میں نے 13 جولائی 2022ء کو لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی‘ میری ان سے آخری ملاقات 4 سال قبل 2018ء میں ہوئی تھی‘ پانامہ کیس چلنا شروع ہوا‘ یہ ڈس کوالی فائی ہوئے‘ گرفتار ہوئے اور جیل چلے گئے‘ میں ان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل گیا‘ یہ ان سے آخری ملاقات تھی‘ یہ اس کے بعد کوٹ لکھپت جیل شفٹ کر دیے گئے اور پھر ان سے ملاقاتوں پر پابندی لگ گئی
اور 19 نومبر 2019ء کو یہ لندن چلے گئے‘ میں اس دوران لندن نہیں آ سکا‘ عید کے دوسرے دن اچانک پروگرام بنا‘ میں لندن آیا اور میری اگلے دن ان سے ملاقات طے ہو گئی‘ میاں صاحب سے ملاقات سنٹرل لندن میں ان کے دفتر میں ہوئی‘ ان کے لہجے کی شگفتگی قائم تھی‘ مذاق بھی کر رہے تھے اور اپنے مخصوص شرمیلے انداز سے ہنس بھی رہے تھے لیکن ان کی صحت اور جذبہ دونوں ماند تھے‘ گلے میں خراش سی تھی اور انہیں سننے میں بھی دقت محسوس ہو رہی تھی‘ حسین نواز نے بتایا‘ ان کا علاج چل رہا ہے‘ پروسیجر بھی ہوئے ہیں لیکن دل کے عوارض اور گردے اور مثانے کے مسائل ابھی تک موجود ہیں۔مجھے تین گھنٹے ان کے دفتر میں گزارنے کا موقع ملا‘ مجھے محسوس ہوا تین واقعات نے ان کے ذہن اور روح پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں‘ بیگم کلثوم نواز صاحبہ اور والدہ کے انتقال اور جولائی 2018ء میں مریم نواز کی ان کے سامنے گرفتاری‘ یہ 10ستمبر2018ء کو بیگم صاحبہ سے فون پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن جیل سپرنٹنڈنٹ نے انہیں ٹیلی فون کی اجازت نہیں دی تھی اور یوں11 ستمبر کی صبح سوا گیارہ بجے (برطانوی وقت کے مطابق) بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا‘ میاں صاحب کو آخری مرتبہ بات نہ کرنے کا قلق ہے‘ ان کا خیال ہے جیل حکام کو عمران خان نے روک دیا تھا‘ انہوںنے اس زمانے میں کہا تھا‘ اللہ تعالیٰ کسی کو کم ظرف دشمن نہ دے‘
یہ اپنی والدہ کو لحد میں بھی نہیں اتار سکے تھے‘ انہیں اس کا بھی دکھ تھا اور13جولائی 2018ء کو پولیس نے ان کے سامنے مریم نواز کو گرفتار کر لیا تھا‘ یہ واقعہ بھی سانحہ بن کر ان کے دل اور دماغ میں ثبت ہو گیااور یہ ابھی تک ان تینوں واقعا ت کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے‘ یہ ملکی حالات کے بارے میں پریشان تھے‘ ان کا کہنا تھا ہم نے 75 سال برباد کر دیے‘ ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا‘
ہمیں ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی‘ اس کے علاوہ کوئی چیز ملک کو نہیں بچا سکتی‘ ان کا کہنا تھا ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا ملک کے اصل اختیارات کس کے پاس ہیں؟ ملک میں جب تین تین اتھارٹیز ہوں گی‘ صدر اور آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی انتظامی فیصلے کریں گے اور وزیراعظم صرف مار کھانے کے لیے ہو گا تو پھر ملک کیسے چلے گا؟
ان کا کہنا تھا ’’وزارت عظمیٰ کیا ہے اور انسان اس بے اختیار عہدے کے لیے اتنی مار کیوں کھائے؟‘‘ وہاں ان کے چھوٹے صاحب زادے حسن نواز بھی بیٹھے تھے‘ میاں صاحب نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا‘ مجھے اس سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں ڈس کوالی فائی کیا گیا‘ حسن نواز نے لقمہ دیا اور وہ کمپنی بھی 2013ء میں ختم ہو گئی تھی‘ میاں صاحب کا کہنا تھا‘
میں تین بار وزیراعظم رہنے کے باوجود یہاں لندن میں بیٹھا ہوں‘ کیا میرے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا؟میاں صاحب نے تسلیم کیا میں چاہتا تھا عمران خان عوامی دبائو کے ذریعے فارغ ہوں‘ ہم ان کے خلاف عدم اعتماد نہ لائیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں دوسرے آپشن پر جانا پڑ گیا‘ میں نئے الیکشن چاہتا تھا‘ حکومت نہیں بنانا چاہتا تھا‘تین اپریل کو سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا تو ہمارا خیال تھا عدالت نظریہ ضرورت کے
تحت نئے الیکشن کا اعلان کر دے گی لیکن سپریم کورٹ نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ ری ورس کر دیا اور یوں ہمیں 11اپریل کو حکومت بنانا پڑ گئی‘ میں حکومت بنانے کے بعد نئے الیکشن کی طرف جانا چاہتا تھا‘ ہم11مئی کو یہاں اکٹھے ہوئے اور ہم نے فیصلہ کیا میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں گے‘ قومی اسمبلی اس کے بعد بے شک نیا وزیراعظم چن لے یا پھر اسمبلی ٹوٹ جائے‘
شہباز شریف کی تقریر بھی تیار ہو چکی تھی‘ میں نے ان کو ٹوک کر کہا‘ وزیراعظم نے 19 مئی کو استعفیٰ دینا تھا‘ وہ اس سوال پر خاموش رہے اور اپنی بات جاری رکھی لیکن عمران خان نے جب لانگ مارچ کا اعلان کیا تو میں نے شہباز شریف کو فون کر کے کہا ’’ہم حکومت جاری رکھیں گے‘ ہم استعفیٰ نہیں دے رہے‘ الیکشن اب اگلے سال ہی ہوں گے‘‘ اور یوں ہم ڈٹ گئے‘
میں نے پوچھا ’’اگلے الیکشن کب ہوں گے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’اگست 2023ء میں حکومت کی مدت پوری ہو گی اور اکتوبر میں الیکشن ہوں گے‘‘ ہم اس سے قبل معیشت کو ٹریک پر لائیں گے‘ میاں صاحب بار بار مجھ سے پوچھ رہے تھے‘ آپ بتائیں ہم پیچھے کیوں جا رہے ہیں؟ انڈیا کی دو کمپنیوں کا ریونیو پاکستان کے ٹوٹل ریونیو سے زیادہ کیوں ہے اور بنگلہ دیش ہم سے آگے کیوں نکل رہا ہے؟
میں نے ان سے پوچھا ’’وے فارورڈ کیا ہے؟‘‘ ہم ملک کو مسائل سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ ان کا جواب تھا‘ اس کا جواب آپ اچھی طرح جانتے ہیں‘ ہماری میٹنگ کے دوران مریم نواز چنیوٹ سے لیہ جا رہی تھیں‘ ان کا وہاں جلسہ تھا‘ میاں صاحب اس جلسے کے بارے میں زیادہ کنسرن تھے‘ وہ بار بار مریم نواز کوفون کر کے انہیں ہدایات دے رہے تھے۔
اسحاق ڈار بھی وہاں موجود تھے‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ پاکستان کب آ رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا ان شاء اللہ جولائی کے آخر میں‘ ان کا کہنا تھا میں چاہتا ہوں میں اشتہاری کے سٹیٹس کے ساتھ ملک میں قدم نہ رکھوں لہٰذا میرے وکلاء سپریم کورٹ سے درخواست کر رہے ہیں میرے خلاف کیسز غلط ہیں‘
تین سال سے میرا پاسپورٹ بھی ختم ہو چکا تھا‘ میں آنا بھی چاہتا تو نہیں آ سکتا تھا‘ ہارلے سٹریٹ ہسپتال میں میرا علاج بھی ہوتا رہا‘ میرے پاس تمام دستاویزات بھی موجود ہیں لہٰذا عدالت میرا اشتہاری کا سٹیٹس ختم کر دے‘ مجھے اگر عدالت سے میرا یہ حق مل گیا تو ٹھیک ورنہ میں بھی چودھری تنویر اور بابر غوری کی طرح آ کر عدالت سے ضمانت کرا لوں گا لیکن آئوں گا ضرور‘ میں نے ان سے پوچھا‘
کیا یہ بات درست ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری آپ نے کرائی تھی؟ چودھری نثار جنرل اشفاق ندیم کو چیف بناناچاہتے تھے‘ ڈار صاحب نے اس اطلاع کی تائید کی‘ ان کا کہنا تھا میرا بری امام سرکار کی نسبت سے جنرل باجوہ سے رابطہ تھا‘ میاں صاحب اور میں دونوں جنرل باجوہ کے حق میں تھے‘ ہمیں جنرل صاحب سے کوئی گلہ بھی نہیں‘ ہمیں انہوں نے کبھی تکلیف نہیں دی‘
یہ اچھے انسان ہیں‘ ان کے فادر اِن لاء جنرل اعجاز امجد میرے پرانے جاننے والے تھے لیکن ان کے دائیں بائیں موجود لوگ ہم سے خوش نہیں تھے‘ میں نے انہیں ٹوک کر کہا‘ جنرل باجوہ بھی یہ مانتے ہیں میاں نواز شریف نے مجھے سب سے زیادہ عزت دی‘ آرمی کی طرف سے جب نوٹی فکیشن ری جیکٹڈ کی ٹویٹ ہوئی تھی تو اس کے بعد بھی میاں نواز شریف نے صرف اتنا کہا تھا
’’جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں‘‘ ڈار صاحب اور حسین نواز دونوں نے اس کی تائید کی‘ ڈار صاحب کا کہنا تھا‘ نوٹی فکیشن ری جیکٹڈ کی ٹویٹ کے بعد جنرل باجوہ سے میرا رابطہ ہوا تھا اور ان کا کہنا تھا‘ ہمارے ساتھ چیٹنگ ہو گئی ہے‘ میاں صاحب کا تین دن بعد چین کا دورہ تھا اور وزیراعظم کم زور وزیراعظم کی حیثیت سے یہ دورہ نہیں کرنا چاہتے تھے‘
آرمی چیف کو بھی اس کا احساس تھا لہٰذا انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ میاں صاحب جلسے سے خطاب کے لیے ننکانہ صاحب جا رہے تھے‘ انہوں نے جنرل صاحب کو بلا لیا اور یہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے 15 منٹ میں وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے‘
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختاربھی ان کے ساتھ تھے‘ ملاقات ہوئی‘ وزیراعظم ننکانہ صاحب چلے گئے جب کہ میں وزیراعظم آفس میں دونوں سے ملا اور ہم نے راستہ نکال لیا‘ فوج نے اپنی ٹویٹ واپس لے لی اور یوں یہ مسئلہ حل ہو گیا لیکن فوج کے مختلف رینکس نے اسے فوج کی شکست سمجھا اور یہ فیلنگ آگے چل کر ہماری حکومت کو کھا گئی‘ میں نے حسین نواز سے پوچھا
’’کیا حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ٹھیک فیصلہ تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ قدرت کا فیصلہ تھا‘ اتحادی پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا چکے تھے‘ چودھری صاحب اگر عین وقت پر اپنا راستہ نہ بدلتے تو وہ وزیراعلیٰ ہوتے‘‘ میں نے پوچھا ’’چودھری صاحب نے اپنا فیصلہ کیوں تبدیل کیا؟
‘‘ وہ بولے ’’مجھے اس سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ بات درست ہے چودھری مونس الٰہی کو عین وقت پر ایک فون آ گیا تھا اور انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا‘‘ حسین نواز نے جواب دیا ’’میں نے بھی یہ بات سنی تھی لیکن مجھے یہ کنفرم نہیں ہے‘‘
میں نے بتایا ’’مجھے اطلاع ملی مونس الٰہی نے کمرے کے دروازے کو کنڈی لگا کر خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کوبتایا تھا‘ ہم مطمئن تھے‘ ہم نے مٹھائی بھی کھا اور بانٹ دی تھی‘ دعا بھی ہو گئی تھی اور ہم طویل عرصے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے بھی تیار تھے
لیکن پھر مجھے ایک کال آئی اور ہم اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے‘ مونس الٰہی نے خواجہ سعد رفیق کو فون کرنے والے کا نام بھی بتایا تھا‘‘ حسین نواز مسکرائے اور پھر کہا ’’آپ خواجہ سعد رفیق یا مونس الٰہی سے تصدیق کریں‘ میں سیاسی معاملات سے مکمل طور پر باہر ہوں‘ کاروبار کرتا ہوں اور زیادہ وقت سعودی عرب رہتا ہوں‘‘۔
میاں صاحب کے دفتر میں چودھری سعود مجید‘ محسن شاہ نواز رانجھا‘ انوشے رحمان‘ میاں ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ سے بھی ملاقات ہوئی‘ ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہیں‘ یہ دونوں اس واقعے کے بعدپاکستان واپس نہیں گئے‘
ناصر جنجوعہ تین نسلوں سے بزنس مین ہیں‘ کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں‘ عسکری اور سول بڑے بڑے کمپلیکس بناتے ہیں لیکن جج ارشد ملک کے واقعے کے بعد یہ اور ان کے بزنس کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی‘ اب ان کا زیادہ تر وقت لندن میں گزرتا ہے اور یہ اپنی گرفتاری کے زمانے کو یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہیں جب کہ ناصر بٹ متحرک اور زندہ دل انسان ہیں‘ یہ اپنے چٹکلوں سے محفل کو خوش رکھتے ہیں۔