لارملہ (La Rambla) بارسلونا کی شانزے لیزے ہے‘ یہ دوکلومیٹر طویل شاپنگ سٹریٹ ہے‘ دونوں طرف دنیا کے تمام بڑے برینڈز کے سٹورز ہیں‘ درمیان میں وسیع فٹ پاتھ ہیں ‘ لوگ سارا دن ان فٹ پاتھوں پر واک کرتے رہتے ہیں‘ شاپنگ سنٹروں کے درمیان کافی شاپس اور ریستوران بھی ہیں اور جگہ جگہ لائیو میوزک بھی چلتا رہتا ہے‘ لارملہ سمندر کے کنارے سے شروع ہوتی ہے‘
پورٹ کے سامنے کولمبس کا دیوہیکل مجسمہ ہے‘آپ اگر مجسمے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو کولمبس ہاتھ کے اشارے سے امریکا کی نشان دہی کرتا نظر آئے گا‘ مجسمے کے سائے میں فٹ پاتھ پر سائیکل رکشے کھڑے رہتے ہیں‘ رکشے والے دس یورو لے کر سیاحوں کو رملہ کی سیر کراتے ہیں‘ ان رکشے والوں میں جہلم کے مشتاق صاحب بھی شامل تھے‘ یہ ہمیں دیکھ کر والہانہ طریقے سے آگے بڑھے اور پورے گروپ سے گلے ملنے لگے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ رکشہ کیوں چلا رہے ہیں؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میری دکان تھی‘ کورونا آیا اور وہ بند ہو گئی‘ میں دکان دوبارہ کھولنا چاہتا تھا لیکن پھر مجھے پتا چلا کورونا کے بعد سپین کے ٹیکسی ڈرائیور کام پرواپس نہیں آ رہے جس سے اس سیکٹر میں خلاء پیدا ہو گیا ہے لہٰذا میں سائیکل رکشہ چلانے لگا‘ اس کام میں انویسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور آمدن دکان داری سے زیادہ ہے‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میں دو تین ماہ میں چار پانچ سائیکل رکشے لے لوں گا اور یہ کام دوسروں کے حوالے کر کے خود اس سے نکل جائوں گا یوں میری آمدنی کا مستقل بندوبست ہو جائے گا‘‘۔
وہ نوجوان سائیکل رکشہ سوار ٹھیک کہہ رہا تھا‘ کورونا سے قبل بارسلونا میں دس ہزار ٹیکسیاں تھیں‘ ان پر سپینش ڈرائیوروں کی مناپلی تھی‘ کورونا نے ڈرائیوروں کو سست بنا دیا اور یہ کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے لہٰذا بارسلونا اس وقت ساڑھے تین ہزار ٹیکسیوں کی کمی کا شکار ہے اور یہ مارکیٹ اب تیزی سے پاکستانیوں کے ہاتھ میں آ رہی ہے اور حکومت پاکستانیوں کو ویل کم کہہ رہی ہے‘
پاکستانیوں کو یہ گنجائش کیوں مل رہی ہے؟ اس کی وجہ سپینش سوسائٹی کی روایات ہیں‘ سپینش لوگ باقی یورپ سے بالکل مختلف اور پاکستانی روایات کے قریب ہیں‘ یہ انسان دوست ہیں‘ ان میں طبقاتی تقسیم بھی موجود نہیں اور یہ نسل پرست بھی نہیں ہیں‘ سپین میں امیر ہو یا غریب‘
مقامی ہو یا غیر ملکی لوگ سب کو برابر سمجھتے ہیں‘ دفتروں اور فیکٹریوں میں سی ای او اور عام ورکر ایک ہی کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتے ہیں‘ یونیورسٹیوں میں فنکشنز کے دوران صفائی کرنے والے اٹھ کر ڈین کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں‘ ملکی اکانومی کا انحصار ٹورازم پر ہے لہٰذا یہ اجنبیوں کے ساتھ گھل مل بھی جاتے ہیں‘
ہماری طرح سوشل نیٹ ورکنگ کے بھی قائل ہیں‘ کسی بھی جگہ کسی بھی دفتر میں کام ہو تو یہ ہماری طرح وہاں کوئی جاننے والا تلاش کرتے ہیں اور وہ جاننے والا پاکستانی روایات کے مطابق سردھڑ کی بازی لگا دیتا ہے‘ یہ سرکاری کاموں میں بھی دوستیوں اور تعلقات کا خیال رکھتے ہیں‘
آپ اگر جاننے والے ہیں یا کسی جاننے والے کے توسط سے آئے ہیں تو آپ کے لیے سارے راستے کھل جائیں گے‘ سپینش لوگوں میں باقی یورپ کے برعکس ہمدردی کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں‘ آپ کسی سے راستہ پوچھ لیں وہ آپ کو اطمینان سے سمجھائے گا‘
آپ سمجھ جائیں تو ٹھیک ورنہ وہ اپنا کام چھوڑ کر آپ کو ایڈریس پر پہنچاآئے گا‘ یہ سماجی طور پر ریلیکس لوگ بھی ہیں‘ پورے ملک میں سردیاں ہوں یا گرمیاں دوپہر دو سے پانچ بجے تک قیلولہ کیا جاتا ہے‘ اس دوران دکانیں اور ریستوران بند رہتے ہیں‘
لوگ گھروں میں آرام کرتے ہیں اور پھر سہ پہر کے بعد کام پر واپس آ جاتے ہیں‘ فرینڈلی ہیں‘ نسل پرست بالکل نہیں ہیں‘ بارسلونا میں 2000ء میں صرف ایک پاکستانی ریستوران تھا‘ آج ان کی تعداد 80 ہو چکی ہے اور ان ریستورانوں کے نوے فیصد گاہک سپینش ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ نسل پرست نہیں ہیں‘ یہ کھانے کا فیصلہ رنگ اور نسل دیکھ کر نہیں کرتے مینو اور سروسز کی بنیاد پر کرتے ہیں‘
یہ متنوع مزاج بھی ہیں‘ نئی چیزوں‘ نئے کھانوں اور نئی روایات کو ٹرائی کرتے ہیں‘ ان کا دفتری نظام ہماری طرح سست ہے‘ ان کو کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی لہٰذا ہماری طرح یہ لوگ بھی اپنے بیوروکریٹک سسٹم سے تنگ ہیں‘ عدالتی نظام بھی زیادہ ایکٹو نہیں‘
فیصلوں میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور وکلاء بھی مخالف پارٹی کے ساتھ ’’سیٹل منٹ‘‘ کر لیتے ہیں‘ زرعی ملک ہے لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کھیت‘ باغ اور جنگل نظر آتے ہیں‘ ماضی کے مسلمان علاقوں میں کروڑوں ایکڑ پر زیتون کاشت ہوتا ہے‘ آپ کو تاحد نظر زیتون کے درخت نظر آتے ہیں‘ کھجوریں بھی وافر مقدار میں کاشت ہوتی ہیں‘ سپین زیتون کی ایکسپورٹ سے سالانہ 10بلین ڈالرز کماتا ہے‘
ویلنشیا سے مالٹا شروع ہو جاتا ہے اور ہزار میل تک آپ کو دائیں بائیں مالٹے کے باغ دکھائی دیتے ہیں‘ سپین مالٹے کا جوس ایکسپورٹ کرنے والے تین بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ کھیتی باڑی کے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں‘ ہر کھیت میں پانی کا تالاب ہوتا ہے اور فصلوں کو ڈریپ ایریگیشن کے ذریعے پانی دیا جاتا ہے‘ لوگ دیہات اور فارم ہائوسز میں رہتے ہیں اور ہمارے دیہاتیوں کی طرح خوش اور مطمئن بھی ہوتے ہیں‘
فیملی سسٹم مضبوط ہے‘ یہ لوگ پاکستانیوں کی طرح طلاق پسند نہیں کرتے لہٰذا طلاق کے عمل کو لمبا کر دیتے ہیں اور فریقین کو بار بار رجوع کا موقع دیتے ہیں‘ جج بھی فیصلے سے پہلے ہر طریقے سے صلح کی کوشش کرتے ہیں‘ فیملی یونٹ کی عزت کرتے ہیں‘
غیرازدواجی تعلقات کو پسند نہیں کرتے چناں چہ آپ کو سپین میں باقی یورپ کی طرح بے حیائی کے مناظر نظر نہیں آتے‘ مذہبی ہیں لیکن متشدد نہیں ہیں‘ مسجد‘ مندر اور سیناگوگ کی بھی چرچ کی طرح عزت کرتے ہیں‘ بزنس فرینڈلی ہیں‘ حکومت کاروبار کے مواقع پیدا کرتی رہتی ہے‘
ہم نے غرناطہ کے میئر کو پاکستان آنے کی دعوت دی‘ اس نے جواب دیا ’’میں انتہائی مصروف ہوں لیکن آپ اگر میری پاکستانی بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ میٹنگ طے کر دیں تو میں کل پاکستان آ جائوں گا‘‘ سفیر مینول درون کا بھی کہنا تھا ’’سپین کے دروازے بزنس مینوں‘ زمین داروں‘ ہنرمندوں اور سیاحوں کے لیے ہر وقت کھلے ہیں‘‘ چناں چہ سپین بڑی حد تک پاکستانی محسوس ہوتا ہے۔
سپین کی ٹائون پلاننگ بھی قابل تعریف ہے‘ بارسلونا یورپ کا پہلا باقاعدہ ماڈرن سٹی ہے‘ آپ اگر اسے فضا سے دیکھیں تو یہ آپ کو چکور پیٹرن میں دکھائی دے گا‘ شہر بلاکس میں تقسیم ہے اور ہر بلاک میں زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں لہٰذا ایک بلاک کے لوگوں کو روزگار‘ تعلیم‘ صحت اور کھیل کے لیے دوسرے بلاک میں نہیں جانا پڑتا‘ اس سے ٹریفک پر بھی دبائو نہیں پڑتا اور پٹرول بھی کم خرچ ہوتا ہے‘
ہم اگر آج پاکستان کے مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ہمیں اس کی وجہ سفر دکھائی دے گا‘ ہمارے شہروں میں سکول‘ ہسپتال‘ مارکیٹیں‘ منڈیاں اور دفاتر دور دور ہیں چناں چہ سڑکوں پر بھی دبائو ہے اور پٹرول کے اخراجات بھی زیادہ ہیں‘ ہم اگر محلوں اور سیکٹرز کے سکول‘ ہسپتال‘ مارکیٹیں اور دفتر ٹھیک کر دیں تو لوگوں کو بنیادی سہولتوں کے لیے دور نہیں جانا پڑے گا
اور اس کی وجہ سے پٹرول کا خرچ بھی کم ہو جائے گا‘ ٹریفک بھی کنٹرول ہو جائے گی اور فضائی آلودگی بھی قابو میں آ جائے گی‘ سپین سیاحت کی انڈسٹری سے پوری طرح واقف ہے لہٰذا اس نے پورے ملک کو سیاحتی مقام بنا دیا ہے‘ لوگ اسلامی ورثہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے قرطبہ‘ غرناطہ‘ سیویا‘ تولیدو‘ مرسیا اور مالگا موجود ہیں‘ دیواروں پر قرآنی آیات تک ہیں‘
مسلمان آئیں اور اپنا ورثہ دیکھیں‘ لوگوں کو گرم بیچز چاہییں تو پورے ملک میں دو سو سے زائد گرم ساحل موجود ہیں‘ علی کانتے میں ساحلی سیاحت کے تمام وسائل موجود ہیں‘ آپ کو ماڈرن لائف چاہیے تو ویلنشیا‘ میڈرڈ اور بارسلونا موجود ہیں اور یہ کسی بھی طرح پیرس‘ لندن اور نیویارک سے پیچھے نہیں ہیں‘ آپ کو جواء خانے‘ شراب خانے اور ڈانس فلور چاہییں تو یہ بھی سپین میں ہر جگہ موجود ہیں‘
آپ اگر ایڈونچر ٹورازم پسند کرتے ہیں تو ملک میں یہ سہولت بھی ہر جگہ دستیاب ہے‘ آپ بے شک جنگلوں میں نکل جائیں‘ سمندروں میں اتر جائیں یا پھر پہاڑوں میں چلے جائیں‘ آپ اگر قدیم طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں تو سپین کے جپسی اور ان کا فلیمنکو رقص پوری دنیا میں مشہور ہے‘
آپ غرناطہ جائیں اور غاروں میں فلیمنکو ڈانس دیکھیں اور سپین میں ٹماٹر فیسٹول اوربل فائیٹنگ بھی ہر سال لاکھوں سیاحوں کا انتظار کرتی ہے‘ آپ اس سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں گویا سپین نے سیاحت کے سارے رنگ ایک جگہ جمع کر دیے ہیں‘
ہمارے پاس بھی یہ سب کچھ موجود ہے ہم بس پاکستان میں شہری سہولتیں بڑھا دیں‘ ہم سیاحت کو انڈسٹری مان لیں اور اپنے ملک کو سیاحت کے لیے کھول دیں تو پاکستان بھی سپین بن سکتا ہے کیوں کہ ہم سماجی اور جغرافیائی دونوں سائیڈز سے سپین جیسے ہیں‘ ہمیں بس استحکام اور ڈائریکشن چاہیے۔
نوٹ: ہمارا سپین کا اگلا ٹور اگست میں جائے گا‘آپ20 جون تک اپنی رجسٹریشن درج ذیل نمبرز پر کروا سکتے ہیں۔
فون نمبرز: 0301-3334562, 0331-3334562, 0331-5637981