جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

ہوش کریں

datetime 10  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آپ 1939ءکی دنیا کو دیکھیں‘ برطانیہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا‘ بادشاہ کا سورج حقیقتاً غروب نہیں ہوتا تھا‘برمودا میں مغرب کا وقت ہوتا تھا تو نیوزی لینڈ میں سورج نکل آتا تھا‘ کلکتہ اندھیرے میں ڈوبتا تھا تو ساﺅتھ افریقہ روشن ہو جاتا تھا‘ فجی کے جزیروں کی روشنی مدہم پڑتی تھی توجبرالٹر میں سورج اگ آتا تھا چناں چہ دنیا میں اس وقت صرف ایک ہی طاقت‘ ایک ہی ملک تھا جس کی سورج پر بھی حکمرانی تھی اور وہ تھا برطانیہ‘ بادشاہ کی آنکھ کھلتی تھی تو اس کی سلطنت پر کہیں روشنی کاشت ہو رہی ہوتی تھی اور یہ سرہانے پر سر رکھتا تھا تو دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں سورج اس کی حکمرانی کی چوکی داری شروع کر رہا ہوتا تھا لیکن پھر صرف چھ سال بعد برطانیہ کا سورج ڈوب گیا۔

دنیا کے 64 ملک برطانیہ کے ہاتھ سے پھسل گئے اور ملکہ سمٹ کر انگلینڈ تک محدود ہو کررہ گئی اور اس کا حکم محل کے سامنے موجود فوارے پر بھی نہیں چلتا‘ برطانیہ کے عروج اور اِس زوال کی وجہ تنازعے اور جنگ تھی‘ برطانیہ طاقت کے زعم میں اپنی تمام کالونیوں کے تنازعوں میں الجھ گیا تھا اور اس نے آخر میں عالمی جنگ چھیڑ دی تھی‘ یہ جرمنی پر پل پڑا تھا‘ جرمنی برطانیہ کے مقابلے میں چیونٹی تھا‘ ہاتھی چیونٹی سے لڑ پڑا‘ چیونٹی کا کچھ نہیں گیا لیکن ہاتھی کا بیڑا غرق ہو گیا‘ دوسری جنگ عظیم کے آخر میں کرہ ارض پر پانچ کروڑ لاشیں اور زخمی پڑے تھے اور آدھی دنیا ملبے کا ڈھیر تھی‘ یہ جنگ جاپان اور جرمنی ہار گئے لیکن برطانیہ بھی اس کے بعد برطانیہ نہیں رہا‘ بادشاہ کا راج سمٹا اور ہر ملک میں اپنا اپنا سورج طلوع ہونے لگا یہاں تک کہ آج انگلینڈ میں بھی آدھا سال سورج نہیں نکلتا اور لوگ دوپہر کے وقت بھی راستہ ٹٹول ٹٹول کر گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے ہیں‘ تنازعے اور جنگیں یہ ہوتی ہیں‘ یہ برطانیہ جیسی طاقتوں کو بھی نگل جاتی ہیں‘ آپ اب ایک دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔پاکستان دو تھے‘ ایک پاکستان 1971ءتک تھا اور دوسرا 1972ءمیں پیدا ہوا تھا‘ ہم 1971ءتک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھے‘ ہم اس وقت تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی شامل تھے۔

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں تھا‘ پاکستان کا ریلوے دنیا کے بہترین ریلویز میں شامل تھا‘ہمارے واپڈا کو ورلڈ بینک ریاست کی گارنٹی کے بغیر قرض دے دیتا تھا‘ منگلا ڈیم کے لےے انٹرنیشنل بڈ ہوئی تھی اور دنیا کی تین بڑی کمپنیوں نے کنسورشیم بنا کر یہ بڈ جیتی تھی‘ ہارورڈ یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے طالب علموں کا پورا پورا بیچ منگلا آ کر ہمارے آبی منصوبوں پر تحقیق کرتا تھا‘ ہماری پی آئی اے دنیا بھر کی ائیر لائینز کو ٹریننگ دیتی تھی‘ عرب ملک اپنے طالب علموں کو پڑھنے کے لیے پاکستان بھجواتے تھے۔

ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غیر ملکی طالب علموں کے لیے کوٹہ بھی ہوتا تھا اور ان کے لیے الگ ہاسٹل بھی‘ پاکستان دنیا کی بڑی سیاحتی منزلوں میں بھی شامل تھا‘ ہم دوسری اور تیسری دنیا کے فوجیوں کو ٹریننگ بھی دیتے تھے اور کوریا‘ ملائیشیا‘ تھائی لینڈ اور مشرقی یورپ کے ملک ہمارے معاشی منصوبوں کی کاپی بھی کرتے تھے‘ ہماری ایکسپورٹس بھی امپورٹس سے زیادہ تھیں اور ہمارے قرضے بھی نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا ہم اس وقت بھارت کو بھی آنکھیں دکھا لیتے تھے اور اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں بھی دھڑلے سے بات کر تے تھے۔

پاکستان کے اندر بھی صورت حال مختلف تھی‘ بنگالی ہم سے زیادہ پڑھے لکھے‘ سمجھ دار‘ مہذب اور عاجز تھے‘ یہ اڑتے ہوئے بھی اپنے قدم زمین سے چپکائے رکھتے تھے‘ یہ پارلیمنٹ میں بھی زیادہ تھے اور بیورو کریسی اور بزنس میں بھی‘ ہمارے زرمبادلہ کا 60 فیصد حصہ مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے آتا تھا‘ ہماری پولیس اور بیورو کریسی کے ٹرینرز بنگالی تھے اور ہمارے زیادہ تر ٹریننگ سنٹرز بھی آج کے بنگلہ دیش میں تھے چناں چہ 1971ءکا پاکستان مضبوط‘ ترقی پذیر اور عالم اسلام کی امامت کرتا ہوا پاکستان تھا لیکن پھر ہم پنجابی سورماﺅں کی وجہ سے 60 فیصد پاکستان ہم سے الگ ہو گیا اور یہ جاتے جاتے ہماری امامت‘ ترقی اور مضبوطی ساتھ لے گیا۔

وہ پاکستان1971ءمیں چھوٹا ہو گیا لیکن ہماری 25 سال کی کریڈیبلٹی بھی موجود تھی‘ ہم نے اگلے 25 سال اس کریڈیبلٹی پر گزار لیے‘ ہمیں اس دوران افغان وار کے ذریعے امداد اور اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن پاکستان پر کیوں کہ پنجابی اشرافیہ قابض ہو چکی تھی اور ہم پنجابیوں میں ادارے بنانے اور چلانے کی صلاحیت کم ہوتی ہے لہٰذا ہم نے اگلے 25 برسوں میں ہر ادارے کو تباہ کر کے رکھ دیا‘ دنیا کی دوسری بڑی سٹیل مل ہو‘ پی آئی اے جیسا ادارہ ہو‘ وہ واپڈا ہوجو کبھی ملک کی ”ساورن گارنٹی“ ہوتا تھا۔

ریلوے ہو‘ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہو‘ ڈیم ہوں یا پھر تعلیمی ادارے ہوں ہم نے تمام اداروں کا جنازہ نکال دیا‘ فوج1977ءکے مارشل لاءاور افغان وار کی وجہ سے دوسرے تمام اداروں سے مضبوط ہو گئی اور اسے یہ مضبوطی برقرار رکھنے کے لیے اب اپنی مرضی کے سیاست دان درکار تھے لہٰذا یہ نئی سیاسی قیادت کے نام پر کم زور‘ نالائق‘ ان پڑھ اور کرپٹ لوگوں کو سیاست میں لے آئی اوریہ نئی سیاسی قیادت بعد ازاں اپنے اقتدار کے دوام کے لیے اپنی مرضی کے سلیکٹرز لانے لگی اور یہ دونوں مل کر عدلیہ کو سلیکٹ کرنے لگے۔

عدلیہ نے اپنی سپورٹ کے لیے مرضی کی بارز بنانا شروع کر دیں اور وکلاءکے دھڑے بزنس مینوں‘ سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی پشت پناہی کرنے لگے اور یوں ملک میں دھونس‘ دھاندلی اور خریدوفروخت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ اس ساری کنفیوژن اور قیاس کے دوران دو نئے پاور سنٹرز نے بھی جنم لے لیا‘ پہلی طاقت مذہبی تنظیمیں تھیں اور دوسرا میڈیا تھا‘ یہ بھی میدان میں کود پڑے اور رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی‘ اس سارے کھیل کے دوران دوبنیادی ادارے قتل ہو گئے۔

پہلا ادارہ بیورو کریسی تھی‘ یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی‘ آپ آج محکمہ صحت سے لے کر ٹیکس کولیکشن تک سارے سرکاری ادارے دیکھ لیں آپ کو ایک بھی ادارہ کام کرتا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا فوج‘ پارلیمنٹ اور بیورو کریسی کے کسی رکن کا کوئی بچہ سرکاری سکول میں پڑھ رہا ہے‘ کیا یہ لوگ ٹونٹی کا پانی پی رہے ہیں‘ سرکاری ہسپتال میں علاج کرا رہے ہیں‘ سرکاری وکیل کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں‘ کیا یہ رائفل بردار گارڈ کے بغیر رات کے وقت اپنے سرکاری گھر میں سو سکتے ہیں اور کیا یہ سرکاری ادویات کھا رہے ہیں؟ جی نہیں!۔

کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہمارا سارا سرکاری اور ریاستی نظام دم توڑ چکا ہے‘ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کی گندم بھی نہیں اگا پا رہے‘ ہم سے چینی‘ پٹرول اور ادویات بھی کنٹرول نہیں ہو ر ہیں اور ہم کورونا کے ایس او پیز پر بھی عمل درآمد کے قابل نہیں ہیں‘ ریاست کی حالت یہ ہے یہ فیض آباد کا دھرنا ختم کرانے کے لیے بھی مظاہرین کی تمام شرائط ماننے کے لیے تیار ہوجاتی ہے اور ان شرائط میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا بھی شامل ہوتا ہے گویا ہم ایک ایسا ملک بن چکے ہیں جس میں سفارت کاری کے فیصلے بھی دھرنوں کے ذریعے ہو رہے ہیں۔

آپ آج عدالتوں میں چلے جائیں‘ مقدموں کا انبار ہے اور ججز موجود نہیں ہیں‘ ہسپتالوں کا دورہ کر لیں‘ سڑک سے آپریشن تھیٹر تک مریض ہی مریض ہیں‘ تعلیمی ادارے ڈگریوں کے پرنٹنگ پریس بن چکے ہیں‘ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس میں بھی صاف پانی اور خالص دودھ نہیں ملتا‘ پاکستان ہیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے‘ 52 فیصد آبادی بلڈ پریشر کی مریض ہے‘ ہم شوگر میں چوتھے نمبراور ٹی بی میں دنیا میں پانچویں نمبر پر آتے ہیں‘ دنیا میں صرف دو ملکوں میں پولیو موجود ہے اور ہم دوسرا ملک ہیں۔

ملک میں مذہبی منافرت انتہا کو چھو رہی ہے‘ کوئی کسی کو بھی کسی بھی وقت کافرکہہ کر واجب القتل قرار دے دیتا ہے اور ریاست پتلی گلی سے نکل جاتی ہے‘ لوگ عدالتوں میں قتل ہو جاتے ہیں اور جج اور وکلاءزمین پر لیٹ کر جان بچاتے ہیں اور اس کے بعد ریاست میں قاتل کو قاتل کہنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی‘ ہماری پوری اکانومی قرضوں کی مرہون منت ہے‘ آج چین‘ سعودی عرب اور امریکا ہاتھ کھینچ لے‘ ہمیں آج ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں ڈال دے تو ہم کل ڈیفالٹ کر جائیں گے لیکن 1971ءکا پاکستان اس سے بالکل مختلف تھا‘ صدر بھی ٹونٹی کا پانی پیتا تھا اور اس کے بچے بھی سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے۔

یہ حقائق خوف ناک ہیں لیکن ان حقائق سے بھی زیادہ خوف ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم ان حقائق کو حقیقت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں دنیا بدل بھی چکی ہے اور یہ ہم سے بہت آگے بھی جا چکی ہے‘ ہم یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں ہمارے سارے مسئلے ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں‘ ہم نے دنیا میں اپنا کوئی ایک دوست نہیں چھوڑا‘ روس سے لے کر امریکا تک ہم نے سب کے ساتھ سینگ پھنسا رکھے ہیں‘ ہم اندر بھی لڑ رہے ہیں اور باہر بھی‘ ہم چڑیا گھر کا ایک ہاتھی نہیں پال سکتے لیکن ہم دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔

ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ہم دنیا میں غیرمتعلقہ ہو چکے ہیں‘ آج سعودی عرب نے تاریخ میں پہلی بار بھارت کے آرمی چیف کو سرکاری دورے پر بلا لیا اور امریکا اور او آئی سی نے کشمیر پر بھارت کاموقف مان لیا‘ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں بنگلا دیش ہم سے آگے نکل چکا ہے اور ہم یہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ہمیں ہمارے تنازعے کینسر کی طرح کھا رہے ہیں‘ خدا کے لیے آنکھیں کھولیں‘ پنجابی ازم سے باہر آئیں اور تنازعے اور جنگیں ختم کریں کیوں کہ یہ دونوں وہ چیزیں ہیں جنہوں نے برطانیہ جیسی طاقت کا سورج بھی گل کردیا تھا‘ہم کس کھیت کی مولی ‘ کہاں کے سورما ہیں لہٰذا ہوش کریں اور آنکھیں کھولیں ۔



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…