میرے گھر سے50 میٹر کے فاصلے پر ایک واکنگ ٹریک ہے‘ میں وہاں روزانہ واک کرتا ہوں‘ میرے ساتھ سیکٹر کے بے شمار لوگ‘ جوان‘ خواتین اور بچے بھی واک کر رہے ہوتے ہیں‘ یہ جگہ دو سال پہلے تک اجاڑ بیابان ہوتی تھی‘ انسان تو کیا جانور تک یہاں نہیں آتے تھے لیکن پھر دو سال پہلے یہاں تبدیلی آنے لگی‘ ٹریک بنا‘اس میں ریت‘ چھوٹی بجری اور کنکر ڈالے گئے‘
پھر اسے کنکریٹ کیا گیا اور آخر میں ایک بار پھر اس پر خاکہ ڈال کر اسے چلنے اور دوڑنے کے قابل بنا دیا گیا‘ میرے محلے کے لوگ اس سے قبل واک کے لیے دوسرے سیکٹرز میں جاتے تھے لیکن پھر یہ ٹریک بنا اور اس کا فائدہ چوبیس گھنٹے پورا سیکٹر اٹھانے لگا‘ میں شروع میں اسے صرف اپنے سیکٹر پر مہربانی سمجھ رہا تھا لیکن جب غور کیا تو پتا چلا اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں نئے واکنگ ٹریکس بن چکے ہیں اور ان پر ہزاروں لوگ روزانہ واک کرتے ہیں‘ میں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا یہ کارنامہ سی ڈی اے کے چیئرمین(سابق) عامر احمد علی کا تھا‘ یہ دو نسلوں سے اسلام آباد کے رہائشی ہیں‘ یہ شہر کے مسائل کو سمجھتے تھے لہٰذا یہ جب چیئرمین تھے تو انہوں نے اسلام آباد کے بنیادی مسائل حل کرنا شروع کر دیے‘ میں نے ان سے وقت لیا اور ان کا شکریہ ادا کرنے ان کے دفتر پہنچ گیا‘ یہ میری بات سن کر دیر تک مجھے دیکھتے رہے اور آخر میں آہستہ آواز میں بولے ‘ جاوید صاحب آپ اس شہر کے پہلے انسان ہیں جو میرے کسی اچھے کام پر صرف تعریف کرنے کے لیے میرے پاس آئے ورنہ میں صبح سے رات تک صرف شکوے سنتا رہتا ہوں‘ مجھے ان کی آواز میں دکھ اور ہلکی سی نمی محسوس ہوئی‘ میں نے انہیں راجہ صاحب محمود آباد کا واقعہ سنایا۔میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو بھی یہ واقعہ سناتا چلوں‘ محمود آباد اودھ ریاست کی سب سے بڑی سٹیٹ تھی‘ لکھنؤ کے ہمسائے میں واقع ہے اور امیر احمد خان اس ریاست کے آخری راجہ تھے‘ یہ عرف عام میں راجہ صاحب محمود آباد کہلاتے تھے‘
قائداعظم کے ساتھ ان کی دوستی تھی‘ یہ قائد کے حکم پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اپنی ساری دولت مسلم لیگ کے لیے وقف کر دی‘ پاکستان بن گیا‘ بھارت نے محمود آباد کو ’’دشمن کی جائیداد‘‘ کا سٹیٹس دے کر ریاست پر قبضہ کر لیا‘ راجہ صاحب بھارت سے نکلے اور کربلا میں مقیم ہو گئے‘ یہ وہاں سے 1957ء میں پاکستان آئے‘ پاکستان کے حالات دیکھے‘ دل برداشتہ ہوئے اور لندن چلے گئے‘
یہ لندن میں انتقال تک ریجنٹ پارک مسجد کی خدمت کرتے رہے‘ 1973ء میں 58 سال کی عمر میں انتقال ہوا‘ ان کی میت لندن سے مشہد لے جائی گئی اور وہاں دفن کر دیا گیا‘ راجہ صاحب 1957ء میں جب پاکستان آئے تھے تو کراچی میں ان کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا‘ یہ کسی عزیز کے گھر رہتے تھے‘ صبح اٹھ کر حقہ تازہ کرتے تھے اور صحن میں بیٹھ کر سارا سارا دن حقہ پیتے رہتے تھے‘
ایک دن کسی نے راجہ صاحب سے پوچھا ’’آپ پاکستان کے محسن ہیں‘ آپ یہاں اس کسمپرسی میں کیوں رہ رہے ہیں؟‘‘ راجہ صاحب مسکرائے اور کہا ’’بیٹا معماروں کا کام گھر بنانا ہوتا ہے‘ وہ ان گھروں میں رہا نہیں کرتے‘‘ میں نے عامر احمد علی کو یہ واقعہ سنایا اور پھر عرض کیا ’’آپ بھی معمار ہیں اور لوگ معماروں کی عزت نہیں کیا کرتے‘ ان کے کاموں میں نقص نکالا کرتے ہیں‘ آپ شکر ادا کریں‘
اللہ نے آپ کو بنانے اور سنوارنے کی توفیق دی ‘ آپ خراب کرنے اور توڑنے والوں میں شامل نہیں ہیں‘‘۔عامر احمد علی عمران خان کے دور میں تین سال سی ڈی اے کے چیئرمین اورنومبر2018ء سے اگست 2022ء تک اسلام آباد کے چیف کمشنر رہے‘ ان کے دور میں اسلام آباد میں بے تحاشا کام ہوئے‘ سیونتھ ایونیو انٹرچینج ریکارڈ مدت میں مکمل ہوا‘ ڈسٹرکٹ کورٹس ایک سال میں بن گئیں‘
راول ڈیم انٹرچینج‘ ڈی 12 تک مارگلہ ہائی وے‘ پی ڈبلیو ڈی انٹرچینج‘ جی سیون اور جی ایٹ انٹرچینج‘ سی ڈی اے ہسپتال میں 200 بیڈز کی ایکسٹینشن‘ کورال سے روات تک سگنل فری روڈ‘ آئی جے پی روڈ‘ آرٹ گیلری‘ لوٹس پارک‘ پورے شہر میں وسیع پیمانے پر شجرکاری‘ ایف نائین پارک میں تفریح کے نئے منصوبے ‘پشاور موڑ سے ائیرپورٹ تک اورنج لائین بس ‘ کورال چوک اور بہارہ کہو سے پی آئی ایم ایس تک بلیو لائین اور گرین لائین بسیں غرض آپ جس طرف بھی دیکھیں گے‘ آپ کو عامر احمد علی کے نقش ملیں گے‘
انہوں نے نالے تک پکے کرنا شروع کر دیے تھے اور پورے شہر میں واکنگ اور جاگنگ ٹریکس بھی بنا دیے تھے اور اس شخص نے اس کے ساتھ ایک دیوالیہ ادارے کو 32 ارب روپے کا مالک بھی بنا دیا‘ ان تمام کارناموں کے بعد عامر احمد علی کی خدمات کی تعریف ہونی چاہیے تھی مگر انہیں عمران خان کے کھاتے میں ڈال کرسبک دوش کر دیا گیا‘ کیا یہ اس شخص کے ساتھ زیادتی نہیں؟
ہم نے بدقسمتی سے بیوروکریسی کو بھی سیاست کی بھٹی میں ڈال دیا ہے‘ افسر بھی اب’’تیرے اور میرے‘‘ میں تقسیم ہو گئے ہیں چناں چہ حکومت آتی ہے تو وہ پرانے افسروں کو سابق حکومت کے شیلف میں ڈال کر سائیڈ پر رکھ دیتی ہے‘ اس اپروچ کا یہ نقصان ہو رہا ہے افسر ریاست کی بجائے سیاست دانوں کے ذاتی ملازم بن چکے ہیں‘ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے یہ ذاتی ملازم کی طرح چپ چاپ اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں چناں چہ دفتروں میں میرٹ قتل ہو چکا ہے‘ رہی سہی کسر نیب نے پوری کر دی‘
اس نے بیوروکریسی کی فیصلہ سازی کی ہڈی توڑ دی اور اس کایہ نتیجہ نکلا آج ہمارا ملک دنیا کے چوراہے میں بھیک کا کشکول رکھ کر بیٹھا ہے اور کوئی ملک اس میں چند سکے تک ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ہم اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں میرٹ اور ملازمت کی مدت دونوں لاک کرنی ہوں گی‘ آپ بیورو کریٹس کو تیرے اور میرے میں تقسیم نہ کریں‘ میرٹ پر فیصلہ کریں‘
افسروں کو ٹاسک دیں‘ یہ اگر وقت پر ٹاسک پورا کر دیں تو انہیں پروموٹ کر دیں اور یہ اگر اپنا ٹاسک پورا نہ کر سکیں تو انہیں ڈی موٹ کر دیں‘ دوسرا جو بھی افسر عہدے پر تعینات ہو اسے اس کی مدت تک ہٹایا نہ جائے‘ حکومتیں بدلتی رہیں لیکن بیوروکریٹس اپنے عہدوں پر قائم رہیں‘
ملک اس سے چلے گا۔ اب صورت حال یہ ہو چکی ہے سارے ملازم سارا دن ٹیلی ویژن سکرینوں سے چپک کر حکومت کا مستقبل دیکھتے رہتے ہیں‘ یہ نوکری بچانے کے لیے دن بھر وزیروں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں‘ دوسرا انہوں نے اپنی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کو حکومتوں کی آمدورفت سے وابستہ کر لیا ہے‘ حکومت ہے تو یہ ہیں‘ یہ حکومت گئی تو یہ بھی گئے‘ آپ خود سوچیے کیا ان حالات میں کوئی بیوروکریٹ کام کر سکے گا؟
لہٰذا میری درخواست ہے آپ بیوروکریسی میں بھی فوج کا پروموشن سسٹم متعارف کرا دیں‘ افسر اگر اہل ہیں تو پھر انہیں کوئی شخص سیکرٹری بننے سے نہیںروک سکے گا اور یہ اگر کارآمد نہیں ہیں یا یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت میں اضافہ نہیں کر رہے تو یہ میجر کی طرح سروس کے درمیان میں ریٹائر ہو جائیں اور کوئی بھی شخص خواہ وزیراعظم ہو یا صدر وہ ان کی نوکری نہیں بچا سکے گا‘
میری دوسری درخواست یہ ہے آپ مہربانی فرما کر ایکسٹینشن پر مکمل پابندی لگا دیں‘ آج حالت یہ ہے ملک کا جو بھی افسر 22ویں گریڈ تک پہنچتا ہے وہ باقی دو تین سال ایکسٹینشن کے لیے لابنگ کرتا رہتا ہے‘ اس کا زیادہ تر وقت سیاست دانوں کے خاندانوں اور بچوں کی تلاش میں ضائع ہو جاتا ہے اور یہ کام کرنے کی بجائے پبلک ریلیشن میں جت جاتا ہے یوں ملک کا سرمایہ اور وقت دونوں برباد ہو جاتے ہیں‘
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے جو شخص 40 سال کی نوکری میں کوئی پہاڑ نہیں توڑ سکا وہ اگلے دو تین برسوں میں کون سی اڑن طشتری ایجاد کر لے گا اور آپ اگر یہ سمجھتے ہیں ہمارے بیوروکریٹس کا گولڈن ٹائم 60 سال کے بعد شروع ہوتا ہے تو آپ پھر ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر65 سال کر دیں لیکن خدا را ملک میں ایکسٹینشن پر پابندی لگا دیں تاکہ قطار میں کھڑے لوگوں کی حق تلفی نہ ہو‘
تیسرا ملک میں ڈیپوٹیشن پر پابندی لگا دیں‘ ملک میں حالت یہ ہے ڈاکٹر ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں کام کر رہے ہیں اور کسٹم آفیسر ایل ڈی اے اور کے ڈی اے کے ڈی جی ہیں اور پی آئی اے کے ملازمین امیگریشن میں بیٹھے ہیں‘ کیا یہ ٹرینڈ ٹھیک ہے اگر ٹھیک ہے تو پھر وزراء کو چاہیے یہ اپنے اپنے اپینڈیکس بھی انجینئرز سے نکلوا لیا کریں‘ یہ پوسٹل سروس کے ملازموں سے اپنے ہیلی کاپٹر اور جیٹ بھی اڑا لیا کریں‘
آخر یہ بھی تو پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مجھے یقین ہے یہ لوگ یہ غلطی ہرگز نہیں کریں گے لیکن یہ پورا پورا محکمہ اٹھا کر ڈیپوٹیشن افسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور یہ افسر دیہاڑی لگاتے رہتے ہیں‘ سوال یہ ہے اگر کوئی محکمہ اپنی ضرورت کے افسر پیدا نہیں کر پا رہا اور آپ کو وہ محکمہ چلانے کے لیے دوسرے محکموں سے لوگ لانا پڑ رہے ہیں تو پھر اس نااہل محکمے کی ضرورت کیا ہے؟
آپ اسے بند کر دیں یا پھر اس میں اتنی کیپسٹی پیدا کر دیں کہ یہ اپنی ضرورت کے افسر پیدا کر سکے اور آخری درخواست عامر احمد علی جیسے جو بیوروکریٹ کام کر رہے ہیں یا جنہوں نے کام کیا آپ کم از کم ان کی حوصلہ افزائی ضرور کریں‘ آپ ان کی خدمات کو ضرور سراہیں‘یہ زیادتی ہے آپ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا شروع کر دیتے ہیں ‘آپ کام کرنے والوں کو کام کی سزا دینا شروع کر دیتے ہیں‘ انہیں عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں‘ کیا یہ ملک اس رویے سے چل سکے گا؟۔
نوٹ: ہمارا جارڈن (اردن) کا اگلا ٹور11 جنوری 2023ء کو جا رہا ہے‘ آپ ان نمبرز پر رابطہ کر کے ہمارے گروپ کا حصہ بن سکتے ہیں۔+92 331 5637981, +92 331 3334562