جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مکافات عمل

datetime 29  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ کہانی فیصل آباد سے شروع ہوئی، اس نے اٹک میں قید دیکھی، اسلام آباد میں دھکے کھائے اور یہ ایک بار پھر اسلام آباد پہنچ کر رک گئی۔میاں نواز شریف کو یقیناً وہ دن نہیں بھولا ہوگا جب یہ لندن سے اسلام آباد پہنچے اور دھکے دے کر انہیں واپس بھجوا دیا گیا، یہ دھکے فیصل آباد کی اس کہانی کا کلائمیکس تھے جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا، وہ کہانی کیا تھی ہم اس طرف جانے سے پہلے آپ کو+

اسلام آباد کی اس شام کی طرح لے جائیں گے جب دوسرے سلطان نے پہلے سلطان کو دھکے دے کر ملک سے باہر نکال دیا،2007 میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ چکی تھی، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک زوروں پر تھی، بے نظیر بھٹو این آر او کی کشتی پر بیٹھ کر پاکستان آچکی تھیں اور دنیا کے زیادہ تر مبصرین کا خیال تھا کہ محترمہ الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کر لیں گی اور یوں اقتدار فوجی آمر سے لبرل جمہوری پارٹی کو منتقل ہو جائےگا، میاں نواز شریف جانتے تھےکہ اگر یہ اس وقت پاکستان نہ پہنچے تو پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلزپارٹی مل کر حکومت بنائیں گی اور یہ دونوں مل کر پاکستان مسلم لیگ ن کو مٹا دینگے،سعودی عرب میاں نواز شریف کا ضامن تھا، میاں صاحب نے سعودی شاہ کو اعتماد میں لیا اور پاکستان آنے کا اعلان کر دیا، جنرل پرویز مشرف کےلئے میاں نوازشریف قابل قبول نہیں تھے، جنرل نے سعودی عرب پر دباو ڈالا لیکن سعودی عرب نہ مانا، جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کا دس سال کا معاہدہ عام کر دیا، صدر مشرف لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے صاحبزادے سعد الحریری کو بھی پاکستان لے آئے، الحریری خاندان نے جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ کرایا تھا، اس معاہدے میں سینیٹر طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم نے اہم کردار ادا کیا تھا، شجاعت عظیم

الحریری خاندان کے پائلٹ تھے، جنرل مشرف کی میڈیا ٹیم جس میں اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر محمد علی درانی بھی شامل تھے، انہوں نے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر دیا مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف10ستمبر2007 کو پاکستان پہنچ گئے، یہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے لیکن یہاں ان کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں دھکے بھی دیئے، ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے

اور انہیں تقریباً گھسیٹتے ہوئے دوسرے جہاز میں بھی سوار کرادیا، یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو بھی زیادہ افسوسناک نہ ہوتا مگر میاں نواز شریف کو دوبارہ سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا اور یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہوا جو ملک کا دو بار وزیراعظم رہا تھا، میاں نواز شریف پاکستان کی معتبر سیاسی شخصیت بھی تھے اور یہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائد بھی، میاں صاحب نے1997 میں ملکی تاریخ میں

پہلی بار دو تہائی اکثریت بھی حاصل کی تھی چنانچہ یہ کسی بھی لحاظ سے اس توہین آمیز سلوک کے مستحق نہیں تھے مگر یہ سلوک فیصل آباد کے اس واقعے کا کلائمیکس تھا جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا تھا۔ہم فیصل آباد کے واقعے کی طرف جانے سے قبل زرا دیر کےلئے12اکتوبر1999 کی طرف جائیں گے، میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو ایوان اقتدار سے اٹھا کر اس عقوبت خانوں میں پھینک دیا گیا

تھا کہ یہ ایک دوسرے کی سلامتی تک سے آگاہ نہیں تھے ان کے کھانے کی ٹرے دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلی جاتی تھی، انہیں قرآن مجید تک دینے سے انکار کر دیا گیا، یہ جب عدالتوں میں پیش ہونے لگے تو انہیں انتہائی گرمی میں بکتر بند گاڑیوں میں کچہری لایا جاتا تھا، انہیں اٹک قلعے کے ایسے کمروں میں رکھا گیا جن میں سانپ اور بچھو تھے، میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر ہائی جیکنگ کی ایسی دفعات لگا دی گئیں

جن کی سزا پھانسی تھی، جنرل پرویز مشرف کے اکثر ساتھی ان دنوں دعوے کرتے تھے میاں نواز شریف2000میں ذوالفقار علی بھٹو ہو جائیں گے، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کا خیال تھا میاں صاحبان کبھی جیل سے زندہ باہر نہیں نکلیں گے اور اگر نکل آئے تو یہ سیاست کے قابل نہیں رہیں گے، میاں برادران بھی جانتے تھے جنرل پرویز مشرف اپنی گردن بچانے کےلئے ان کی گردن لے لے گا،

میاں نواز شریف اٹک قلعے کے دنوں میں ہر روز وہ غلطی تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے یہ سلوک یہ توہین اور یہ خوف جس کی سزا تھا اور ان کا ذہن ہر بار ایک ہی واقعے کی طرف جاتا تھا اور وہ واقعہ فیصل آباد میں مارچ1997 میں پیش آیا اور یہ وہ واقعہ تھا جس نے میاں صاحب کو اقتدار سے بھی فارغ کیا اور دربدر بھی۔ہم ہمیشہ اپنے ساتھ ہونیوالے برے سلوک کا ذمہ دار دوسرے لوگوں کو ٹھہراتے ہیں

ہم دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں مگر حقیقت میں اس کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہوتے ہیں، ہماری زندگی کے برے لوگ قدرت کے محض برے ایجنٹ ہوتے ہیں، ہم دراصل اپنے تکبر، اپنے ظلم اور اپنی زیادتی کی فصل کاٹتے ہیں، ہم اپنے ساتھ ہونیوالی ہر زیادتی کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں اور میاں صاحب12اکتوبر1999سے لے کر10ستمبر2007 تک کے تمام برے واقعات کے خود ذمہ دار تھے، میاں نوازشریف17فروری1997 کو

دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بنے، یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں میں ایسی بڑی کامیابیاں حکمرانوں کے مزاج کو ساتویں آسمان تک لے جاتی ہیں، چوہدری شیر علی فیصل آباد کی بڑی سیاسی شخصیت ہیں، یہ میاں برادران کے عزیز بھی ہیں، چوہدری شیر علی کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا، چوہدری شیر علی نے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی،

میاں نوازشریف مارچ1997کو فیصل آباد چلے گئے، یہ وہاں سات گھنٹے رہے، میاں صاحب نے اس دوران ایف ڈی اے کے افسروں کو کھلی کچہری میں بلوایا، افسروں نے وہاں وزیراعظم سے۔آر گومنٹ۔ کرنے کی کوشش کی، میاں نواز شریف ناراض ہوگئے اور انہوں نے ایف ڈی اے کے تین افسروں اشفاق بھٹی، عبدالحکیم اور طاہر رضا بخاری کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دےدیا، پولیس نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ان کو ہتھکڑی لگا

دی، یہ واقعہ پاکستان ٹیلی ویژن نے لائیو بھی دکھایا اور رات نو بجے کے خبر نامے میں میں بھی، یہ اس دور کا انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا، آپ قانون کے مطابق کسی شخص کو ایف آئی آر کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے، پولیس سرکاری ملازموں کو ہتھکڑی لگا کر پھنس گئی لہٰذا اسے یہ ہتھکڑی۔جسٹی فائی۔ کرنے کےلئے اپنا سات ماہ کا ریکارڈ تبدیل کرنا پڑگیا، یہ افسر پانچ ماہ جیل میں رہے اور یہ بعدازاں سپریم کورٹ کی

مہربانی سے رہا ہوئے، میاں نواز شریف کو ان تینوں میں سے کسی ایک کی آہ لگ گئی، ان کا اقتدار ختم ہوا، یہ اٹک قلعہ میں بند ہوئے اور اس کے بعد اذیت کے ناختم ہونےوالے سلسلے میں الجھ گئے، یہ اٹک کے دنوں میں کراچی لے جائے گئے یہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے کامرہ لائے گئے انہیں کامرہ میں فوکر جہاز میں بٹھایا گیا ملٹری آفسیر نے جہاز میں بیٹھتے ہی میاں نواز شریف کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دیدیا، پولیس کے

ایک اہلکار کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی، اہلکارنوکری بچانے کےلئے ہتھکڑی لے کر آگیا،میاں نواز شریف نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیئے، پولیس اہلکار نے ان کے ہاتھ باندھے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس کی آنکھوں سے ایک قطرہ پھسل کر میاں نوازشریف کے ہاتھ پر گر گیا، ہتھکڑی لگانے کے بعد میاں نواز شریف کی زنجیر سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی، وہ جہاز اڑا، راستے میں پٹرول لینے کےلئے جگہ جگہ رکا اور

پانچ گھنٹے بعد کراچی پہنچا، میاں نواز شریف اس دوران نشست سے بندھے رہے، انہیں ٹوائلٹ تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی،میاں نواز شریف اس سفرکے دوران سوچتے رہے ہم سے اقتدار کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی غلطی، کوئی نہ کوئی ایسی زیادتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں اور آج ہم پورا خاندان ان حالات کا شکار ہیں، میاں نواز شریف کو اس سوچ کےد وران فیصل آباد کا واقعہ یاد آگیا

اور انہیں محسوس ہوا انہوں نے فیصل آباد کے افسروں کے ساتھ زیادتی کی تھی، میاں نوازشریف نے اگلی ملاقات پر بیگم کلثوم نوازکو یہ واقعہ سنایا اور ہدایت کی آپ فیصل آباد جائیں اور ان افسروں کے لواحقین سے معافی مانگیں اور وہ لوگ جب تک معاف نہ کریں آپ لوگ واپس نہ آئیں، بیگم صاحبہ، میاں شہباز شریف کی اہلیہ بیگم نصرت شہباز کو ساتھ لے کر فیصل آباد گئیں اور انہوں نے ان خاندانوں کے گھر جا کر معافی مانگی،

مجھے یقین ہے شریف فیملی کو پاکستان سے جدہ جانے کی اجازت اس معافی کے بعد ملی تھی۔
پاکستان کے2013 کے الیکشنوں سے قبل لوگوں کا خیال تھا میاں نوازشریف اقتدار میں نہیں آسکیں گے، میاں نواز شریف کی سلامتی کے بارے میں ان کا خاندان بھی پریشان تھا نگران حکومت کو بھی یقین تھا یہ الیکشن نہیں ہو سکیں گے، آئی ایس آئی اور آئی بی نے خطرناک رپورٹس دی تھیں اور ان

رپورٹس کی وجہ سے نگران وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی الیکشن رولز میں ترمیم کےلئے بھاگ دوڑ کررہے تھے، وزارت داخلہ کا خیال تھا طالبان میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت30امیدواروں کو ٹارگٹ کریں گے اور اگر ان میں سے آھے امیدوار بھی مارے گئے تو الیکشن نہیں ہو سکیں گے، حکوم تنے اس کا یہ حل نکالا، ہم آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اجازت دے دیتے ہیں یہ کسی امیدوار کی موت کی

صورت میں متبادل امیدوار کو امیدوار تسلیم کرلے تاکہ ہنگامی حالات کے عبد بھی الیکشن ہو سکیں مگر فخر الدین جی ابراہیم نہیں مانے، اس انکار پر الیکشن کھٹائی میں پڑتے نظر آئے مگر اللہ نے کرم کیا، الیکشن ہوئے اور میاں نواز شریف تیسری بار اقتدار کی دہلیز پر پہنچ گئے، یہ دہلیز آج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے مینڈیٹ ووٹر نہیں دیتے اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اللہ کو حکمرانوں کی صرف عاجزی بہت محبوب ہے،

میاں صاحب عاجزی اختیار کریں ورنہ دوسری صورت میں یہ جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیں اور سوچ لیں اللہ تعالیٰ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو یہ اسے خوف کے پنجرے میں قید کردیتا ہے، یہ اس کے پاوں میں وقت کی بیڑیاں اور حماقتوں کی ہتھکڑیاں ڈال دیتا ہے اور وہ شخص فوج اور امریکہ کی بھر پور حمایت کے باوجود اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ جاتا ہے وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…