مظہر بخاری مجھ سے صرف دو ماہ سینئر تھا لیکن وہ ایک قدرتی صحافی تھا چنانچہ وہ مجھ سے آگے نکل گیا‘ ہم نے لاہور اور اسلام آباد میں اکٹھے کام کیا‘ سینئرز نے اس کا ٹیلنٹ بھانپ لیا اور وہ نوجوانی میں نیوز ایڈیٹر بن گیا‘ میں نالائق تھا اور نالائق عموماً باتوں کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں لہٰذا میں بول بچن لگا کر دن گزار لیتا تھا‘ مظہر بخاری اس بول بچن میں میری سپورٹ کرتا تھا‘ وہ ملتان کا رہنے والا تھا‘بے روزگاری کے ہاتھوں خوار ہو کر
لاہور پہنچا‘ دھکے کھاتا کھاتا اخبار کے دفتر آیا‘ محنتی اور ٹیلنٹڈ تھا‘ ترقی کی‘ سیڑھیاں پھلانگتا چلا گیا‘ ہمارے ملک میں کیریئرڈویلپمنٹ کی تمام تر ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں‘ قدرت مہربان ہو جائے تو بیڑے پار ہو جاتے ہیں ورنہ بڑے بڑے ہیرے ساغر صدیقی کی طرح فٹ پاتھوں میں دفن ہو جاتے ہیں‘ مظہر بخاری کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ یہ اسلام آباد سے لاہور جانے کے چکر میںبڑے اخبارات سے چھوٹے اخبار میں گیا اور وہ اخبار جب بند ہونے کے قریب پہنچا تو یہ بیوی کے ساتھ آسٹریلیا چلا گیا‘ آسٹریلیا میں سیکورٹی گارڈ کی جاب کی‘ سڑکوں پر ”گو اور سٹاپ“ کا سائین بورڈ لے کر کھڑا ہوا‘ کلرکی بھی کی اور اکاﺅنٹس کی چھوٹی چھوٹی نوکریاں بھی کیں‘ یہ باہمت تھا ‘ اس نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘ یہ دن کو کام کرتا تھا اور شام کی کلاسز لیتا تھایوں مظہر بخاری 25 سال کی ان تھک محنت کے بعد اب جا کر سیٹل ہوا‘ یہ اس وقت سڈنی کے مضافات میں خوش حال زندگی گزار رہا ہے‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں یہ اگر صحافت نہ چھوڑتا‘ یہ اگر مشکل زندگی کے مزید چند سال گزار لیتا تو یہ آج ہم لوگوں سے بہت آگے ہوتا‘ مجھ میں اور اس میں صرف ڈھیٹ پن کا فرق تھا‘ یہ خرگوش تھا‘ یہ چند چھلانگیں لگا کر چھوٹے میدان سے بڑے میدان میں چلا گیا جبکہ میں کچھوا تھا‘ میں خوف کی وجہ سے چلتا رہا اور 25 سال بعد اس مقام پر پہنچا جس پر مظہر بخاری چار پانچ برسوں میں پہنچ کر‘ تالیاں بجوا کر اور اس
مقام کو لات مار کر رخصت ہو گیا تھا۔میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور حقیقت کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں‘ انسان پوری زندگی اپنے پہلے سکول‘ پہلے استاد‘ پہلے دوست‘ پہلی گرل فرینڈ اور پہلی نوکری کے اثر سے آزاد نہیں ہوتا‘ یہ تمام چیزیں شناختی نشان بن کر ہماری زندگی کا مستقل حصہ ہو جاتی ہیں‘ عباس اطہر ہمارے پہلے صحافتی استاد تھے چنانچہ ہم چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود آج تک ان کے اثر سے باہر نہیں آ سکے‘ ہم ان کے شاگرد عام زندگی میں لفظ تک ان کے بولتے ہیں‘
ہم عموماً ”بی ہیو“ بھی ان کی طرح کرتے ہیں‘ میں روز ایاز خان کے منہ سے عباس اطہر کے لفظ سنتا ہوں اور چند لمحوں کےلئے ماضی میں چلا جاتا ہوں‘ میں نے بڑی مشکل سے اپنی زندگی سے شاہ صاحب کا طنز اور ٹانٹ ختم کی لیکن اس کے باوجود میں جب بھی ذرا سا جذباتی ہوتا ہوں تو فوراً جوانی کی ٹریننگ واپس آ جاتی ہے اور میرے منہ سے کوئی نہ کوئی درفنطنی نکل جاتی ہے‘ مظہر بخاری عباس اطہر مرحوم کا چہیتا شاگرد تھا‘ اس پر ان کا زیادہ اثر تھا‘
میاں نواز شریف ہماری صحافت کے ابتدائی زمانے میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے‘ میاں شہباز شریف ان دنوں اپنے بڑے بھائی کا حلقہ اور سیاسی دفتر چلاتے تھے‘ ہم نوائے وقت لاہور میں کام کرتے تھے‘ مجید نظامی شریف برادران کی ”مین سپورٹ“ تھے اور عباس اطہر اس مین سپورٹ کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے‘ شاہ صاحب نواز شریف کو پسند نہیں کرتے تھے چنانچہ ان کی زبان نواز شریف کے خلاف تھی اور قلم مجبوراً نواز شریف کا حامی تھا‘ ہم لوگ عباس اطہر کی قیادت میں نوائے وقت سے روزنامہ پاکستان آ گئے‘
پاکستان کے مالک اکبر علی بھٹی بھی پاکستان مسلم لیگ کے ایم این اے تھے‘ وہاں بھی زبان اور قلم کا تضاد جاری رہا‘ ہم نے اس تضاد میں صحافت سیکھی چنانچہ عباس اطہر کے تمام شاگرد پیدائشی طور پر نواز شریف کے خلاف ہیں‘ ہم جب بھی میاں صاحب کی صورت دیکھتے ہیں‘ آواز سنتے ہیں یا ان کا کوئی نہ کوئی بیان پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر عباس اطہر مرحوم کی روح حلول کر جاتی ہے اور ہم اپنی زبان کا طنز نہیں روک پاتے‘ مظہر بخاری اس معاملے میں بھی ہم سب سے آگے تھا‘
یہ میاں نوازشریف کو دل سے ناپسند کرتا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ناپسندیدگی نفرت میں بدل گئی لیکن مجھے کل آسٹریلیا سے مظہر بخاری کا ایس ایم ایس موصول ہوا‘ اس نے مجھ سے پوچھا ”میں حیران ہوں تم اتنی بدبودار فضا میں سانس کیسے لے رہے ہو“ میں نے جواب دیا ”ہم لوگ اب عادی ہو گئے ہیں“ اس نے لکھا ”میں ہوتا تو میرا دم گھٹ جاتا‘ یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے‘ میں نے کبھی نواز شریف کو سپورٹ نہیں کیا لیکن آج اگر مجھے ووٹ دینا پڑے تو میں نواز شریف کو ووٹ دوں گا“ میں مظہر بخاری کے الفاظ پر چونک اٹھا‘
میں نے آنکھیں مل مل کر اس کا پیغام پڑھا اور آخر میں محسوس ہوا ملک کی سیاسی صورتحال نے مظہر بخاری جیسے مخالف کو بھی آسٹریلیا میں نواز شریف کا حامی بنا دیا ہے‘ یہ اگر وہاں سڈنی میں میاں نواز شریف کےلئے ہمدردی محسوس کر رہا ہے تو پاکستان کے اندر لوگوں کی کیا حالت ہو گی۔ہم جتنے بھی جانبدار‘ نواز شریف کے جتنے بھی مخالف ہو جائیں ہمیں ماننا ہوگا وہ نواز شریف جو 13 جولائی سے قبل اپنی غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو رہا تھا‘
لوگ ایون فیلڈ کے سامنے جسے گالیاں دیتے تھے اور وہ خاموشی سے سرجھکا کر گزرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا اور جس کے امیدوار اس کے ٹکٹ واپس کر رہے تھے وہ آج دوبارہ پاپولر ہورہا ہے‘نواز شریف جب واپس آیا‘ وہ جب اپنی بیٹی کے ساتھ جہاز کے اندر سے گرفتار ہوا‘ وہ جب رائفل بردار باوردی جوانوں کے نرغے میں جہاز سے باہر لایا گیا‘ جب اس کی ادویات اور ڈاکٹر کو اس سے الگ کر دیاگیا‘ جب باپ اور بیٹی کو رات کے وقت اڈیالہ جیل میں بندکیا گیا‘ جب دونوں کو سی کلاس میں رکھا گیا‘
جب میاں نواز شریف کو بیرک میں فرش پر سلایا گیا‘ جب باتھ روم بیرک سے دور تھا اور جب مریم نواز کو جیل کے ووکیشنل سنٹر میں بند کیا گیا‘ جب ان کے ملاقاتیوں پر پابندیاں لگائی گئیںاور جب اسے جیل کا گندہ کھانا دیا گیا اور جب یہ کہانیاں جیل سے باہر نکلیں تو گو نواز گو کے نعرے لگانے والے لوگوں کے دلوں میں نواز شریف کی ہمدردی جاگنا شروع ہو گئی‘ ڈالر کی اڑان اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے اس ہمدردی کو بڑھا دیا‘ رہی سہی کسر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب اور حنیف عباسی کے خلاف انسداد منشیات کی عدالت کے فیصلے نے پوری کر دی
لہٰذا نواز شریف اب دوبارہ مقبولیت کی موٹروے پر چڑھ چکے ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا حنیف عباسی کے ساتھ 2012ءسے مسلسل زیادتی ہو رہی تھی‘ یہ عدالتوں سے تین سال سے فیصلے کی استدعا کر رہا تھا لیکن اے این ایف کے وکلاءعدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے‘کیس کی تاریخ 21 اگست مقرر تھی لیکن 16 جولائی سے اس کیس کی روزانہ سماعت ہوئی اور21 جولائی کوفیصلہ سنا دیا گیا‘یہ فیصلہ بھی دن بارہ بجے محفوظ ہوا اور پھر پولیس اور رینجرز کے سائے میں رات کے گیارہ بجے سنا یا گیا‘
حنیف عباسی نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کر لیا لیکن عوام اسے ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ لوگ فیصلے پر دو اعتراض کر رہے ہیں‘ اول‘ حنیف عباسی کی کمپنی نے 2010ءمیں500 کلو گرام ایفی ڈرین کا کوٹہ لیا تھا جبکہ وزیراعظم یوسف گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی نے اپنے دوستوں کو 9ہزارکلو گرام کا کوٹہ دلایا تھا‘علی موسیٰ گیلانی آج بھی کھلا پھر رہا ہے‘ یہ این اے 157سے الیکشن بھی لڑ رہا ہے لیکن حنیف عباسی کو عمر قید ہو چکی ہے‘ کیوں؟ ایفی ڈرین کیس میں بے شمارکمپنیاں اوربے شمار لوگ ملوث تھے‘
ان میں سے کسی کو سزا نہیں ہوئی‘ صرف حنیف عباسی مجرم بنا دیا گیا‘ کیوں؟ دوم‘ حنیف عباسی کی موجودگی میں شیخ رشید این اے 60 سے الیکشن نہیں جیت سکتا تھا‘ عوام کا خیال ہے یہ فیصلہ شیخ رشید کو سنجیوں گلیوں میں کھلا پھرانے کےلئے کیا گیا تاکہ شیخ صاحب ایک بار پھراس پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں جس پر یہ لعنت بھیجتے رہے‘ میرا ذاتی خیال ہے حنیف عباسی کی سزا نے میاں نواز شریف کی عوامی ہمدردی میں دس گناہ اضافہ کر دیا‘
اس ہمدردی میں آنے والے دنوں میں طلال چودھری‘ حمزہ شہباز شریف‘ سعد رفیق اور میاں شہباز شریف کے خلاف نوٹس سو گنا اضافہ کر دیں گے اور یوں مظہر بخاری جیسے مخالف بھی نواز شریف کی حمایت میں باہر آ جائیں گے۔میں سمجھتا ہوں نواز شریف کی ساکھ کو پانامہ کیس اور ایون فیلڈ کے فلیٹس نے جتنا نقصان پہنچایا تھا حنیف عباسی کے خلاف ایک فیصلے نے اس سے زیادہ فائدہ پہنچا دیا‘ میاں نواز شریف ایک بار پھر پاپولر ہو رہے ہیں‘ پنجاب ایک بار پھر ان کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ 13 جولائی کے بعد عمران خان کے جلسے اور میاں شہباز شریف کی ریلیاں دیکھ لیجئے‘ آپ کو دونوں میں واضح فرق دکھائی دے گا‘ عمران خان کے ٹائیگر کہاں چلے گئے ہیں اور میاں شہباز شریف کے حامی کہاں کہاں سے نکل رہے ہیں چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے حنیف عباسی جیسے مزید ایک آدھ فیصلے کی دیر ہے اور میاں نواز شریف جیل میں پڑے پڑے جیت جائیں گے‘ لوگ تمام تر پولیٹیکل انجینئرنگ کے باوجود ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے عمران خان کو بلاول بھٹو کی کمپیئن اور نواز شریف کی واپسی دونوں نے شدید نقصان پہنچایا اور یہ نقصان اب الیکشن کے نتائج میں بھی ظاہر ہو گا‘ عمران خان شاید ایک بار پھر وزارت عظمیٰ سے دور ہو جائیں گے ۔