شام میں 2011ء میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو شامی آبادی کے بڑے حصے نے ترکی کا رخ کر لیا‘ دونوں ملکوں کے درمیان 909 کلومیٹر طویل بارڈر ہے اور لوگ اس بارڈر سے کسی بھی جگہ سے ایک سے دوسرے ملک آ اور جا سکتے ہیں لہٰذا ترکی شامی مہاجرین کو روک نہ سکااور یوں شامی مہاجرین ابتدائی دنوں ہی میں ترک سرحدی شہروں میں پناہ گزین ہو گئے‘
حکومت ان کی مدد کرتی رہی لیکن جب ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور حکومت کو یہ محسوس ہونے لگا یہ جنگ اور مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جلد ختم نہیں ہوگا تو اس نے مہاجرین کے مستقل حل کا فیصلہ کر لیا‘ 2016ء میں پچاس لاکھ شامی ترکی آ چکے تھے‘ حکومت نے ان لوگوں کو ایک‘ دو یا چار جگہوں پر جمع کرنے کی بجائے پورے ملک میں پھیلا دیا اور ایک ایک مہاجر خاندان کو ایک ایک مقامی مخیر خاندان کے حوالے کر دیا‘ اس بندوبست کے تین فائدے ہوئے‘ مہاجرین کسی ایک جگہ یا شہر میں جمع نہیں ہوئے‘کسی شہر میں خیمہ بستیاں نہیں لگیں‘ دوسرا مہاجرین کی مدد کا بوجھ حکومت پر نہیں پڑا اور تیسرا مہاجرین کی سیکورٹی اور ان پر نظر رکھنے کی ذمہ داری بھی حکومت سے میزبان خاندان پر آگئی لہٰذا آپ اگر آج ترکی جائیں تو آپ کو وہاں شامی مہاجرین نظر نہیں آتے‘ شہروں میں اکا دکا بھکاری خود کو شامی مہاجر ظاہر کر کے بھیک مانگتے ہیں لیکن وہ بھی عادی بھکاری ہوتے ہیں‘ مہاجر نہیں ہوتے۔قومیں اور حکومتیں مسئلے حل کیا کرتی ہیں‘ یہ مسائل کو سڑکوں پر رکھ کر نہیں بیٹھ جاتیں لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا ہمارے اندر مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں ہے یا پھر ہم جان بوجھ کر مسئلے حل نہیں کرنا چاہتے‘
پاکستان میں 1980ء میں افغان مہاجرین آئے تھے‘ آج 42 سال بعد بھی یہ پاکستان میں موجود ہیں‘ ان کی چوتھی نسل جوان ہو چکی ہے مگر یہ آج تک واپس نہیں گئے اور ہم نے انہیں پاکستانی کا سٹیٹس بھی نہیں دیا‘ ملک 1971ء میں ٹوٹا تھا‘ بنگالیوں اور بہاریوں کاایشو اس وقت پیدا ہوا تھا اور ہم نے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں کیا‘ آج بھی ڈھاکا میں پاکستانی بہاریوں کے کیمپ موجود ہیں
اور ہم 51سال بعد بھی ان کے مقدر کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ پاکستان میں 2005ء میں زلزلہ آیا‘ بالاکوٹ کو تباہ ہوئے 17 سال ہو چکے ہیں مگر آج تک زلزلہ زدگان بحال ہوئے اور نہ ہم نیا بالاکوٹ آباد کر سکے‘ کالا باغ ڈیم 1980ء میں مکمل ہونا تھا‘ ہم فضول واہیات قسم کی بحث میں الجھے اور یہ ڈیم آج تک آثار قدیمہ بنا پڑا ہے اور ہم چھ ماہ پانی کے لیے ایڑھیاں رگڑتے ہیں اور باقی چھ ماہ پانی میں ڈبکیاں مارتے ہیں
اور پاکستان میں 2010ء میں سپرفلڈ آیا تھا‘ ہم نے اس وقت ملک کو مستقبل کے سیلابوں سے بچائو کے لیے پالیسی بنائی تھی لیکن ہم آج تک اس پر عمل نہیں کر سکے یہاں تک کہ 2022ء کا سپر فلڈ آ گیا اور ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا اور ہم ایک بار پھر کشکول اٹھا کر دنیا کی طرف چل پڑے‘
سیلاب زدگان آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بنا رکھ کر آسمان پر ہیلی کاپٹر تلاش کر رہے ہیں اور ہم من حیث القوم امدادی کیمپ لگا کر بیٹھے ہیں‘ قوم گلیوں میں چندہ مانگ رہی ہے اور حکومت عالمی چوراہے پر کشکول رکھ کر بیٹھی ہے‘ کیا یہ زندہ قوموں کا وطیرہ ہے؟ کیا ہمارے اندراپنے لوگوں کے ریلیف اور ریسکیو کی صلاحیت بھی نہیں؟ ہم اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہو گا
ہم یہ ملک اقوام متحدہ کے حوالے کر دیں یا پھر چین کو دے دیں‘ ہمارے ملک کے تمام مسئلے اگر دوسری اقوام ہی نے حل کرنے ہیں تو پھر ہم یہ ملک انہیں لیز پر کیوں نہیں دے دیتے تاکہ عوام کو کم از کم نیند اور پیٹ بھر روٹی تو مل سکے۔ہمارا تازہ ترین سیلاب بے شک خوف ناک ہے لیکن یہ مسئلہ اس کے باوجود ناگاساکی اور ہیرو شیما جیسا نہیں‘ جاپان نے اگر اپنے عوام کو دو ایٹمی بموں کی تباہی سے نکال لیا تھا
تو کیا ہم اپنی قوم کو سیلاب کے پانی سے نہیں نکال سکتے؟ ہم بڑی آسانی سے لوگوں کو نکال بھی سکتے ہیں اور انہیں بیرونی مدد کے بغیر بحال بھی کر سکتے ہیں بس جذبہ اور غیرت چاہیے‘ ملک میں سیلانی‘ اخوت‘ الخدمت‘ المصطفیٰ ٹرسٹ‘ ریڈفائونڈیشن اور ایدھی فائونڈیشن جیسے ادارے موجود ہیں اور یہ انتظامی لحاظ سے حکومت سے ہزار درجے بہتر‘ مضبوط اور کارآمدبھی ہیں‘ حکومت بس تین کام کر لے‘
یہ ریسکیو‘ ریلیف اور سیٹل منٹ کا کام ان کے حوالے کر دے اور ان کے راستے میں جہاں رکاوٹ کھڑی ہو یہ وہ رکاوٹ ہٹا دے‘ دوسرا خیر کے تمام اداروں کو ایک چھت کے نیچے بٹھا دے‘ ایک سینٹر بنا کر انہیں اس میں اپنے دفتر بنانے کی اجازت دے دے تاکہ یہ کسی بھی کرائسیس میں ایک دوسرے سے کوآرڈی نیشن کر سکیں‘
یہ آپس میں کام اور علاقے تقسیم کریں اور کام شروع کر دیں اور تین حکومت ریسکیو ورکرز کا ڈیٹا جمع کر لے اور ان کی ٹریننگ کا بندوبست کر دے تاکہ خدمت سسٹم میں آ سکے۔سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں‘ ملک کی مجموعی آبادی 22 کروڑ ہے گویا ساڑھے اٹھارہ کروڑ لوگ سیلاب سے محفوظ ہیں‘ یہ ساڑھے اٹھارہ کروڑ لوگ بڑی آسانی سے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں‘
آپ نے بس ان ساڑھے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے صرف ایسے ساڑھے تین کروڑ لوگ تلاش کرنے ہیں جو تین چار ماہ تک ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو راشن اور کپڑے دے سکیں اور آپ اس کے بعد ساڑھے تین کروڑ متاثرین اور ساڑھے تین کروڑ ڈونرز کو این جی اوز میں تقسیم کر دیں اور یوں ابتدائی مسئلہ حل ہو جائے گا‘ آپ ڈونر اور ضرورت مند کے درمیان رابطے کا کام الخدمت کو سونپ سکتے ہیں‘
یہ لوگ ایک ماہ کے اندر یہ جاب مکمل کر دیں گے‘ سیلاب نے دس لاکھ گھر تباہ کر دیے‘ ان میں سے نوے فیصد گھر کچے اور دیہاتی تھے‘ ان کی بحالی کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے فی گھر چاہیے‘ کیا ہم ملک میں سے دس لاکھ ایسے لوگ تلاش نہیں کر سکتے جو فی کس ایک لاکھ روپے دے سکیں‘ دس لاکھ لوگ‘ فی کس ایک لاکھ روپے اور دس لاکھ مکان بحال‘ یہ کتنی بڑی سائنس ہے؟
آپ یہ کام اخوت کو سونپ سکتے ہیں‘ حکومت ڈاکٹر امجد ثاقب کو سپورٹ کرے‘ آپ میڈیا کے لیے ان کے اشتہار فری کر دیں‘ ان سے ٹیلی تھون کرائیں اور یہ ایک ہفتے میں دس لاکھ ڈونر تلاش کر لیں گے‘ آرکی ٹیکٹس ان کے ساتھ مل کر کام کریں‘ یونیورسٹیوں کے طالب علم مدد کریں اور یہ کام بھی سال چھ ماہ میں نبٹ جائے گا‘ سیلانی ٹرسٹ روزانہ دو لاکھ لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے‘
یہ لوگ فوڈ کے ایکسپرٹ ہو چکے ہیں‘ آپ انہیں راشن کی ذمہ داری دے دیں‘ یہ کام ان کے لیے بہت آسان ہے‘یہ لوگوں کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے‘ ریڈ فائونڈیشن ملک میں 400 سکول چلا رہی ہے‘ حکومت متاثرہ علاقوں کے سکولوں کی بحالی کی ذمہ داری اسے دے دے‘ یہ چند ماہ میں سکول آباد کر دے گی‘ متاثرین کو کپڑے اور کمبل فراہم کرنے کی ذمہ داری ایدھی فائونڈیشن یا پاکستان لنڈا ایسوسی ایشن کو دے دیں‘
یہ کام ان کے لیے آسان ہو گا‘ متاثرہ علاقوں میں صحت اور علاج کی ذمہ داری ڈاکٹر آصف جاہ کی این جی او کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی‘ انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر باری اور المصطفیٰ ٹرسٹ کے حوالے کر دیں‘ المصطفیٰ ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد پاکستان سمیت بارہ ملکوں میں آنکھوں کے مفت آپریشن کراتے ہیں‘
ان کے پاس سسٹم اور کارکن دونوں ہیں‘ انڈس ہسپتال دنیا کا واحد ہسپتال ہے جس میں چندے کا باکس تک نہیں ہے اور اس میں سر درد سے لے کر کینسر تک ہر علاج مفت ہوتا ہے اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کرا چکے ہیں‘ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے تھر میں صاف پانی کے 1500 کنوئیں کھود کر ٹیوب ویل لگا دیے اور آپ اسی طرح علیم خان‘ ملک ریاض اور زاہدرفیق جیسے ڈویلپرز سے بھی مدد لے کر متاثرہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں شروع کرا سکتے ہیں۔
آج سے ہزاروں سال قبل کسی ضرورت مند نے ڈونر سے مچھلی کی بجائے مچھلی پکڑنے کا کانٹا مانگا تھا‘ ڈونر نے کہا تھا ’’بیٹا تم بھوکے ہو‘ تم مچھلی لے لو‘ تمہاری کم از کم آج کی رات تو اچھی گزر جائے گی‘‘ بھوکے نے جواب دیا تھا ’’سر میں آج کھانا کھا لوں گا لیکن کل کیا کروں گا لہٰذا آپ مہربانی فرما کر مجھے یہ کانٹا دے دیں‘ میری بھوک اور روزگار دونوں کا بندوبست ہو جائے گا‘‘
حکومت بھی اگر دوسرے ملکوں سے مدد لینا چاہتی ہے تو یہ کیش اور سامان کی بجائے دوسرے ملکوں سے جانور مانگ لے‘ آپ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ ہالینڈ اور امریکا سے گائے اور بھینسیں لیں‘ آپ ایران‘ ترکی اور افریقہ کے ڈونر ملکوں سے بھیڑیں اور بکریاں لیں اور یورپ سے بیج مانگ لیں اور یہ متاثرہ لوگوں میں تقسیم کر دیں‘ ان کا مقدر بدل جائے گا‘ سیلاب میں دس لاکھ مویشی بہہ گئے ہیں‘
ہم اگر ان لوگوں کو رقم دیں گے تو یہ ضائع ہو جائے گی اور یہ لوگ اگلے برس دوبارہ امداد کے لیے سڑکوں پر بیٹھے ہوں گے لیکن ہم اگر انہیں ڈھور ڈنگر دے دیں تو یہ چند ماہ میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے لہٰذا میری درخواست ہے ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے اور لانگ ٹرم سوچنا چاہیے‘ ہم آخر کب تک رائونڈ ابائوٹ پر اس طرح گاڑی چلاتے رہیں گے اور آخر کب تک یاجوج ماجوج کی طرح دیواریں چاٹتے رہیں گے؟۔