لاہور میں 23 جون 2021ء کی صبح 11 بج کر8 منٹ پر جوہر ٹائون میں ایک خوف ناک کار بم دھماکا ہوا تھا‘ دھماکے میں تین افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوئے جب کہ 12 گاڑیاں اور7 عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں‘ بم کا اصل ہدف لشکر طیبہ کے لیڈر حافظ سعید تھے‘ یہ دھماکے سے چند گلیوں کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے‘ دہشت گرد گاڑی ان کے گھر تک لے جانا چاہتا تھا لیکن وہ پولیس ناکے کی
وجہ سے آگے نہ جا سکا اور یوں حافظ سعید اور ان کے اہل خانہ محفوظ رہے‘ لاہور کی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں یہ دھماکا نہیں روک سکیں یہ حقیقت افسوس ناک تھی لیکن پولیس‘ سی ٹی ڈی اور ہمارے خفیہ اداروں نے جس طرح 16 گھنٹے میں 10 ملزمان گرفتار کیے اور یہ جس طرح دوبئی اور بھارت میں موجود ماسٹر مائینڈ تک پہنچ گئے‘ یہ واقعی کمال تھا‘ میں 24 جون سے اس دھماکے پر کام کر رہا ہوں‘ میں نے مختلف ذرائع سے تھوڑی سی معلومات اکٹھی کی ہیں‘ میں وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ وہ نامعلوم ہیروز جنہوں نے ذمہ داروں کو گرفتار بھی کیا اور ملک کومزید دھماکوں سے بھی بچایا ہم اگر ان کا نام نہیں لے سکتے تو بھی ہم کم از کم انہیں شاباش دے دیں‘ان کے کام کی ستائش کر یں‘ ان بے نام ہیروز کو یقینا اس سے وہ خوشی ملے گی جسے یہ ڈیزرو کرتے ہیں۔ہم کہانی کی طرف آتے ہیں‘ جھنگ شہرکی خضر کالونی میں عیدگل خان نام کا ایک شخص رہتا تھا‘ یہ حاجی ذاکر خان کا بیٹا تھا‘ افغان نژاد تھا لیکن یہ پاکستان ہی میں پیدا ہوا اور یہیں پروان چڑھا‘ تین بھائی ہیں‘ تینوں روانی کے ساتھ پنجابی بول لیتے ہیں‘ عید گل کی شادی ننکانہ صاحب میں ہوئی‘ یہ تین سال قبل مزدوری کے سلسلے میں دوبئی گیا‘ اسے وہاں نوید نام کا ایک پاکستانی ملا‘ یہ را کے لیے کام کرتا تھا‘ نوید نے اس کے ساتھ دوستی لگائی اور آہستہ آہستہ اسے اپنے شیشے میں اتار لیا‘ اس پر مکمل اعتماد ہو گیا تو ان لوگوں نے اسے بم بنانے کا طریقہ سکھایا‘ اسے یوریا‘ چینی‘ بارود‘ بیٹری اور ٹائمر لگانے‘ بم میں بال بیرنگ بھرنے اور پھر تیار بم کو گاڑی میں نصب کرانے کا طریقہ سکھایا اور پاکستان بھجوا دیا‘ یہ اس کے بعد چار مرتبہ دوبئی گیا اور نوید سے ملا‘ را اس دوران اس کا جائزہ بھی لیتی رہی اور اس کی سنجیدگی کا مطالعہ بھی کرتی رہی‘ بہرحال قصہ مختصر 2021ء کے شروع میں اسے ٹاسک دے دیا گیا‘ عیدگل کے ساتھ دو کروڑ روپے میں سودا ہوا‘ ایک کروڑ روپے اسے دے دیے گئے جب کہ باقی رقم اسے کام کے بعد ملنی تھی‘ عیدگل کو گاڑی کراچی کے ایک ایجنٹ پیٹرپال نے دی‘ یہ 55 سال کا پاکستانی شہری ہے‘ یورپ میں رہتا تھا اور پاکستان آتا جاتا رہتا تھا‘ گاڑی سیاہ رنگ کی ٹویوٹا کرولا تھی‘ ماڈل 2010ء تھا اور یہ چوری ہو گئی تھی‘ پیٹر پال نے گاڑی ٹمپرڈ کرائی اور عیدگل کے حوالے کر دی‘ پیٹر پال خود بھی دھماکے کے دن لاہور میںتھا اور یہ کام مکمل ہونے کے بعد کراچی کی فلائیٹ میں سوار ہو گیا تھا لیکن خفیہ ادارے جہاز اڑنے سے پہلے اس تک پہنچ گئے اور اسے آف لوڈ کر کے گرفتار کر لیا‘ عیدگل نے جون کے دوسرے ہفتے مارکیٹ سے بم بنانے کا سامان خریدا‘ بم بنایا اور سوات کے ایک موٹر مکینک کو 20 لاکھ روپے دے کراسے ڈکی میں فٹ کرا لیا‘ مکینک نے ڈکی کا لاک بھی فکس کر دیا تاکہ جب ڈکی کھولنے کی کوشش کی جائے تو ایسا محسوس ہو لاک پھنس گیا اور یوں گاڑی کی تلاشی نہ ہو سکے‘ دوسری طرف جوہر ٹائون میں حافظ سعید کے گھر کے قریب را کا ایک
ایجنٹ اڑھائی برسوں سے رہ رہا تھا‘ اس نے کرائے پرمکان لے رکھا تھا‘ وہ پورے علاقے کی ریکی بھی کر چکا تھا اور اس نے حافظ سعید کی لوکیشن بھی انڈیا بھجوا دی تھی‘ دوبئی والے نوید نے عیدگل کا اس شخص کے ساتھ رابطہ کرا دیا‘پلان تیار تھا بس دھماکا باقی تھا۔عیدگل گاڑی لے کر 23 جون کی صبح لاہور پہنچا‘ بابوصابو انٹرچینج پر آیا تو وہاں اینٹی کار لفٹنگ فورس نے ناکہ لگایا ہوا تھا‘ کانسٹیبل نے عیدگل اور اس کی گاڑی ایل ای بی 9928 بھی روک لی اور اسے ڈکی کھولنے کا کہا‘
عیدگل نے ڈکی کا لیور دبا یا‘ کانسٹیبل نے ڈکی کھولی لیکن اس کا لاک فکس تھا‘ عیدگل اس دوران کانسٹیبل کے پاس آیا‘ اس کی مٹھی میں ہزار روپے دبائے اور اس سے کہا‘ مجھے دیر ہو رہی ہے تم یہ رکھو اور مجھے جانے دو‘ کانسٹیبل نے ہزار روپے واپس کر کے کہا ’’میں پانچ ہزار روپے لوںگا‘‘ عیدگل نے اسے پانچ ہزار روپے دے دیے اور کانسٹیبل نے اسے گاڑی لے جانے کی اجازت دے دی‘ میں اس کانسٹیبل کو اس واقعے کا اصل ذمہ دار سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیوں کہ اس شخص نے ایک لمحے کے لیے
بھی یہ نہیں سوچا تھا یہ شخص مجھے معمولی سے کام کے پانچ ہزار روپے کیوں دے رہا ہے؟لہٰذا اس کانسٹیبل کی مکروہ حرکت کی وجہ سے لوگوں کی جان بھی گئی اور پاکستان کو 25 جون کو ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ انڈیا نے یہ دھماکا پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے کرایا تھا ‘یہ چاہتاتھا میٹنگ کے دن عالمی میڈیا میں حافظ سعید کا نام آئے اور پاکستان سرمایہ کاری کی وائیٹ لسٹ میں نہ جا سکے اور اس کانسٹیبل نے صرف پانچ ہزار روپے کے لیے ملک کی
عزت اور لوگوں کی جانیں دونوں کو دائو پر لگا دیا‘ بہرحال عیدگل لاہور میں داخل ہوا‘ جوہر ٹائون گیا‘ ڈی ایس ایس پبلک سکول کے قریب پہنچا اور اس کے ضمیر نے اسے ملامت کرنا شروع کر دیا‘ اس نے سوچا میں اگر مزید آگے چلا گیا تو زیادہ لوگ مر جائیں گے چناں چہ اس نے فیصل بینک کی گلی میں گاڑی روکی اور باہر کھڑا ہو گیا‘ صبح دس بج کر 45 منٹ پر محمد انور اور محمد شعیب وہاں آئے (یہ عیدگل کے خلاف گواہ ہیں لہٰذا دونوں کے نام فرضی ہیں) عیدگل نے ان کو بتایا‘ میری گاڑی خراب ہو گئی ہے‘
میں مکینک لینے جا رہا ہوں‘آپ گاڑی کا خیال رکھیے گا‘ محمد انور نے انسانی ہمدردی میں عیدگل کو سکول کے کولر سے پانی بھی لا کر دیا‘ اس نے پانی پیا‘ گاڑی وہاں چھوڑی اور غائب ہو گیا‘ 11 بج کر آٹھ منٹ پر دھماکا ہوا اور گاڑی کے پرخچے اڑ گئے‘ تین لوگ جاں بحق ہو گئے‘ ان میں پولیس کے دو اہلکار بھی شامل تھے‘ 20 لوگ زخمی ہوئے اور گلی اور گھروں میں کھڑی 12 گاڑیاں تباہ ہو گئیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ کے شکر کے بعد عید گل کے ضمیر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘ یہ اگر گاڑی آگے لے جاتا ‘
ہجوم میں کھڑی کر دیتا تو کم از کم چالیس پچاس لوگ مارے جاتے‘ پولیس کا دعویٰ ہے عیدگل پولیس پکٹ کی وجہ سے آگے نہیں جا سکا جب کہ عید گل نے جیل میں قیدیوں کو بتایا میرا ٹاسک صرف جوہر ٹائون میں دھماکا تھا‘ میں نے اس کے پیسے لینے تھے‘ میں نے سوچا میں یہاں گاڑی کھڑی کر دیتا ہوں‘ اس سے جانوں کا نقصان بھی کم ہو گا اور مجھے پیسے بھی مل جائیں گے‘ اس نے پولیس کے سامنے یہ اعتراف بھی کیا ’’میری بیوی بھی اس واردات میں شامل تھی‘ ہم دونوں نے مل کر یہ کام کیا تھا‘
بہرحال دھماکا ہوا‘ پولیس‘ سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں نے علاقے کی جیو فینسنگ کی‘ پیٹرپال جہاز سے گرفتار ہو گیا‘ عیدگل راولپنڈی سے پکڑا گیا‘ نوید دوبئی میں تھا لیکن اس کا خاندان پاکستان میں تھا‘ اس کا والد اور بھائی بھی گرفتار ہو گئے‘ عیدگل کی بیوی بھی گرفتار ہو گئی‘ پولیس گاڑی ٹمپرڈ کرنے اور ڈکی میں بم لگانے والے تک بھی پہنچ گئی اور خفیہ اداروں نے بھارت میں موجود ماسٹر مائینڈ کو بھی ٹریس کر لیایوں راکا پورا نیٹ ورک 16 گھنٹوں میں پکڑا گیا‘ یہ ہمارے اداروں کا واقعی کمال تھا
اور ہم اس کمال پر ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں‘ جتنی بھی تالیاں بجائیں یہ کم ہو گا لیکن وہ پولیس اہلکار جس نے بابو صابو انٹرچینج پر پانچ ہزار روپے کے عوض گاڑی کو لاہور میں داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی وہ قابل مذمت بھی ہے اور اس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے‘ عیدگل نے دو جولائی کو شناخت پریڈ کے دوران بھی اس شخص کی نشان دہی کی تھی لیکن پولیس نے ابھی تک اس کانسٹیبل سے تفتیش نہیں کی‘ اس کو ابھی تک بلا کر یہ نہیں پوچھا گیا ’’ہم تمہیں رشوت خوری پر معاف کر دیتے ہیں
لیکن یہ بتائو جب تمہیں ایک عام سی گاڑی کا معمولی سا ڈرائیور صرف ناکے سے گزرنے کے لیے پانچ ہزار روپے دے رہا ہے تو کیا تمہارے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا یہ شخص خطرناک ہو سکتا ہے یا یہ پورے شہر کو اڑا سکتا ہے‘‘ یہ پولیس کانسٹیبل اگر اس سوال کے جواب میں ہاں کہہ دے تو پھر پورے ملک کو الرٹ ہو جانا چاہیے کیوں کہ ہم سب کی حفاظت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ضمیر کی آواز کے باوجود پانچ ہزار کے عوض پورے شہر کو دہشت گردوں کے
حوالے کر دیتے ہیں اور اگر یہ ناں کہہ دے تو پھر پوری قوم کو پولیس فورس کی ذہانت پر ماتم کرنا چاہیے‘ ہم پھر ان خطرناک لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو پانچ ہزار روپے لینے کے باوجود یہ نہیں سوچ سکتے مجھے معمولی سا ڈرائیور صرف گاڑی گزارنے کے عوض اتنی رقم کیوں دے رہا ہے؟ہمارے ملک میں سیکورٹی اور پولیس کا نظام کتنا خطرناک اور ڈھیلا ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک واقعے سے لگا لیجیے‘ میں بار بار عرض کر رہاہوں ہم اگر واقعی اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ملک یا پھر اس کے سارے سسٹم دوبارہ بنانا پڑیں گے‘ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا یہ ملک ان حالات کے ساتھ نہیں چل سکتا ہم خواہ کچھ بھی کر لیں۔