آپ ڈاکٹر نوشین کی کہانی سنیے۔ہم پانچ بہن بھائی تھے‘ میرا پانچواں نمبر تھا ‘والد صاحب کا ہول سیل کا کاروبار تھا‘ بڑے بھائی کاروبار میں ابو کا ہاتھ بٹاتے تھے ‘ ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی‘8اکتوبر 2005ء کو زمین نے کروٹ لی تو میں سکول میں تھی‘ پل بھر میں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں ‘
چیخ و پکار میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا‘ ہمارے سکول کی عمارت لڑکھڑا رہی تھی ‘ بچیاں ننگے پائوں اور ننگے سر کھلے آسمان تلے جمع ہو گئیں ‘ اللہ کا شکر تھا ہمارے سکول میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن بچیاں زخمی تھیں‘ ہر طرف گردو غبار تھا ‘ چیخ و پکار تھی اور ایک خوفناک گونج نے دماغوں کو مائوف کیا ہوا تھا‘ ہماری ٹیچرز نے بچوں کا حوصلہ بڑھایا اور سب کو گھروں کی طرف روانہ کیا‘ میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی‘گھر لوٹی تو نقشہ تبدیل تھا‘ امی اور دوسری دو بہنیں گھر پر تھیں‘ مجھ سے بڑا بھائی بھی سکول سے گھر لوٹ چکا تھا‘ ابو کا مظفر آباد شہر میں کاروبار تھا اور ہم گائوں میں تھے‘ گائوں میں درجنوں لوگ کچے مکانوں کے نیچے دبے ہوئے تھے ‘ ہمارا مکان ٹین کی چھت کا تھا‘ دیواریں گر چکی تھیں لیکن چھت کھڑی تھی ۔ ہمیں لوگو ں نے بتایا مظفر آباد مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے ‘ کوئی درست معلومات کا ذریعہ نہیں تھا ‘ ہم ابو اور بھائی کا انتظار کرتے رہے مگر وہ آئے اور نہ انہوں نے آنا تھا‘ ابو اور بھائی دونوں کی لاشیں ایک ہفتے بعد ملیں‘ہماری تو دنیا ہی لٹ گئی‘ کھلا آسمان تھا ہم تھے اور ہماری بے بسی تھی ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ اندازہ ہورہا تھا والد کے بغیر زندگی کیا ہے ؟ ابو کا خواب تھا میں ڈاکٹر بنوں لیکن ابو کے بعد یہ خواب بکھرتا محسوس ہوا ہمیں تو گھر میں راشن کے لالے پڑے ہوئے تھے‘ ایک دن امی نے کہا ہم شہر میں ماموں کے ہاں شفٹ ہوں گے ‘شہر میں ایک ادارہ ہے جس میں یتیم بچوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام ہے ۔ ہم شہر میں آئے سکول دیکھا تو پہلی بارریڈفائونڈیشن کا تعارف ہوا‘ فائونڈیشن نے ٹینٹ میں بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کر رکھا تھا‘ میں سکول میں داخل ہوگئی اور مجھے معلوم ہی نہ ہوا کہ ہمیں یونیفارم کون دے رہا ہے‘ راشن کہا ں سے آ رہا ہے اور یوں وقت گزرتا رہا ‘میں نے ایف ایس سی کرلیا ‘ انٹری ٹیسٹ پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخل ہوگئی ‘ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آج میں ڈاکٹر کی حیثیت سے جاب کررہی ہوںجب کہ میرا بھائی بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرون ملک جاب کررہا ہے‘میں آج بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اپنے خواب کی تکمیل میں ریڈ فائونڈیشن باپ کے روپ میں نظر آتی ہے‘ صرف ڈاکٹر نوشین کی کہانی نہیں ایسی ہزاروں کام یابی کی کہانیاں ریڈ فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں میں موجود ہیں۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا ‘ اسے اس دنیا سے نفع حاصل کرنے کے لیے برابر مواقع دئیے لیکن ساتھ کبھی کبھی انسانوں کی آزمائش بھی کرتا ہے ‘یہ آزمائشیں جہا ںان افراد کے لیے مشکلات لاتی ہیں وہاں ان سے بچ جانے والوں کے لیے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ آزمائش سے بچ جانے والے انسانی ہمدردی میں ‘ صدقے کے طور پر دوسرے انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایسے کئی افراد اور تنظیمیں اللہ کی رضا کے لیے جدو جہد کررہی ہیں‘ریڈ فائونڈیشن ایسا ہی ایک ادارہ ہے جو گزشتہ 27سالوں سے محروم طبقات کے لیے اپنے حصے کا کام کررہاہے‘ فائونڈیشن نے تعلیم کے میدان کا انتخاب کیا اور آنے والی نسلوں کو ایک تعلیم یافتہ اور خوش حال پاکستان دینے کے لیے جدو جہد شروع کی ‘ اخلاص نیت اور مسلسل محنت سے تعلیم کے میدان میں فائونڈیشن نے کمال کردیا‘
ایک لاکھ بچے فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر اپنے پائو ں پر کھڑے ہوئے اور اس وقت ایک لاکھ پندرہ ہزار بچے زیر تعلیم ہیں‘ میں گزشتہ چند سالوں سے فائونڈیشن کے ایک رضا کار کے طور پر اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہوں‘ ممکن ہے میری قلم سے نکلا ہوا کوئی لفظ یا جملہ کسی انسان کو خیر کی راہ پر لگا دے اور کل قیامت کے دن میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو سکوں۔
پاکستان میں اس وقت اڑھائی کروڑ بچے تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں‘ ان بچوں کے بھی ڈاکٹر نوشین کی طرح خواب ہیں‘ یہ بھی تعلیم حاصل کر نا چاہتے ہیں لیکن اس نظام نے ان کے لیے راستے تنگ کیے ہوئے ہیں‘میں صبح روزانہ ایسے بچوں کو کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے ‘کسی ورکشاپ میں گندے کپڑوں کے ساتھ ٹائر تبدیل کرتے اور کسی سگنل پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کل قیامت کے دن ان بچوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں کی طرف بڑھے تو ہمیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔
میں پاکستان کے خوش حال طبقے سے اپیل کرتا ہوں خدارا ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے‘ ان بچوں کی جگہ اگر ہمارے بچے ہوں تو ہمارے جذبات اور احساسات کی کیا کیفیت ہو گی ؟ یہ بچے ہمارے لیے امتحان بھی ہیں اور اللہ کی طرف سے ایک آزمائش بھی‘ان بچوں کو تعلیم و تربیت دیے اور ان کی مدد کیے بغیر ہماری نسلوں کا مستقبل کیسے محفوظ ہو گا ؟ ان بچوں کی آنکھو ں میں ادھورے خوابوں کی تکمیل ہم مل کر کرسکتے ہیں ممکن ہے ہم اڑھائی کروڑ بچوں کی مدد نہ کر سکیں لیکن کچھ درد تو کم کر سکتے ہیں ‘
چند خوابوں کو تعبیر تو دے سکتے ہیں ‘ کچھ خوابوں کوتو بکھرنے سے بچا سکتے ہیں ۔ رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے ‘ رمضان کامہینہ مسلمانوں کے لیے اللہ کا خاص تحفہ ہے‘گناہ گار مسلمان بھی اس مہینے میں اللہ کے قرب اور بخشش کے لیے کوشش کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس مہینے میں لوگوں کے دل نرم کر دیتا ہے ‘ ان کے ہاتھ کھول دیتا ہے‘ رسول اللہ ﷺ نے اس مہینے میں کی گئی نیکیوں کا اجر اللہ کی طرف سے کئی گنا بڑھا کر لوٹانے کی بشارت سنائی ہے ‘ آپ اس مہینے میں ایک روپیہ خرچ کریں گے
تو اللہ اس کا اجر 70گنا بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لوٹائے گا ‘ اللہ نے انسانوں پر خرچ کرنے کو اپنے ساتھ تجارت کہا ہے جس کا نفع اللہ دنیا اور آخرت میں کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے ۔ رمضان صدقہ ‘ خیرات اور زکوٰۃ کا مہینہ ہے‘ ہر تجارت کرنے والے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا زیادہ سے زیادہ منافع ہو‘ اس کا سرمایہ درست جگہ پر لگے‘ آپ تصور کریں آپ کی زکوٰۃاور صدقات سے کوئی یتیم و غریب تعلیم حاصل کرے گا‘
اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا‘ اپنے خاندان کی کفالت کرے گا یوں ایک نسل اپنے پائوں پر کھڑی ہو گی اور آپ زندہ رہیں یا نہ رہیں یہ عمل آپ کے لیے صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنے گا‘ جب تک آپ کے زیر کفیل بچے کی نسل چلتی رہے گی اللہ آپ کے لیے اپنے خزانے سے منافع دیتا رہے گا‘ آپ کی اولاد محفوظ رہے گی‘ مال میں برکت رہے گی اورمشکلات سے اللہ کی پناہ میں رہیںگے۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہو ں صدقہ آپ کے مال میں برکت عطا کرے گا اورآپ کی اولاد فرماںبردار ہو گی‘ صدقہ آپ کو پریشانیوں سے نجات دلائے گا اور آپ کی نیک حاجات پوری کرے گا ‘ شرط صرف یہ ہے کہ صدقہ آپ صرف اللہ کی رضا اور نیک نیتی سے کریں‘رمضان میں لوگ اپنے مال کو پاک کرنے کی غرض سے اللہ کے حکم کے مطابق زکوٰۃ دیتے ہیں‘ زکوٰۃ آپ کے مال کو پاک کر دیتی ہے
اور اسے بابرکت بنا دیتی ہے‘ آپ یقینا یہ چاہیں گے کہ آپ کی زکوٰۃ اور صدقات درست جگہ پر اور شریعت کے مطابق خرچ ہوں‘ اس زکوٰۃ سے انسانوں کا بھلا ہو اور اللہ کے ہاں قبول ہو‘ میں پور ے اعتماد سے آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنی زکوٰۃ وعطیات ریڈ فائونڈیشن کو دیں ‘ فائونڈیشن آپ کی زکوٰۃ و عطیات سے یتیم بچوں کی کفالت کرے گی اور آپ اللہ کے ہاں اجر پائیں گے۔
فائونڈیشن کے پاس اس وقت 12ہزار یتیم بچے ہیں جن کو مفت تعلیمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ‘ فائونڈیشن ان کے لیے کتابیں‘ کاپیاں ‘جوتے‘ یونیفارم اور سٹیشنری فراہم کر تی ہے ‘ فاؤنڈیشن ان بچوں کی کفالت پر سالانہ 36کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرتی ہے‘ زیادہ حق دار بچوں کے گھروں میں راشن بھی فراہم کر تی ہے ‘ آپ فائونڈیشن کے اکائونٹ میں اپنی زکوٰۃ جمع کرواکر یافائونڈیشن کے
ایڈریس پر چیک ارسال کر کے ان کے نمائندے سے رابطہ کریں ‘ فائونڈیشن آپ کو آپ کے عطیے کی رسید کے ساتھ یتیم بچوں کی مکمل تفصیل بھی ارسال کرے گی ‘ ہر سال آپ کو آپ کے زیر کفالت بچوں کی پراگریس رپورٹ بھی شیئر کرے گی۔
فائونڈیشن کے اکائونٹ نمبرز‘ رابطہ نمبرز اور ایڈریس درج ذیل ہیں۔