یہ 31 مارچ 2022ء کی بات ہے‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور ان سے گلہ کیا ’’جنرل صاحب آپ نے ہمیں بالکل تنہا چھوڑ دیا‘‘ آرمی چیف پرویز خٹک کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ وزیراعظم عمران خان کو ہمیشہ مشورہ دیتے تھے’’ آپ کے پاس صرف ایک ہی سیاست دان ہے اور وہ ہے پرویز خٹک‘آپ ان کی وجہ سے کے پی کے سے دوسری بار جیتے ہیں‘
آپ ان سے کام کیوں نہیں لیتے؟‘‘ لیکن عمران خان کا جواب ہوتا تھا ’’یہ میری بات نہیں مانتا‘‘ اس کے جواب میں آرمی چیف کا جواب ہوتا تھا ’’چیف کی حیثیت سے میرے پاس حتمی اختیارات ہیں‘ میں کسی بھی وقت کسی بھی تھری سٹار جنرل کو کھڑے کھڑے فارغ کر سکتا ہوں اور میرے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں ہو سکتی لیکن میں اس کے باوجود اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرتا جب تک میرے تمام ساتھی متفق نہ ہو جائیں‘ مخالف رائے کو برداشت کرنا لیڈر کی بڑی کوالٹی ہوتی ہے‘ آپ بھی ساتھیوں کی رائے برداشت کیا کریں‘‘ مگر اس مشورے کے باوجود عمران خان نے پرویز خٹک سے اپنا فاصلہ کم نہیں کیا تاہم یہ عدم اعتماد سے قبل پرویز خٹک کی صلاحیتوں کو ماننے پر مجبور ہو گئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ میں 31 مارچ کی طرف واپس آتا ہوں‘ پرویز خٹک نے گلہ کیا اور آرمی چیف نے جواب دیا ’’آپ حکم کریں‘ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف کو وزیراعظم ہائوس آنے کی دعوت دے دی‘ آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم ہائوس پہنچے‘ ان کی وہاں پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے ملاقات ہوئی اور ان تینوں نے وزیراعظم کے مشورے سے فوج کو ذمہ داری سونپی آپ پی ڈی ایم سے بات کریں‘ یہ اگر عدم اعتماد واپس لے لیں تو ہم اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی طرف چلے جاتے ہیں‘
آرمی چیف نے پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کیا اور اسلام آباد کے بی میس میں ملاقات طے ہو گئی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں اس میٹنگ میں موجود تھے‘ آرمی چیف نے پی ڈی ایم کو مشورہ دیا‘ آپ نے عمران خان کو گرا لیا ہے‘ آپ اب اس کے سینے پر چڑھ کر بھنگڑا نہ ڈالیں‘ حکومت آپ کو راستہ دے رہی ہے‘ آپ یہ آفرقبول کر لیں‘ آپ کی عزت میں اضافہ ہو گا‘ میاں شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن خاموش رہے لیکن خالد مقبول صدیقی‘ خالد مگسی اور شاہ زین بگٹی نے انکار کر دیا‘
ایم کیو ایم کا کہنا تھاکراچی میں ہماری 14 سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں‘ ہمیں اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کے لیے وقت چاہیے‘ خالد مگسی کا جواب تھا‘ میں بلوچستان کا بڑا زمین دار ہوں‘ ہزاروں ایکڑ کا مالک ہوں‘ مجھے اقتدار یا پیسہ نہیں چاہیے‘ عزت چاہیے اور عمران خان نے مجھے وہ نہیں دی‘
میں اس شخص کو عزت کے ساتھ نکلنے نہیں دوں گا جب کہ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا‘ میں عمران خان کا معاون خصوصی تھا لیکن یہ میرا نام تک نہیں جانتا‘ یہ مجھے شیزان بگٹی کہتا تھا‘ مولانا فضل الرحمن کی رائے ففٹی‘ ففٹی تھی جب کہ ن لیگ نئے الیکشن کی طرف جانا چاہتی تھی‘ پی ڈی ایم کا فیصلہ تھا فیصلہ جو بھی ہوگا متفقہ ہو گا اور تمام اتحادی عدم اعتماد واپس لینے پر متفق نہ ہو سکے‘
یہ میٹنگ ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہی اور آخر میں بے نتیجہ رہی‘ اسٹیبلشمنٹ نے اس دن اپوزیشن کو فیس سیونگ دینے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش فیل ہو گئی‘ اپوزیشن نے وہ گولڈن چانس مس کر دیا اور یہ آج اس پر بری طرح پچھتا رہے ہیں۔میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو عمران خان نے 27 مارچ 2022 ء کو پریڈ گرائونڈ جلسے میں جو امریکی مراسلہ لہرایا تھااس کی بیک گرائونڈ بھی بتاتا چلوں‘
امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید7 مارچ کو الوداعی میٹنگ کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کے لیے گئے‘ میٹنگ لنچ پر ہوئی‘ سفیر نے ڈونلڈ لو سے گلہ کیا ’’میں اس افسوس کے ساتھ واپس جا رہا ہوں آپ نے صدر جوبائیڈن کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات نہیں کرائی‘‘ جواب میں ڈونلڈ لو نے عمران خان کی وہ ساری تقریریں‘ بیان اور ٹویٹس دہرا دیے جو انہوں نے امریکا کے خلاف جاری کیے تھے اور اس کے بعدکہا‘
آپ لوگ الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سپورٹ کرتے رہے لہٰذا میں کس منہ سے صدر سے فون کے لیے بات کرتا بہرحال پاکستان میں اگر عدم اعتماد کام یاب ہو جاتی ہے اور نیا وزیراعظم آ جاتا ہے تو میں کوشش کروں گا‘ سفیر اسد مجید نے ایمبیسی واپس آ کر ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کا احوال لکھ کر بھجوا دیا‘ فارن سیکرٹری سہیل محمودنے پروسیجر کے مطابق مراسلہ وزیراعظم ہائوس‘
آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو بھجوا دیا‘ مراسلہ جی ایچ کیو کے پراسیس سے ہوتا ہوا آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ کی تقریب تھی‘ وزیراعظم عمران خان بھی اس میں مدعو تھے‘ آرمی چیف نے تقریب کے دوران مراسلہ عمران خان کو دکھایا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ سے بار بار درخواست کر رہا تھا‘ آپ ہاتھ ہلکا رکھیں‘ سفارتی تعلقات نازک ہوتے ہیں‘
آپ اب یہ مراسلہ دیکھ لیں‘‘ عمران خان نے خط پر نظر دوڑائی‘ اسے تہہ کر کے جیب میں رکھا اور کہا ’’جنرل صاحب آپ اسے چھوڑیں‘ اس قسم کے خط آتے جاتے رہتے ہیں‘‘ وزیراعظم نے اس دن دیر میں جلسے سے خطاب کرنا تھا‘ یہ تقریب سے جلد جلسے کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے‘ آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ’’سر آپ لیڈر ہیں‘ آپ وزیراعظم ہیں‘ آپ دوسرے لیڈروں کو برے ناموں سے نہ پکارا کریں‘
مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنا زیادتی ہے‘آپ افہام وتفہیم کی بات کیا کریں‘‘ وزیراعظم نے ہاں میں سر ہلایا لیکن جلسے میں جا کر کہہ دیا ’’میری ابھی جنرل باجوہ سے بات ہورہی تھی‘ انہوں نے کہا فضل الرحمان کو ڈیزل نہ کہنا‘ میں تو نہیں کہہ رہا لیکن عوام نے اس کا نام ڈیزل رکھ دیا ہے‘‘ اور یہ سن کر اسٹیبلشمنٹ نے سر پکڑ لیا‘ عمران خان نے 27مارچ کو بعد ازاںپریڈ گرائونڈ کے جلسے میں وہی خط لہرا دیا جس کی کاپی آرمی چیف نے انہیں صرف سمجھانے کے لیے دی تھی اور یہاں سے سازشی بیانیے کا شور شروع ہو گیا۔
میں واپس آتا ہوں‘ پی ڈی ایم کے پاس 31 مارچ کی رات گولڈن چانس تھا یہ دلدل میں گرنے سے بچ سکتی تھی لیکن یہ لوگ اقتدار کے لالچ اور خوش فہمیوںکے سیلاب میں بہہ گئے‘ ان کا خیال تھا یہ ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بحری جہاز بنا دیں گے مگر آنے والے وقت نے ان کے تمام اندازے اور خوش فہمیاں کھول کر رکھ دیں‘ یہ ہر دن بے عزت اور عمران خان مضبوط ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ حکومت آج صرف وفاق تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ لوگ پنجاب جیسے پانی پت سے بھی محروم ہو چکے ہیں‘
میاں نواز شریف نے اس دوران پی ڈی ایم کو دلدل سے نکالنے کی کوشش کی‘ لندن میں 11 مئی کو پارٹی میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہو گیا میاں شہباز شریف 19 مئی کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے مگر یہ اسمبلی نہیں توڑیں گے اور اتحادی اگر کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرنا چاہیں تو انہیں موقع دیا جائے گا‘ وزیراعظم کی الوداعی تقریر بھی تحریر ہو گئی لیکن عمران خان نے عین وقت پر 25 مئی کے لانگ مارچ کی کال دے کر بازی پلٹ دی اور میاں نواز شریف نے حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا
لیکن اس فیصلے کے باوجود حکومت تگڑی نہ ہو سکی‘ یہ حکومت نہ بن سکی‘ حکومت نے عمران خان کو گرفتار کیا‘ بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ بنایا‘ یہ فرح گوگی اور احسن جمیل کو بیرون ملک سے لا سکی‘ شہزاد اکبر کے خلاف 50 ارب روپے کا کیس بنا سکی‘ پنجاب کا ضمنی الیکشن جیت سکی اور نہ یہ سپریم کورٹ میں اپنا کیس جیت سکی‘ یہ حکومت کی خوف ناک سیاسی شکستیں تھیں‘ دوسری طرف رہی سہی کسر مفتاح اسماعیل نے پوری کر دی‘ ان کی پالیسیاں‘ تقریریں اور وعدے ن لیگ کے لیے تابوت بنتے چلے گئے‘
حکومت سے کوئی پوچھے وہ شخص جو کراچی میں اپنی سیٹ نہ نکال سکا‘ جس نے 2017ء میں بھی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور جس نے سندھ میں پارٹی کو دفن کر دیا تھا‘آپ کو اس میں نہ جانے کیا خوبی نظر آئی آپ نے اسے وزارت خزانہ کا قلم دان سونپ دیا اور اس نے وہ کام کر دکھایا جو عمران خان ساڑھے تین سال میں نہیں کر سکا۔
میاں نواز شریف اب ایک بار پھر حکومت چھوڑنے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا سوچ رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے یہ اب پچھلی غلطیوں سے بھی بڑی غلطی ہو گی‘ پارٹی نانی کا نکاح کر چکی ہے‘ یہ اب اسے نبھانے کی کوشش کرے‘ حکومت تگڑی ہو‘ یہ جھوٹ کے بازار میں مزید نفیس بننے کی غلطی نہ کرے‘ یہ بولڈ سیاسی اور معاشی فیصلے کرے شاید یہ اس سے بچ جائے
لیکن یہ اگر پیچھے ہٹی تو یہ بری طرح ماری جائے گی‘ یہ پھر بچ نہیں سکے گی اور جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے یہ طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ مکمل نیوٹرل ہوئی ہے‘ یہ دونوں کو ’’لیول پلے انگ فیلڈ‘‘ دے رہی ہے‘ اس نے خود کو سیاسی جوڑ توڑ سے مکمل الگ کر لیا ہے‘ حکومت کو اب اس نیوٹریلٹی کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ اسے فوج کو دوبارہ سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے‘ یہ ملک‘ فوج اور حکومت تینوں کے لیے مفید ہو گا ورنہ مکمل تباہی ہے۔