا‘ ٹرینیں بھی انتہائی صاف اور منظم ہیں‘
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کی 92 فیصد آبادی اپنے گھروں کی مالک ہے اور یہ گھر حکومت نے انہیں بنا کر دیے ہیں‘ تمام شہریوں کے لیے ملٹری سروسز لازمی ہیں چناں چہ اگر آبادی 59لاکھ ہے تو فوج بھی اتنی ہی ہے‘ مردوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت نہیں لہٰذا آپ کو پورے ملک میں لمبے بالوں والے مرد دکھائی نہیں دیتے اور اگر ہوں تو یہ غیر ملکی نکلیں گے‘ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے
جس نے ’’ٹوائلٹ ڈے‘‘ منانا شروع کیا تھا‘ شاید اس کی وجہ ان کی ٹوائلٹس سے خصوصی دل چسپی ہے‘ یہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ٹوائلٹس میں مسلم شاور بھی لگاتے ہیں اور پبلک ٹوائلٹس میں وضو خانے بھی بناتے ہیں‘ تمام سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں میں عبادت کی جگہیں ہیں اور آپ ان میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں‘ پورے ملک میں جہاں چرچ ہو گا
وہاں مسجد اور مندر بھی ہو گا اور کوئی بھی شخص ان میں داخل بھی ہو سکے گا‘ مختلف قومیتوں کے لیے مختلف علاقے مختص ہیں‘ لٹل انڈیا میں بھارتی‘ بنگلہ دیشی اور پاکستانی رہتے ہیں‘ میں ایک شام وہاں گیا تو مجھے محسوس ہوا میں پاکستان یا انڈیا کے کسی محلے میں گھوم رہا ہوں‘
چائنہ ٹائون میں ہر طرف چینی باشندے دکھائی دیتے ہیں اور کم پانگ گیلم (Kampong Gelam) میں ملائی خاندان اپنی تمام تر روایات کے ساتھ آباد ہیں‘ آرچرڈ روڈ پر مالز اور ریستوران ہیں جب کہ ایورٹن پارک کافی ہائوسز‘ چائے خانوں اور آئس کریم پارلرز کے لیے مختص ہے اور پورے ملک میں سائوتھ انڈین دال بھی مل جاتی ہے اور حلال کھانے بھی۔
سنگاپور میں پانچ سہولتیں بہت مہنگی ہیں‘ رہائش‘ تعلیم‘ ٹرانسپورٹ‘ شراب اور سگریٹ‘ غیر ملکیوں کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ ان سہولتوں میں ضائع ہو جاتا ہے‘ زمین کم ہے لہٰذا یہ فیکٹریاں بھی مالز کی طرح افقی بناتے ہیں‘ کوکا کولا کا پلانٹ بھی کیپسول کی طرح زمین سے آسمان کی طرف ہے اور یہ کسی بھی زاویے سے فیکٹری دکھائی نہیں دیتا‘ پورا ملک شاپنگ سنٹر اور ہوٹل ہے‘
آپ کسی طرف نکل جائیں آپ خود کو عمارتوں کے جنگل میں پائیں گے اور آپ اس جنگل کی کسی بھی عمارت میں گھس جائیں وہ شاپنگ مال نکلے گی چناں چہ ہم سنگا پور کو گرین دوبئی کہہ سکتے ہیں‘ یہ لوگ تین چیزیں بیچ رہے ہیں‘ امن‘ سسٹم اور ایمان داری اور یہ وہ تین نعمتیں ہیں جن کی پوری دنیا کو ضرورت ہے لہٰذا دنیا بھر کے کاروباری ادارے آ کر سنگا پور بیٹھ گئے ہیں‘
کیوں؟ کیوں کہ یہاں سڑکیں بند نہیں ہوتیں‘ کوئی کسی کو عقیدے اور زبان کی بنیاد پر تنگ نہیں کر سکتا‘ سسٹم کی حالت یہ ہے آپ کسی بھی دفتر میں چلے جائیںلوگ آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کریں گے اور آپ اس عمارت سے اپنا کام کروا کر باہر نکلیں گے‘ آپ کو اس کام کے لیے اگلے دن نہیں آنا پڑے گا‘
آپ کریڈٹ کارڈ ٹچ کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں‘ ویزے سے لے کر ہوٹل تک ہر چیز آسان لیکن مہنگی ہے مگر کوئی شخص اس پر اعتراض نہیں کرتا شاید اسی لیے59 لاکھ آبادی کے 683 کلو میٹر کے اس ملک کے زرمبادلہ 250 بلین ڈالرز ہیں‘ جی ہاں اڑھائی سو بلین ڈالرز جب کہ ہم ایک بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف اور تین بلین ڈالرز کے لیے سعودی عرب کے
دروازے پر لیٹے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا سنگا پور ہمیشہ سے ایسا تھا؟ جی نہیں! یہ ملک 60 سال پہلے دلدلی زمین تھا اور یہاں کے لوگ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے بحری جہازوں کے چوہے کھانے پر مجبور تھے لیکن پھر سنگاپور نے انگڑائی لی اور پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ کیسے؟ یہ آپ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے گا۔