لتھونیا(Lithuania) بالٹک سی کا ایک چھوٹا سا ملک ہے‘ آبادی 28 لاکھ ہے‘ یہ 50سال سوویت یونین کے قبضے میں رہنے کے بعد 1990ء میں آزاد ہوا‘یہ پہلا ملک تھا جس نے 1990ء میں روس سے مکمل آزادی کا اعلان کیا اور لتھونیا کے بعد پوری سوویت یونین ٹوٹ گئی‘ آپ اگر آج بھی سوویت یونین کے بریک اپ کی پرانی تصویریں یا فلمیں دیکھیں تو آپ کو ان میں لینن کا دیوہیکل مجسمہ گرتا دکھائی دے گا‘
یہ مجسمہ لتھونیا کے دارالحکومت ویلنس میں گرایا گیا تھا اور اس کے گرنے کے ساتھ ہی آہنی پردہ بھی تارتار ہو گیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یو ایس ایس آر 15 ملکوں میں تقسیم ہو گیا‘ لتھونیا کو آزاد ہوئے صرف 32 سال ہوئے ہیں لیکن یہ 32 برسوں میں نہ صرف یورپی یونین کا حصہ ہے بلکہ یہ معاشی لحاظ سے بھی پاکستان سے بہت آگے ہے‘ یہ بائیوٹیکنالوجی اور لیزر ٹیکنالوجی میں پوری دنیا کو لیڈ کررہا ہے۔آصف علی زرداری کے صدارتی دور میں اس لتھونیا کو آزاد ہوئے صرف 20 سال ہوئے تھے‘ 2010ء میں لتھونیا کے ایک وزیر پاکستان کے دورے پر آئے‘ وزارت خارجہ نے بڑی مشکل سے صدر زرداری کو وزیر سے ملاقات کے لیے راضی کیا‘ چائے کے دوران صدر نے وزیر سے پوچھا’’آپ کی آبادی کتنی ہے؟‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’دو ملین‘‘ صدر نے ہنس کر کہا ’’میں کراچی کے جس سیکٹر میں رہتا ہوں اس کی آبادی آپ کے پورے ملک سے زیادہ ہے‘‘ وزیر نے مسکرا کر جواب دیا ’’جی میں جانتا ہوں‘‘ صدر نے اس کے بعد پوچھا ’’آپ کی ایکسپورٹس کتنی ہیں؟‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’50 بلین ڈالر‘‘ صدر زرداری بلین کو ملین سمجھے اور ہنس کر کہا ’’آپ لوگ 50 ملین میں ملک کیسے چلا رہے ہیں؟‘‘ وزیر نے عاجزی سے جواب دیا ’’سر میں نے عرض کیا تھا‘ 50 بلین‘‘ صدر زرداری چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے‘ ہماری کل ایکسپورٹس اس وقت 20 بلین ڈالر تھیں اور آبادی 18 کروڑ تھی لہٰذا صدر کا چونکنا بنتا تھا‘ صدر نے اس سے پوچھا ’’آپ کیا ایکسپورٹ کرتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’ہماری میجر ایکسپورٹس لیزر اور بائیوٹیکنالوجی ہیں‘ ہم نے15 سال قبل دو درجن کمپنیاں بنائی تھیں اور یہ اب بائیو ٹیکنالوجی اور لیزر میں دنیا کو لیڈ کررہی ہیں‘‘ صدر نے پوچھا ’’آپ کی کام یابی کی تین بڑی وجوہات کیا ہیں؟‘‘ وزیر نے ہنس کر جواب دیا ’’ ہماری یونیورسٹی آف ویلنس 1579ء میں بنی تھی‘ پہلی وجہ یہ ہے‘ دوسری وجہ ٹیکس سسٹم ہے‘ لتھونیا دنیا کا واحد ملک ہے
جو انفرادی اور تجارتی دونوں سطحوں پر صرف 15 فیصد ٹیکس لیتا ہے اور تیسری وجہ ہم اپنے پروفیسرز اور تاجروں دونوں کو عزت دیتے ہیں اور ان دونوں نے ملک کو باعزت بنا دیا‘‘ ملاقات ختم ہو گئی۔یہ واقعہ سنانے کے بعد میرا آپ سے ایک سوال ہے‘ ہم لوگ پہلی دنیا کو پہلی دنیا اور تیسری دنیا کو تیسری دنیا کیوں کہتے ہیں؟ آپ یقینا دس پندرہ وجوہات بتائیں گے
لیکن میری نظر میں تیسری دنیا تیسرے درجے کی سوچ اور تیسرے درجے کی اخلاقیات کی وجہ سے تیسری دنیا کہلاتی ہے‘ آپ آج انفرادی سطح پر اپنی اخلاقیات اور سوچ کو پہلے درجے پر لے جائیں‘ آپ کل فرسٹ ورلڈ کے فرسٹ پرسن بن جائیں گے‘ بالکل اسی طرح جب کوئی ملک اپنی سوچ اور اپنی اخلاقیات کو پہلے درجے پرلے آتا ہے تو وہ فرسٹ ورلڈ میں داخل ہو جاتا ہے‘
ہم اگر آج امریکا میں پاکستانی سوچ اور اخلاقیات نافذ کر دیں تو دنیا کی واحد سپر پاور چند برسوں میں پاکستان بن جائے گی اور ہم اگر آج پاکستان میں امریکی کریکٹر اور امریکی تھنکنگ لے آئیں تو ہم چند برسوں میں امریکا کے راستے پر چل نکلیں گے‘ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا دنیا میں سسٹم اہم نہیں ہوتا سسٹم چلانے والے لوگ اہم ہوتے ہیں‘ لاطینی امریکا کے 25 ملکوں میں امریکی سسٹم ہے
لیکن ان میں سے کوئی ایک ملک بھی امریکا نہیں بن سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ ان کے پاس صرف سسٹم ہے سوچ اور اخلاقیات نہیں چناں چہ وہاں سسٹم فیل ہو گیا‘ ہمارا مسئلہ بھی سسٹم نہیں ہے اخلاقیات اور سوچ ہے اور سوچ کی حالت یہ ہے مصطفی نواز کھوکھر 10 نومبر تک پیپلز پارٹی کے سینیٹر تھے‘ انہوں نے اعظم سواتی کے حق میں تین ٹویٹس کر دیں اور آصف علی زرداری نے فاروق ایچ نائیک کے ذریعے ان سے استعفیٰ لے لیا‘
یہ ہے ہمارا اخلاقی معیار یعنی ہم اپنے سینیٹر کو بھی اختلاف کا حق نہیں دیتے‘ ہمیں یہ بھی غلام چاہیے‘ میرے مصطفی نواز کھوکھر کے والد حاجی نواز کھوکھر کے ساتھ پرانے تعلقات تھے‘ حاجی صاحب کا زیادہ وقت ملک ریاض کے ساتھ گزرتا تھا‘ میری ان کے ساتھ 90 فیصد ملاقاتیں ملک صاحب کے گھر پر ہوئیں‘ وہ ایک شان دار اور جہاں دیدہ انسان تھے‘
میں دل سے ان کی عزت کرتا تھا لیکن مصطفی نواز کھوکھر کریکٹر میں والد سے بھی کئی گنا آگے نکل گئے‘ پارٹی نے انہیں2018ء میں سندھ کی سیٹ سے سینیٹر بنایا‘ یہ ان پر بہت بڑی سیاسی مہربانی تھی لیکن یہ اس مہربانی کے باوجود پارٹی سے اختلاف کرتے رہے‘ پیپلز پارٹی نے مارچ 2021ء میں یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے باپ پارٹی کے ووٹ لے لیے‘
مصطفی نواز کھوکھر نے اس حماقت پر پارٹی سے کھل کر اختلاف کیا‘ ان کا کہنا تھا ہم نے چند دن قبل باپ پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا اور ہم آج ایک چھوٹی سی سیٹ کے لیے ان سے ووٹ لے رہے ہیں‘ کیا یہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہے؟ دوسرا ہم نے ن لیگ سے وعدہ کیا تھا ہم یہ سیٹ انہیں دیں گے لیکن ہم ن لیگ سے ووٹ لینے کے بعد وعدے سے پھر گئے‘ پارٹی ان ریمارکس پر ان سے ناراض ہو گئی‘
یہ اس وقت بلاول بھٹو کے ترجمان تھے‘ یہ عہدہ ان سے واپس لے لیا گیا‘ یہ اس وقت بھی مستعفی ہونے کے لیے تیار تھے لیکن پھر پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ شروع ہو گیا اور استعفے کا معاملہ ٹل گیا مگر اب ان کی گستاخی پسند نہیں کی گئی اور ان سے استعفیٰ لے لیا گیا یوں یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کے پہلے سینیٹر بن گئے جن سے صرف دو ٹویٹس کی وجہ سے استعفیٰ لیا گیا۔
مجھے بھی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں میں ان کے حق اختلاف کو ہی سلب کر لوں‘ یہ رویہ تو خاندان غلاماں کے دور میں بھی نہیں ہوتا تھا‘ اس زمانے میں بھی قطب الدین ایبک اپنے بادشاہ شہاب الدین غوری سے اختلاف کر لیا کرتا تھا اور بادشاہ اس گستاخی کے باوجود اسے تخت سے محروم نہیں کرتا تھا
مگر آج دو ٹویٹس کے بعد سینیٹر سے سینیٹرشپ واپس لے لی جاتی ہے‘ کیا یہ رویہ اور کیا یہ روایات سیاسی‘ جمہوری اور اخلاقی ہیں؟ کیا ہم اس سوچ اور اس اخلاقیات کے ساتھ یہ ملک چلا سکیں گے؟ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور میں پچھلے 15 برسوں کی تاریخ کو ملک کی اہم ترین تاریخ سمجھتا ہوں اور دعوے سے کہہ سکتا ہوں ان 15 برسوں نے ہماری ساری جمہوری غلط فہمیاں دور کر دی ہیں‘
ان برسوں نے ثابت کر دیا ملک میں صرف دو حقیقتیں ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار اور سیاست دان اقتدار کے لیے کسی بھی سطح پر جا سکتے ہیں‘ آپ دور نہ جایے آپ فروری 2022ء کے اخبارات اور ٹیلی ویژنز کے ویڈیو کلپس نکال کر دیکھ لیجیے اور اس کے بعد اپریل کے کلپس اور اخبارات کا مطالعہ کرلیجیے‘ آپ کو ملک کا مستقبل سمجھ آ جائے گا‘ آپ کو آج کی حکومت 12 جماعتوں کے ساتھ عمران خان کی
جگہ کھڑی نظر آئے گی اور اپریل کے بعد عمران خان پی ڈی ایم کے چوک میں دکھائی دیں گے اور یہ سب لوگ مل کر صرف ایک کام کرتے نظر آئیں گے اور وہ کام ہے اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنا‘ پی ڈی ایم کے ارکان چار سال اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرتے رہے اور یہ کام آج عمران خان کر رہے ہیں‘
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر آج عمران خان کے لیے گیٹ نمبر چار کھل جاتا ہے تو یہ کل کیا کہیں گے اور اس کے بعد پی ڈی ایم کا کیا ریسپانس ہو گا؟ آپ دل پر دوسرا ہاتھ رکھ کر یہ جواب بھی دیجیے کیا ہم اس اخلاقیات کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ چین کے دانشور کنفیوشس نے اڑھائی ہزار سال قبل کہہ دیا تھا انسان اگر کریکٹر کھو دے تو یہ سب کچھ کھو دیتا ہے اور ہم بدقسمتی سے
من حیث القوم اس جوہر سے محروم ہو چکے ہیں اور مصطفی نواز کھوکھر ان حالات اور اس اخلاقیات میں واقعی ایک ہیرا انسان ہیں اور ان میں کم از کم اپنے ضمیر کے مطابق آواز اٹھانے کی جرات تو ہے جب کہ باقی تمام لوگ بڑے بڑے ناموں کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں اور سانس تک لینے کی غلطی نہیں کر رہے اور یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے لتھونیا فرسٹ ورلڈ اور ہم تھرڈ ورلڈ ہیں۔
نوٹ: میں نے ’’تازہ ترین سیاسی واقعات‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا‘ یہ سلسلہ تیسری قسط کے بعد رک گیا‘ یہ سلسلہ ایکسپریس کی ایڈیٹوریل لائین سے مطابقت نہیں رکھتا لہٰذا میں نے غیرضروری ایڈیٹنگ کی وجہ سے یہ روک دیا تاہم میں یہ مضمون مکمل کر کے اسی ہفتے اپنی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کر دوں گا‘ آپ اس کاوہاں مطالعہ کر لیجیے گا۔