اسلام آباد میں میرے ایک جاننے والے رہتے ہیں‘ تیس سال ناروے میں گزارے‘ ریٹائر ہوئے اور اسلام آباد میں بس گئے‘ اللہ تعالیٰ نے اچھا گھر دے دیا‘ دو گاڑیاں اور آٹھ ملازمین تھے‘ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی‘ جوانی میں جو کمایا وہ انویسٹ کر دیا‘ ناروے سے پنشن بھی آ جاتی تھی لہٰذا صبح شام دووقت واک کرتے تھے‘ شام کو بیگم صاحبہ کے ساتھ کلب میں بیٹھ جاتے تھے‘ کھانا کھاتے تھے‘
چائے پیتے تھے اور واپس آ کر سو جاتے تھے‘ یہ ان کی روٹین تھی لیکن پھر میں نے ان کے معمول میں تبدیلی دیکھی‘ ملازم آٹھ سے چار ہو گئے‘ گاڑی بھی ایک رہ گئی‘ کلب آنا جانا بھی بند ہو گیا اور دوست احباب سے ملاقاتوں میں بھی تعطل آنے لگا‘ میں نے چند دن قبل ان سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو یہ مسکرا کر بولے ’’جاوید صاحب میں افورڈ نہیں کر سکتا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’مہنگائی بہت زیادہ ہو چکی ہے‘میری پنشن اور کرائے اب میرے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہے لہٰذا میں نے سب سے پہلے گاڑی ایک کر لی‘ گاڑی ایک ہونے کی وجہ سے دوسرا ڈرائیور اضافی ہو گیا تھا‘ میں نے اس سے معذرت کر لی‘ کچن میں خانساماں کے ساتھ ایک ہیلپر تھا‘ میں نے اسے بھی فارغ کر دیا‘ گھر میں ایک ویٹر تھا‘ مجھے وہ بھی فالتو محسوس ہوا‘ ہمیں خانساماں کھانا دے دیتا ہے‘ بیگم نے اسے بھی نکال دیا‘ دو چوکی دار تھے‘ ان میں سے ایک رہ گیا‘ اب صرف صفائی والا لڑکا اور مالی بچا ہے‘ ہم ان کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں اور میں کل بیگم سے یہ بھی کہہ رہا تھا ہم اگر یہ گھر کرائے پر دے دیں اور خود فلیٹ میں شفٹ ہو جائیں تو ہم باقی چار ملازموں کی تنخواہوں سے بھی بچ جائیں گے اور ہمارا سیکورٹی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کا خرچ بھی کم ہو جائے گا‘‘۔
میں نے ہنس کر کہا ’’یہ تو بہت اچھا ہے‘ آپ سادگی کی طرف آ رہے ہیں اور سادہ طرز زندگی ہمیشہ مفید ہوتا ہے‘‘ وہ بھی ہنسے اور پھر سنجیدگی سے میری طرف دیکھ کر بولے ’’ماشاء اللہ آپ مجھے اس وقت عمران خان اور شوکت ترین محسوس ہو رہے ہیں اور میرا دل چاہ رہا ہے میں آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ چوم لوں‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ’’جناب میں امیر تھا تو میری امارت کا فائدہ صرف اور صرف غریبوں کو ہورہا تھا‘ میری وجہ سے آٹھ خاندان پل رہے تھے‘ ان کو کھانا بھی ملتا تھا‘ کپڑے بھی‘ گرم پانی بھی اور صاف ستھری رہائش بھی‘ ان کے والدین کو دوائیں اور بچوں کو تعلیم بھی مل رہی تھی لیکن جب میرے ٹیکس بڑھ گئے‘ میں معاشی دبائو کا شکار ہوگیا تو میں نے ملازمین کم کرنا شروع کر دیے یوں یہ لوگ اور ان کے خاندان گلیوں میں رل گئے‘ میں اور بیوی روزانہ کافی شاپس میں جاتے تھے‘
کلب میں کھانا کھاتے تھے‘ حکومت نے کلب کے ممبرز‘ ریستورانوں اور کافی شاپس پر بھی ٹیکس بڑھا دیے‘ ہم آئوٹ آف بجٹ ہوگئے اور ہم نے کافی شاپس‘ ریستوران اور کلبوں میں جانا بھی کم کر دیا‘ ان کی آمدنی کم ہوئی تو انہوں نے بھی ڈائون سائزنگ شروع کر دی‘ یہ اگر بیس لوگوں کو جاب دے رہے تھے تو اب ان میں سے آٹھ دس لوگ کم ہو جائیں گے‘ نقصان کس کو ہوا؟ غریب کو‘
حکومت اب سالمن فش‘ کتوں اور بلیوں کی خوراک اور ڈبوں میں بند خوراک پر بھی ٹیکس بڑھا رہی ہے‘ میں سالمن فش پانچ ہزار روپے کلو خرید رہا ہوں اور یہ انتہائی مہنگی ہے‘ میں مہینے میں تیس ہزار روپے کی فش کھاتا ہوں‘ حکومتی ترجمان روز مجھے اور میرے جیسے لوگوں کو طعنہ دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے سالمن فش اور ڈبوں میں بند خوراک بیچتے کون لوگ ہیں؟ مچھلی صاف کون کرتا ہے‘ کاٹ کر کون دیتا ہے‘ ڈبوں میں بند خوراک کی دکانوںپر کون کام کرتے ہیں؟ میں نے اگر گھر میں
جرمن شیفرڈ یا ہسکی رکھا ہوا ہے یا پرشین کیٹ پال رکھی ہے تو ان کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ اور پالتو جانوروں کے کلینکس میں کام کون کرتا ہے؟ میں اگر ان کی خوراک افورڈ نہیں کر سکوں گا تو میں کیا کروں گا؟ میں بلی‘ کتے اور طوطے نہیں پالوں گا تو اس کا نقصان کس کو ہو گایوں ’’پیٹس کیئر‘‘ کی ساری انڈسٹری بند ہو جائے گی‘ آپ یاد رکھیں غریب کا سہارا حکومت نہیں ہوتی
امیر لوگ ہوتے ہیں‘ دنیا کی کوئی حکومت دو چار دس کروڑ لوگوں کو نہیں پال سکتی‘ یہ معاشرے کے خوش حال لوگ ہوتے ہیں جو اپنے سرمائے سے پیسہ نکال کر پسے ہوئے محروم طبقوں پر خرچ کرتے ہیں‘ حکومت اس وقت پورے ملک کو ہیلتھ کارڈز دے رہی ہے‘ یہ دو کروڑ خاندانوں کو فوڈ سبسڈی بھی دے گی لیکن سوال یہ ہے حکومت کے پاس رقم کہاں سے آئے گی؟ کیا حکومت کے سونے کے پہاڑ ہیں یا ہماری زمینیں کھسک کر سعودی عرب چلی گئی ہیں لہٰذا پھر احساس پروگرام کے لیے رقم کہاں سے
آئے گی؟یہ رقم ہم امیروں کے ٹیکس سے آئے گی اور ہم اگر کام نہیں کریں گے‘ ہمارے پاس اگر رقم نہیں ہو گی تو ہم ٹیکس کہاں سے دیں گے؟ حکومت کے پاس پیسہ کہاں سے آئے گا اور یہ ہیلتھ کارڈ اور فوڈ سبسڈی کہاں سے دے گی؟ لہٰذا آپ تمام لوگ پاگل پن اور بے وقوفی کی انتہا کو چھو رہے ہیں‘ آپ ہمیشہ وہ شاخ کاٹ دیتے ہیں جس پر پورا معاشرہ بیٹھتا ہے‘‘۔میں نے ہنس کر کہا ’’آپ کے اندر ایک ظالم سرمایہ دار بول رہا ہے‘‘ وہ تڑپ کر بولے ’’معاشرے کو امیر لوگ چلاتے ہیں‘ امریکا میں 36 ہزار
ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں‘ ان کمپنیوں نے پورے امریکا‘ آدھے یورپ اور ایک چوتھائی تھرڈ ورلڈ کا بوجھ اٹھا رکھا ہے‘ آج اگر صرف ایپل کمپنی یا مائیکرو سافٹ بند ہو جائے تو امریکا میں گرینڈ ری سیشن آ جائے گا اور اس ری سیشن کا اثر چین تک جائے گا چناں چہ امریکی صدر کو اگر بل گیٹس یا ٹم کک کو بچانے کے لیے ایٹم بم بھی استعمال کرنا پڑا تو یہ ایک منٹ نہیں سوچے گا جب کہ ہم روز اٹھتے ہیں اور وزیراعظم سے لے کر چپڑاسی تک پورا ملک امیروں‘ صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو گالی
دینا شروع کر دیتا ہے‘ ہم نے ملک میںامیر سے امیر ترکو بھی گالی بنا دیا ہے جب کہ پوری دنیا ایڑی چوٹی کا زور لگا کر امیروں کو امیر تر بناتی ہے‘ امریکا میں اس وقت 724 بلینئرز ہیں‘ چین اشتراکی ملک ہے وہاں 698ہیں‘ روس 1990ء تک کمیونسٹ ہوتا تھا لیکن آج صرف تیس برسوں میں وہاں 117بلینئرز ہیں اور ہمسائے انڈیا میں 237بلینئرز بیٹھے ہیں اور یہ تمام چند برسوں میں امیر سے امیر تر ہوئے ہیں اور اگر امارت سے امارت تر بری تھی تو ان ملکوں نے ان کو کیوں نہیں روکا؟
کیوں کہ یہ جانتے ہیں یہ لوگ پوری دنیا کے محسن ہیں‘ ان کے پاس دولت آئے گی تو یہ مزید سرمایہ کاری کریں گے‘ سرمایہ کاری سے نوکریاں پیدا ہوں گی‘ نوکریوں سے مزید لوگ برسرروزگار ہوں گے اور روزگار سے معاشرے میں غربت بھی ختم ہو گی اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا لیکن ہم ہر بار اس امیر شخص کو گالی دے کر‘ اس پر ٹیکس بڑھا کر اس کا حوصلہ توڑ دیتے ہیں
جو ملک میں روزگار کا بندوبست کر رہا ہے‘ جو ملک کو کما کر دے رہا ہے‘‘ وہ رکے اور ہنس کر بولے ’’میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں آپ بتائیں اگر آپ کے پاس مزید پیسہ آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا اور جواب دیا ’’میں ملازمین کی تعداد بڑھائوں گا‘ گاڑیاں خریدوں گا‘ نیا گھر بنائوں گا اور جی بھر کر خرچ کروں گا‘‘ وہ ہنسے اور کہا ’’اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’حکومت اور غریبوں کو! حکومت کو مزید ٹیکس ملے گا اور غریبوں کو مزید روزگار‘‘ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے ’’یہ ہوئی ناں بات‘ معیشت اس طرح چلتی ہے‘ آپ اگر رقم خرچ نہ کریں تو بھی آپ اپنی دولت بینک میں رکھ دیں گے یا پراپرٹی میں لگا دیں گے اور یوں بھی یہ دولت سیکڑوں لوگوں کے چولہے جلائے گی‘ آپ سالمن مچھلی کو روک دیں گے تو لوگ اپنی عادت بدل دیں گے اور یوں مچھلی کاٹنے‘ مچھلی کو جہاز سے اتارنے‘ کرایہ وصول کرنے اور ٹیکس جمع کرنے والے
بے روزگار ہو جائیں گے‘ ملک میں کچھ لوگ مزید بے روزگار ہو جائیں گے‘ آپ کے ملک میں کے پی کے وزیراعلیٰ محمود خان 66 ہزار روپے‘ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری اور وزیر آبپاشی محسن لغاری ایک ‘ ایک ہزار روپے‘ وزیراعلیٰ پنجابعثمان بزدار دو ہزار روپے وزیرتوانائی حماد اظہر 29 ہزارروپے‘شہباز شریف 82 لاکھ روپے ‘آصف زرداری 22 لاکھ روپے‘
بلاول بھٹو زرداری 5 لاکھ روپے‘ شاہ محمود قریشی 8 لاکھ روپے اور فوادچودھری ایک لاکھ 36 ہزار روپے ٹیکس دیتے ہیں اور باقی 331 پارلیمنٹیرینز ٹیکس کے گوشوارے ہی جمع نہیں کراتے‘ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف آپ ملک چلانے والوں کو ذبح کر رہے ہیں‘آپ ٹیکس دینے اور روزگار فراہم کرنے والوں کو عبرت کی نشانی بنا رہے ہیں‘ آپ نے پوری زندگی خود چندہ جمع کیا
لیکن اب آپ چندہ دینے والوں کو عبرت کی نشانی بنا رہے ہیں‘ یہ ملک کیسے چلے گا؟‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ملک اس وقت چلتے ہیں جب لوگ امیر سے امیر تر ہوتے ہیں‘ جب لوگ ڈبوں میں بند خوراک بھی کھاتے ہیں‘ کتے اور بلیاں بھی پالتے ہیں اور روزانہ سالمن فش بھی لیتے ہیں لیکن ہماری فلاسفی کیا ہے؟ امیر کو گالی دیں‘ اس کا کاروبار بند کریںاور اس کی پرچیزنگ پاور ختم کر دیں تاکہ ہم غریبی میں نام پیدا کر سکیں‘ آپ اب بنا لیں ریاست مدینہ‘ ایک ایسی ریاست جس میں محتاج ہی محتاج ہوں لیکن غنی کوئی نہ ہو‘ جس میں سارے ہاتھ نیچے ہوں‘ اوپر والا ہاتھ کوئی نہ ہو‘‘ وہ خاموش ہو گئے لیکن میں انہیں حیرت سے دیکھتا رہا۔