ہم تیسرے دروازے سے اندر داخل ہوئے‘ درویش اس کو باب گستاخاں کہتے تھے‘ مولانا کے کمپاﺅنڈ سے نکلنے کے تین اور داخلے کا ایک دروازہ تھا‘ باب عام داخلے کا دروازہ تھا‘ کوئی بھی شخص اس دروازے سے مولانا تک پہنچ سکتا تھا‘شاہ شمس تبریز بھی اسی باب عام سے اندر آئے تھے‘ مولانا صحن میں تالاب کے کنارے بیٹھ کر اپنی کتابوں کا معائنہ کر رہے تھے‘ شمس تبریز نے پوچھا ”یہ کیا ہے؟“ جواب دیا‘ یہ میری زندگی کا کل اثاثہ ہے‘ میں نے جو پڑھا‘ سیکھا اور جو محسوس کیا ان میں لکھ دیا“۔
شمس تبریز نے وہ ساری کتابیں تالاب میں پھینک دیں‘ شاہ شمس تبریز نے کتابیں تالاب میں پھینکنے کے بعد پوچھا ”آپ کے پاس اب کیا بچا؟“ مولانا روم نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ”میرے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا‘ تم نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی“ شمس تبریز مسکرائے‘ تالاب میں ہاتھ ڈالا‘ ایک کتاب نکالی‘ جھاڑی اور مولانا کے ہاتھ میں دے دی‘ مولانا نے کتاب کھول کر دیکھی‘ وہ خشک اور اصل حالت میں تھی‘ وہ حیرت سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگے‘ بغداد کا درویش اس کے بعد تالاب میں ہاتھ ڈالتا رہا‘ کتابیں نکالتا رہا اور جھاڑ کر مولانا روم کو پکڑاتا رہا‘ مولانا نے آخر میں نوجوان درویش سے پوچھا ”تم کون ہو اور تم نے یہ فن کہاں سے سیکھا؟“ نوجوان نے اپنی شہادت کی انگلی دل پر رکھی اور ہنس کر جواب دیا ”میں مسافر ہوں اور میں نے یہ فن دل سے سیکھا“۔ تالاب کی جگہ اب وضو خانہ بن چکا ہے‘ زائرین آتے ہیں‘ وضو کرتے ہیں اور مولانا روم کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اندر داخل ہو جاتے ہیں‘ ہم تیسرے دروازے باب گستاخاں کے ذریعے اندر داخل ہوئے‘ باب گستاخاں ان طالب علموں کے لیے تھا جو مولانا روم کے شاگرد بنتے تھے‘ سلوک سیکھنے کی کوشش کرتے تھے‘ ناکام ہو جاتے تو چپ چاپ باب گستاخاں سے باہر نکل جاتے تھے‘یہ ناکامی اور بھگوڑوں کا دروازہ تھا‘ یہ مولانا کے دور میں اندر سے باہر کی طرف کھلتا تھا۔
کوئی شخص باہر سے اس کے ذریعے اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا‘ باب خاموشاں اس سے چند گز کے فاصلے پر تھا‘ مولانا کا جو بھی شاگرد انتقال کر جاتا تھا‘اس کی میت چپ چاپ اس دروازے سے باہر نکال دی جاتی تھی‘ باب خاموشاں بند تھا‘ ہم نے اس کو ہاتھ لگایا اور باب چلبیان کی طرف چل پڑے‘ یہ کام یابی کا دروازہ تھا‘ مولانا روم کے شاگرد درویش بننے کے بعد کام یاب ہو کر اس دروازے سے باہر نکلتے تھے اور ہم سب اس دروازے سے باہر آ گئے۔
مولانا روم کا بلخ کے ساتھ تعلق تھا‘ والدمحمد بن حسین الخطیبی عالم دین تھے‘منگولوں نے پورا سنٹرل ایشیااپنے گھوڑوں کے سموںتلے کچل دیا‘ مولانا کا خاندان پریشان تھا ‘ سلجوق بادشاہ علاﺅ الدین نے قونیہ کی دعوت دی‘ یہ قونیہ پہنچ گئے‘ محل کے ساتھ گلاب کا بہت بڑا باغ تھا‘ حد نظر گلاب ہی گلاب تھے‘ بادشاہ نے گلابوں کے درمیان مولانا کے خاندان کو گھر بنا دیا‘ مولانا روم نے گلاب کے ان کھیتوں میں پرورش پائی‘ والد کا انتقال ہوا تو درس گاہ ان کے حصے آ گئی۔
آپ نے مولویہ کے نام سے اپنا سلسلہ شروع کیا‘ درویشوں کو خاص لباس پہنایا‘ آلات موسیقی ایجاد کرائے اور سماع کی بنیاد رکھی‘ مولانا کے درویش گردشی رقص کے ایکسپرٹ تھے‘ یہ ایک ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتے تھے‘ دوسرا زمین کی طرف اوندھا کر دیتے تھے اور پھر موسیقی کی لے پر دائرے میں گھومتے تھے‘ یہ رقص تصوف میں رقص درویش کہلاتا ہے اور یہ سلسلہ مولویہ کی خاص پہچان ہے‘رقص کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے‘ مولانا روم کا انتقال 17 دسمبر1273ءکو ہوا تھا‘ آپ نے انتقال سے قبل اس دن کو شب عروس کا نام دیا تھا‘ یہ موت کو وصال کہتے تھے۔
ان کا فرمانا تھا انسان مرنے کے بعد ابدی طاقت کا حصہ بن جاتا ہے چناں چہ موت خاتمے نہیں بلکہ آغاز کا نام ہے‘ انسان موت کے دن کائنات کی عظیم طاقت سے ملتا ہے چناں چہ یہ موت کی رات کو سہاگ کی رات کہتے تھے‘ مولانا کا شب عروس آج بھی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے‘ 17 دسمبر کو پوری دنیا سے مولانا کے چاہنے والے اکٹھے ہوتے ہیں‘ ہزاروں درویش سٹیڈیم میں رقص کرتے ہیں اور پوری دنیا یہ رقص دیکھتی ہے‘ ہم اس سال ”شب عروس“ کا ٹور بھی بنا رہے ہیں‘ ہم عاشقان رومی ان شاءاللہ 17 دسمبر کو قونیہ میں مولانا کی محفل سماع میں شریک ہوں گے۔
ہم 55 ہم خیال 17 اکتوبر کو قونیہ پہنچے اور مولانا روم کے مزار پر حاضری دی‘ مولانا کا مزار ایک طویل عمارت ہے‘ اس میں مولانا کے خاندان اور شاگردوں کی 66 قبریں ہیں‘ مولانا سے منسوب تبرکات بھی ہال میں رکھے ہیں‘ مثنوی کا اصل نسخہ‘ مولانا کا کرتہ‘ ٹوپی‘ پگڑی اور قرآن مجید بھی رکھا ہے اور عثمانی خلفاءکے ہاتھوں سے لکھے قرآنی نسخے بھی‘ عمارت کے ایک حصے میں چھوٹی سی مسجد ہے‘ زائرین مسجد میں نوافل ادا کرتے ہیں‘ صحن میں انگریزی حرف ایل کی شکل میں حجرے ہیں۔
مولانا ان حجروں میں اپنے خاص شاگردوں کی تربیت کیا کرتے تھے‘ سلسلہ مولویہ کے لوگ کھانے کو مذاکرات اور درس وتدریس کے لیے استعمال کیا کرتے تھے چناںچہ مولانا کا کچن وسیع تھا‘ یہ کچن آج بھی موجود ہے‘ اس کی ایک سائیڈ پر کھانا پکتا تھا اور دوسرے کونے میں نشست گاہ تھی‘ مولانا وہاں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانا بھی تناول فرماتے تھے اور گفتگو بھی کرتے تھے‘مزار شریف کے دائیں بائیں سیکڑوں قبریں ہیں‘ یہ قونیہ کی اشرافیہ‘ شاہی خاندان‘ رﺅساءاور اولیاءکرام کی قبریں ہیں۔
علامہ اقبال کی علامتی قبر بھی موجود ہے لیکن مزار پر تزئین وآرائش کا کام چل رہا تھا لہٰذا ہم علامہ صاحب کی قبر پر نہ جا سکے‘ صحن میں آج بھی گلاب اگتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے سلجوقی دور میں اگا کرتے تھے‘ مولانا کی مسجد احاطے سے باہر ہے‘ آپ یہاں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے‘ خطبے کے لیے پورے سنٹرل ایشیا سے لوگ آتے تھے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر حضرت شمس تبریز آئے اور مولانا کو اپنا علم کم زور اور ناقص محسوس ہونے لگا‘ آپ نے خطبہ دینا بند کر دیا۔
آپ دن رات حجرے میں حضرت شمس تبریز سے الفت کے درس لیتے تھے‘ شمس تبریز چالیس دن مولانا کے ساتھ رہے اور ان چالیس دنوں میں انہوں نے انہیں محبت کے چالیس اصول سکھائے‘ یہ سلوک کے وہ چالیس درس ہیں جنہوں نے آگے چل کر قونیہ کے ایک عام سے عالم کو پورے عالم کا عالم بنا دیا‘ جلال الدین پوری دنیا کے لیے رومی اور عالم اسلام کے لیے مولانا روم بن گئے‘ عالم اسلام نے آج تک صرف دو ایسی ہستیاں پیدا کی ہیں جنہیں ہم عالموں کا عالم یا فلسفیوں کا فلسفی کہہ سکتے ہیں۔
یہ مولانا روم اور ابن عربی تھے‘ ابن عربی کشف اور روح کے طبیب تھے جب کہ مولانا دل اور احساس کے عظیم ڈاکٹر تھے‘ آپ آج دنیا کے کسی بھی فلسفی کو کھول کر پڑھ لیں‘ آپ کو اس میں مولانا روم کی خوشبو ضرور ملے گی‘ آپ صرف فلسفی یا صوفی نہیں تھے‘ آپ خوشبو کی طرح بکھرتے اور اڑتے تھے اور آپ آج تک اڑ اور بکھر رہے ہیں ‘ ہم نے اس دن بھی رومی کی خوشبو محسوس کی‘ وہ قونیہ کی ہواﺅں میں اس دن بھی موجود تھے۔ہم 55 پاکستانی مولانا روم کے در پر موجود تھے‘ ہماری پلکیں جھکی ہوئی تھیں‘ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے اور قدم درویشوں کی طرح ڈولتے تھے اور روح کے لبادے آوارہ ہوا کی طرح اڑتے تھے۔
ہمارے ساتھ رحیم یار خان کے ایک دوست کلیم اللہ تھے‘ یہ دو بھائی ہیں اور یہ دونوں دوڑ کر ہمارے ہر گروپ میں شامل ہو جاتے ہیں‘ ان کے والد دو سال پہلے ہمارے ساتھ ترکی آئے تھے‘ انہوں نے واپسی پر اپنے دونوں بیٹے آئی بیکس کے لیے ”وقف“ کر دیے چناں یہ ہر سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں‘ الیکٹرانکس کا کاروبار کرتے ہیں اور خوش حال ہیں‘ کلیم اللہ مولانا روم کی ٹوپی خرید کر لے آئے اور پہن کر مسجد کے صحن میں درویشوں کی طرح گردش کرنے لگے۔
گروپ کے لوگوں نے باری باری ٹوپی ادھار لی اور یہ بھی درویش بن کر گھومنے لگے‘ ہم سب تھوڑی دیر کے لیے درویش بن گئے اور ہماری روح ہوا میں پھڑپھڑانے لگی‘مجھے پھڑپھڑاتے ہوئے یاد آیا مولانا نے گفتگو کے تین دروازے بتائے تھے‘ آپ کہا کرتے تھے ‘آپ کا کلام جب تک ان تین دروازوں سے گزر نہ جائے آپ اس وقت تک اپنا منہ نہ کھولیں‘ آپ اپنی گفتگو کو سب سے پہلے سچ کے دروازے سے گزاریں ‘ اپنے آپ سے پوچھیں آپ جو بولنے لگے ہیں کیا وہ سچ ہے؟۔
اگر اس کا جواب ہاں آئے تو پھر آپ اس کے بعد اپنے کلام کو اہمیت کے دروازے سے گزاریں‘ آپ اپنے آپ سے پوچھیں آپ جو کہنے جا رہے ہیں کیا وہ ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں آئے تو آپ اس کے بعد اپنے کلام کو مہربانی کے دروازے سے گزاریں‘ آپ اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیا آپ کے الفاظ نرم اور لہجہ مہربان ہے؟اگر لفظ نرم اور لہجہ مہربان نہ ہو تو آپ خاموشی اختیار کریں خواہ آپ کے سینے میں کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ ہو اور آپ کا کلام خواہ کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو۔
مولانا کی ذات میں یہ تینوں دروازے حضرت شمس تبریز نے کھولے تھے‘ شاید یہی وجہ ہے مولانا نے حضرت شمس تبریز سے ملاقات کے بعد کبھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا جو نرم نہ ہو‘ جو ضروری نہ ہو اور جو سچ نہ ہو اور ہم 55 لوگ اس وقت مولانا کی مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر مولانا کے سچ‘ مولانا کے حق اور مولانا کے کلام کی نرمی محسوس کر رہے تھے‘ قونیہ کی سہ پہر ہم پر دستک دے رہی تھی اور یہ دستک اپنے منہ سے کہہ رہی تھی‘ مولانا نے میری 13 ویں حاضری بھی قبول کر لی‘ میں اب آہستہ آہستہ باب چلبیان سے گزرنے کے قابل ہو رہا ہوں۔