میاں شہباز شریف 13 فروری کو لاہور میں چودھری صاحبان کے گھر گئے‘یہ ملاقات سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے سرپرائز تھی‘پورا ملک جانتا تھا چودھری صاحبان شریف فیملی سے ناراض ہیں‘ میاں نواز شریف نے 1996ء میں وعدہ کیا تھا ہم اگر الیکشن جیت گئے تو چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیاگیا‘
چودھری صاحبان کا دل ٹوٹ گیا اور اس کا بدلہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں لیا‘ ق لیگ بنائی‘ مشرف کا ساتھ دیا اور پانچ سال ڈٹ کر پنجاب پر حکمرانی کی‘ دونوں خاندانوں کے درمیان شدید اختلافات اور دوریاں تھیں لیکن یہ اس کے باوجود ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے تھے‘ چودھری ظہور الٰہی کا خاندان وضع دار اور رکھ رکھائو کا مالک ہے بالخصوص تمام سیاست دان چودھری شجاعت حسین کی دل سے عزت کرتے ہیں‘ یہ انتہائی مثبت‘ درددل سے مالا مال اور عاجز انسان ہیں لہٰذا کوئی شخص ان پر انگلی نہیں اٹھاتا لیکن اس کے باوجود چودھری 2008ء کے بعد جزوی اور 2013ء کے بعد سیاسی لحاظ سے مکمل غیر متعلقہ ہو گئے‘ پارٹی چھوٹی سے چھوٹی ہوتی چلی گئی مگر چودھریوں کا سیاسی قد برقرار رہا‘ یہ سیاسی سمجھ بوجھ اور برے سے برے حالات میں بھی اپنا راستہ نکالنے والے لوگ ہیں چناں چہ 2018ء میں ان کا کم بیک ہوگیا‘ گو وفاق میں ان کی صرف چاراور پنجاب میں سات سیٹیں تھیں لیکن یہ کم تعداد کے باوجود وہ کیل تھے جس کے بغیر دو تختے آپس میں جڑ نہیں سکتے چناں چہ یہ پنجاب میں سپیکر شپ اوردووزارتیں اور وفاق میں دووزارتیں لینے میں کام یاب ہو گئے تاہم عمران خان ان سے خوش نہیں تھے‘ کیوں؟ چار بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ چودھریوں کا سیاسی قد کاٹھ ہے‘ چودھری تگڑے اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں‘ عمران خان ان سے خائف تھے‘ دوسری وجہ عمران خان ان کو کرپٹ سمجھتے تھے اور تیسری وجہ مونس الٰہی تھے‘ چودھری برادران مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنوانا چاہتے تھے جب کہ عمران خان ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا دونوں کے درمیان پونے چار سال لو ہیٹ ریلیشن شپ رہا‘چودھریوں کو جہانگیر ترین اور سحاق خاکوانی لے کر آئے تھے‘ یہ حالات کو کنٹرول کر لیتے تھے لیکن جب یہ بھی نہ رہے تو ناراضگیاں بڑھ گئیں اور چوتھی وجہ طارق بشیر چیمہ تھے‘ یہ ق لیگ کی طرف سے ہائوسنگ اینڈ ورکس کے وفاقی وزیر تھے‘ یہ دبنگ اور نڈر انسان ہیں‘ یہ کابینہ میں ہمیشہ بولتے تھے اور وزیراعظم کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ چودھری صاحبان نے متعدد مرتبہ وزیراعظم سے شکوہ کیا‘ کئی بار حکومت سے نکلنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن راستے میں مقام فیض آ جاتا تھا اور چودھری بے بس ہو جاتے تھے۔ یہ معاملات شاید جوں کے توں چلتے رہتے لیکن پھر ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا ایشو آیا‘ معاملات بگڑے اور ترازو آہستہ آہستہ نیوٹرل ہو گیا‘ نیا سال شروع ہوا تو ایک سویلین شخصیت لندن میں میاں نواز شریف سے ملی‘ ون آن ون ملاقات ہوئی اور میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو گرین سگنل دے دیا‘ مولانا آصف علی زرداری کو بھی واپس لے آئے یوں اپوزیشن نے تبدیلی کی شطرنج بچھا دی‘
اپوزیشن کے ہاتھ میں تین مہرے تھے‘ پی ٹی آئی کے 25 ارکان اپوزیشن سے رابطے میں تھے‘ 14 لوگ ن لیگ کے ٹکٹوں کے متمنی تھے‘ 8 پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں تھے اور تین مولانا فضل الرحمن سے ٹکٹ لینا چاہتے تھے‘ یہ لوگ مزید لوگ بھی لا سکتے تھے لیکن اپوزیشن کے پاس مزید ٹکٹ دستیاب نہیں تھے‘ دوسرا مہرہ اتحادی تھے اگر اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتے تو حکومت دو دن میں گر جاتی‘ اپوزیشن نے ان پر بھی کام شروع کر دیا
اور تیسرا مہرہ اتحادی پارٹیوں کی تقسیم تھی‘ اپوزیشن نے فیصلہ کیا اگر اتحادی نہیں مانتے تو پھر ان کے ارکان توڑ لیے جائیں‘ ق لیگ کے اندر بھی دراڑ ڈال دی جائے اور ایم کیو ایم‘ باپ پارٹی اور جی ڈی اے کے ارکان کو ساتھ ملا لیا جائے اور اس حکمت عملی کے تحت میاں شہباز شریف 13 فروری کو چودھری صاحبان کے گھر پہنچ گئے۔یہ ملاقات آصف علی زرداری کی سفارت کاری کا نتیجہ تھی‘
زرداری صاحب چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانا چاہتے تھے‘ میاں نواز شریف نہیں مان رہے تھے لیکن مولانا اور زرداری صاحب نے انہیں بڑی مشکل سے راضی کر لیا‘ بہرحال ملاقات ہوئی اور شہباز شریف نے انہیں کھانے کی دعوت دے دی لیکن اگلے چند دنوں میں دو نئی ڈویلپمنٹس ہو گئیں‘ مونس الٰہی نے 14 فروری کو وزیراعظم کے سامنے اعلان کر دیا ’’ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ تعلقات بناتے اور نبھاتے ہیں‘ کوئی گھر آئے تو اسے ویلکم کرتے ہیں‘ ہمارا آپ سے تعلق نبھانے کے لیے بنا ہے‘
آپ پی ٹی آئی والوں کو تگڑے طریقے سے کہہ دیں گھبرانا نہیں ہے‘‘ یہ اعلان اپوزیشن کے لیے سرپرائز تھا لہٰذا یہ لوگ ناراض ہو گئے اور پلان بی اور سی کی طرف بڑھنے لگے‘ چودھری پرویز الٰہی نے دوسری غلطی شہباز شریف کے ڈنر میں نہ جا کر کی اور یوں معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے‘ چودھری شجاعت کو ان دونوں غلطیوں کا احساس ہو گیا چناں چہ انہوں نے معاملات سنبھالنے کی کوشش کی‘ یہ 8 مارچ کو مولانا اور 9 مارچ کو آصف علی زرداری سے ملے‘زرداری صاحب نے جواب دیا
’’آپ نے پہلی ٹرین مس کر دی اگر دوسری میں گنجائش ہوئی تو آپ کو ایڈجسٹ کر لیا جائے گا‘‘ اپوزیشن نے اس دوران پی ٹی آئی کے 12 ارکان سندھ ہائوس میں میڈیا کے سامنے پیش کر دیے‘ چودھری مزید گھبرا گئے لہٰذا پرویز الٰہی نے اوپر تلے دو تین انٹرویوز دیے اور اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیا‘ چودھری دوبارہ ڈائیلاگ میں آ گئے‘ اس دوران حکومت نے منحرف ارکان سے رابطے شروع کر دیے جس سے اپوزیشن گھبرا گئی اور اس نے اتحادیوں سے رابطے تیز کر دیے‘
باپ پارٹی مان گئی‘ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات مان لیے گئے اور میاں نواز شریف نے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا چناں چہ 27 مارچ کی شام ن لیگ کا وفد چودھری صاحبان کے گھر گیا‘ مبارک باد پیش کی‘ کھانا کھایا اور آخر میں دعا بھی ہو گئی‘ چودھری صاحب نے ن لیگ کو مشورہ دیا یہ خبر جوں ہی عمران خان تک پہنچے گی یہ پنجاب اسمبلی تڑوا دیں گے لہٰذا آپ کل عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دیں‘ ن لیگ مان گئی‘
چودھری پرویز الٰہی رات بارہ بجے آصف علی زرداری کے گھر گئے‘ شکریہ ادا کیا اور ان سے گلے مل کر واپس آ گئے لیکن اگلی صبح حکومت کا وفد چودھریوں کے گھر آیا اور وزیراعظم کی طرف سے وزارت اعلیٰ کی پیش کر دی‘ مونس الٰہی نے یہ آفر قبول کر لی‘ ان کا خیال تھا اپوزیشن کی چیف منسٹری دو تین ماہ سے لمبی نہیں ہو گی جب کہ عمران خان انہیں ڈیڑھ سال پنجاب کا اقتدار دیں گے‘ ہمیں لمبا سودا کرنا چاہیے‘ اس دوران طارق بشیر چیمہ کی شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہارڈ ٹاک شروع ہو گئی‘
چیمہ صاحب نے کہا‘ میں عمران خان کو کسی صورت ووٹ نہیں دوں گا‘ آپ بے شک وزیراعظم کو بتا دیں‘ چودھری شجاعت حسین نے طارق بشیر چیمہ کی حمایت کی‘چیمہ صاحب کا کہنا تھا چودھری پرویز الٰہی وزیراعظم کے ساتھ مل کر بڑی سیاسی غلطی کریں گے‘ یہ بااعتماد شخص نہیں ہے‘ چودھری صاحب مونس الٰہی کے ساتھ وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور یوں چودھری پرویز الٰہی کی ایک غلطی نے ایم کیو ایم کی پوزیشن بھی مضبوط کر دی اور چودھری ظہور الٰہی کا گھرانہ بھی توڑ دیا۔
ہم اگر آج ٹھنڈے دل سے سوچیں تو پچھلے ایک ہفتے کے دوران چودھری پرویز الٰہی نے سب سے زیادہ سیاسی نقصان اٹھایا‘ یہ وزیراعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے‘ یہ اپوزیشن کے ساتھ ہوتے تو یہ اپریل کے دوسرے ہفتے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی بن جاتے اورانہیں اگلے الیکشن میں مزید سیٹیں بھی مل جاتیں لیکن بہرحال گئے وقت اور نکلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے‘ پرویز الٰہی کو ان کے صاحب زادے نے مروا دیا‘
دوسری طرف اس خبر سے سب سے زیادہ ن لیگ کو خوشی ہوئی‘ ان کے ارکان نے ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی اور یہ ایک دوسرے سے گلے بھی ملتے رہے جب کہ چودھری شجاعت حسین کو ان کے ساتھیوں نے زندگی میں کبھی اتنا پریشان اور اداس نہیں دیکھا تھا جتنا یہ 28 مارچ کی شام تھے‘ ق لیگ میں سے صرف طارق بشیر چیمہ کو سیاسی فائدہ ہوا‘
یہ ڈٹ گئے اور ڈنکے کی چوٹ پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا لہٰذا ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہو گیا‘ اپوزیشن کا خیال تھا چودھری شجاعت شام تک پرویز الٰہی سے الگ ہونے کا اعلان کر دیں گے لیکن چودھری صاحب کی وضع داری نے انہیں اپنے بھائی کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہ دی اور یوں چودھری ظہور الٰہی کا خاندان ٹوٹ بھی گیا اور ایک سیاسی غلطی نے چودھریوں کو بے وقار بھی کر دیا‘
آج لوگ کہہ رہے ہیں یہ اتنا بھی اندازہ نہیں کر سکے اداروں میں اگر عمران خان کے لیے تھوڑی بہت ہمدری تھی بھی تو وہ 27 مارچ کی شام غیرملکی خط لہرانے کے بعد مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی‘ ادارے اس خط کو ملک کے خلاف عمران خان کی سازش سمجھ رہے ہیں‘ چودھری پرویز الٰہی یہ اندازہ بھی نہ کر سکے یہ اس کشتی میں چھلانگ لگا رہے ہیں جس کا ساتھ چپو بھی چھوڑ چکے ہیں اور یہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکے جس حکومت کا ساتھ اس کا سپیکر تک چھوڑ گیا ہے میں اس کے لیے اذان سے تین منٹ پہلے روزہ توڑ رہا ہوں‘ کیا خوف ناک پولیٹیکل ٹریجڈی ہے!۔