دنیا میں جیتنے کی دو ہزار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہارنے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ ہے ہار اور ضمنی الیکشنز میں پاکستان مسلم لیگ ن ہار گئی‘ عمران خان جیت گئے اور اب میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو اپنی ہار مان کر عمران خان کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے‘ میں بھی تسلیم کرتا ہوں ضمنی الیکشنز کے دوران میرا تجزیہ غلط تھا‘ میرا خیال تھا پاکستان مسلم لیگ ن حلقوں کی ایکسپرٹ ہے‘
یہ جوڑ توڑ کو بھی اچھی طرح سمجھتی ہے لہٰذا یہ چودہ پندرہ سیٹیں نکال لے گی لیکن میرا تخمینہ غلط ثابت ہوا اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر چار اور پی ٹی آئی نے 15 سیٹیں حاصل کرلیں اور یوں سیاسی اپ سیٹ ہو گیا‘پنجاب اسمبلی میں اب صورت حال یہ ہے پاکستان تحریک انصاف 178سیٹیں‘ ق لیگ 10سیٹیں اور پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی179نشستیں لہٰذا صاف نظر آ رہا ہے پاکستان تحریک انصاف حکومت بنائے گی اور چودھری پرویز الٰہی ان کے وزیراعلیٰ ہوں گے اور یہ اس عہدے پر کتنی دیر قائم رہتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والے دن کریں گے لیکن جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کی ہار کا تعلق ہے تو ہم یہ ڈسکس کر سکتے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کی شکست کی پہلی وجہ تیاری کے بغیر اقتدار کے سمندر میں چھلانگ ہے‘ میاں نواز شریف کا خیال تھا عوام عمران خان کوکرسی سے گھسیٹ کر اتار دیں گے لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی جب یہ مرحلہ نہ آیا تو ن لیگ پریشان ہو گئی اور یہ ’’ٹریپ‘‘ میں آ گئی‘ شریف برادران کو طریقے طریقے سے بتایا گیا تھا عمران خان سو سے زائد ریٹائرڈ جج بھرتی کر رہے ہیں
اور یہ جج دسمبر 2022ء تک اپوزیشن کی ساری قیادت کو جیلوں میں بھی پھینک دیں گے اور ڈس کوالی فائی بھی کر دیں گے چناں چہ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ یہ بھی حقیقت ہے اسٹیبلشمنٹ نے مارچ 2021ء میں حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا‘ یہ آئیڈیا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تھا‘ تین مارچ کو الیکشن ہوا‘حفیظ شیخ ہار گئے
اور گیلانی صاحب جیت گئے‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا عمران خان اپنی شکست کو سیریس لیں گے اور اپنے سیاسی معاملات درست کر لیں گے لیکن وزیراعظم نے 6 مارچ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر دیا اور یہ 72 گھنٹے جاگ کر حکومت بچانے میں لگ گئی‘ وزیراعظم کو 178 ووٹ دلانے کے لیے ایم این ایز کو سیف ہائوسز میں بھی رکھا گیا‘ پارلیمنٹ لاجز میں ارکان اسمبلی کے
دروازوں کے سامنے سیکورٹی بھی بٹھائی گئی اور اتحادیوں کو منا کر راضی کر کے اسلام آباد بھی لایا گیا اور یوں بڑی مشکل سے 178 ایم این اے پورے ہوئے‘ وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے بعد ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کہا گیا ’’سر یہ ہماری طرف سے آپ کی آخری سیاسی مدد تھی‘
آپ اب اپنے فیصلے خود کریں‘‘ اور یوں اسٹیبلشمنٹ سائیڈ پر ہو گئی‘ آصف علی زرداری نے یہ دوری بھانپ لی اور انہوں نے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو عدم اعتماد کے لیے راضی کر لیا اور یوں اتحادی حکومت بن گئی لیکن ساتھ ہی ن لیگ سے تین بڑی غلطیاں سرزد ہو گئیں اور یہ غلطیاں اسے دو ماہ میں وہاں لے آئیں جہاں اسے آنے میں پانچ سات برس چاہیے تھے‘
ن لیگ کی پہلی غلطی مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانا تھا‘ مفتاح اسماعیل ایک غیرسنجیدہ شخص ہیں‘ یہ بڑے بڑے ظالمانہ فیصلے ہنستے ہنستے کر جاتے ہیں اور یہ حرکت وزیر خزانہ کی شایان شان نہیں ہوتی‘ یہ 30اپریل 2021ء کو فیصل واوڈا کی خالی سیٹ سے بھی ہار گئے تھے اور یہ اس وقت حلوہ قسم کی سیٹ تھی لیکن مفتاح اسماعیل نے ارب پتی ہونے کے باوجود اپنے الیکشن پر ایک کروڑ روپے بھی خرچ نہیں کیے تھے‘ یہ بینر اور پوسٹر تک دوسرے لوگوں کے پیسوں سے بنواتے اور لگواتے رہے‘
پارٹی نے انہیں مئی 2019ء میں سندھ کاجنرل سیکرٹری بنایا تھا اور انہوں نے چند ماہ میں پورے سندھ سے پارٹی کی تمام جڑیں صاف کر دیں‘ یہ 2018ء میں ایک ماہ چار دن کے لیے وزیر خزانہ بنائے گئے تھے اور انہوں نے اس زمانے میں بھی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا‘ پاکستان ایف اے ٹی ایف میں بھی پھنس گیا تھا‘ آئی ایم ایف کے شکنجے میں بھی آ گیا تھا اور ڈالر بھی 10روپے مہنگا ہو گیا
تھا لہٰذا یہ ایک ’’بیڈ چوائس‘‘ ثابت ہوئے اگر ان کی جگہ یہ قلم دان اسحاق ڈار کو دے دیا جاتا تو آج ملک کی صورت حال مختلف ہوتی‘ دوسری غلطی پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانا تھا‘ یہ درست ہے حمزہ شہباز حلقوں کی سیاست سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود والد کا وزیراعظم اور بیٹے کا 12 کروڑ کے صوبے کا وزیراعلیٰ ہونا لوگوں کو ہضم نہیں ہوا‘ پارٹی کے اندر سے بھی
ٹھیک ٹھاک مخالفت سامنے آئی‘ میاں نواز شریف بھی یہ نہیں چاہتے تھے لیکن رانا ثناء اللہ نے انہیں راضی کر لیا اور یہ فیصلہ بعدازاں غلط ثابت ہوا اور تیسری غلطی عمران خان کے بارے میں غلط اندازہ تھا‘ اتحادی حکومت کا خیال تھا عمران خان کی واحد طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے اور یہ اس کے پیچھے سے ہٹ چکی ہے چناں چہ یہ اب کاغذی ہو چکے ہیں مگر یہ اندازہ غلط ثابت ہوا‘ عمران خان نے اپنی لائن اینڈ لینتھ تبدیل کر دی اور یہ اب بڑی تیزی سے اپنی جگہ بناتے چلے جا رہے ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے اتحادی جماعتوں بالخصوص ن لیگ کو اقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا‘ عمران خان نے جنرل باجوہ کے ذریعے اپوزیشن کو 7 اپریل کو عدم اعتماد واپس لینے اور بدلے میں قومی اسمبلی توڑنے کی پیش کش کی تھی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اسلام آباد کے بی میس میں اپوزیشن کو ساڑھے پانچ گھنٹے سمجھایا تھا لیکن خالد مگسی‘ شاہ زین بگٹی اور ایم کیو ایم نہیں مانی تھی‘
خالد مگسی نے جواب دیا تھا‘ میں بلوچستان کا بڑا زمین دار ہوں‘ میں لاکھوں ایکڑ کا مالک ہوں لیکن عمران خان نے مجھے کبھی عزت نہیں دی لہٰذا میں اس کی کوئی شرط نہیں مانوں گا‘ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا عمران خان میرا نام تک نہیں جانتے‘ یہ مجھے شیزان بگٹی کہتے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کا کہنا تھا ہمیں کراچی میں اپنا مینڈیٹ واپس لینے کے لیے وقت چاہیے اور یوں ن لیگ حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی‘
میرا خیال ہے یہ اگر حکومت بناتے وقت بھی عقل سے کام لے لیتی اور یہ اگر شہباز شریف کی جگہ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی یا خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیتی تو شاید پارٹی کی عزت بچ جاتی لیکن پارٹی نے اپنے پوسٹر بوائے میاں شہباز شریف کو میدان میں اتار کر خود کو سیاسی لحاظ سے برہنہ کر لیا اور یہ ثابت ہو گیا میاں شہباز شریف صوبے کی حد تک تو ٹھیک تھے
مگر پورا ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں اور اوپر سے پنجاب حمزہ شہباز شریف کے حوالے کر دیا گیا اور یوں اس تاثر پر مہر لگ گئی شریف فیملی ساری فصل اپنے گھر تک رکھنا چاہتی ہے‘ یہ چھلکے بھی کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے تاہم میں یہاں میاں نواز شریف کو ایک کریڈٹ دوں گا‘ یہ اقتدار‘ میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ‘ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن پارٹی نے انہیں باندھ کر مروا دیا‘
یاں شہباز شریف نے ڈیل کی اور ملک احمد خان اور عطاء اللہ تارڑ نے اس ڈیل کو حتمی شکل دی اور یوں آج پارٹی ‘پارٹی نہ رہی۔ہم اب آتے ہیں سیاسی مستقبل کی طرف‘ میرا خیال ہے فریش مینڈیٹ کے علاوہ اب کوئی آپشن نہیں بچا‘ یہ حکومت جتنی دیر چلتی رہے گی ملک اتنا ہی سیاسی‘ سفارتی اور معاشی گرداب میں پھنستا چلا جائے گا اور اسے اس گرداب سے نکالنے کے لیے جلد یا بدیر مارشل لاء لگانا پڑ جائے گا یا پھر
’’جوڈیشل کو‘‘ کرنا پڑے گا بصورت دیگر یہ سنبھل نہیں سکے گا اور اگر ایک بار مارشل لاء لگ گیا تو پھر یہ دس بیس سال ختم نہیں ہو گا اور اس وقت تک تینوں پارٹیوں کی قیادت زمین سے آسمان پر شفٹ ہو چکی ہو گی‘ 25 مئی کو لانگ مارچ کے دوران بھی پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے وفد کو بلا کر یہ سمجھایا گیا تھا‘ انہیں بتایاگیا تھا اگر آج ریڈ زون میں لوگ مرے تو مارشل لاء لگ جائے گا
اور آپ بیس سال تک کے لیے سیاسی واپسی کا آپشن بھی بھول جائیں‘ ملک کے حالات آج بھی اتنے ہی خطرناک ہیں‘ سیاسی جماعتیں اگر اکٹھی نہ بیٹھیں‘ یہ اگر کسی متفقہ لائحہ عمل پر نہ آئیں تو پھر مارشل لاء کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہ جائے گا اور ہم بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں‘
میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں اسٹیبلشمنٹ نے واقعی خود کو سیاست سے دور کر لیا ہے ‘ فیصلے اب گھوڑے کر رہے ہیں اور میدان کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ فیصلہ کب تک برقرار رہ سکے گا‘ ملک اور معیشت اگر دونوں نہیں سنبھلتیں‘ سیاست دان کسی کم سے کم ایجنڈے پر متفق نہیں ہوتے تو
اسٹیبلشمنٹ خود کو کتنی دیر اس گند سے باہر رکھ سکے گی‘ اسے جلد یا بدیر میدان میں کودنا پڑے گا اور اس فیصلے کے بھی اپنے برے نتائج ہوں گے اور یہ نتائج بہرحال ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو بھگتنا پڑیں گے اور کیا یہ اس کے لیے تیار ہیں؟
اگر ہاں تو بسم اللہ اور پھر 20 سال کے لیے سیاست بھول جائیں اور اگر نہیں تو پھر میاں نواز شریف کو آگے بڑھ کر عمران خان کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے اور انہیں الیکٹورل ریفارمز‘ آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار اور اگلے الیکشن کے لیے اکٹھے بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے اور عمران خان کو یہ دعوت قبول کر لینی چاہیے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جمہوریت کے لیے آخری موقع ہے‘ ہم نے اگر یہ بھی کھو دیا تو پھر ہمیں واپسی کے لیے لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔