وہ اپنی ضد سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہ ہوا‘ اس کا کہنا تھا وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا معاہدہ شہر کی فلاحی عمارت میں کرے گا‘ فیس بک کی انتظامیہ تیار نہیں تھی لیکن یہ اس کی پہلی اور آخری خواہش تھی‘ سودا بڑا تھا‘ فیس بک یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی لہٰذا یہ لوگ اس کی ضد کے سامنے پسپا ہو گئے‘یہ کاغذات لے آئے‘ سنیپ (SNAP) کی عمارت کے ویٹنگ روم میں پہنچے اور جین کوم کو تلاش
کرنے لگے‘ وہ آخری کرسی پر سر جھکا کر بیٹھا تھا‘ وہ اس کے قریب پہنچے اور آہستہ آواز میں کہا ”مسٹر جین وی آر ہیئر“ اس نے ٹشو پیپر کے ساتھ آنسو صاف کئے‘ پین نکالا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا‘معاہدے کے کاغذات اس کے حوالے کر دیئے گئے‘ وہ دستخط کرتا چلا گیا‘ کاغذات ختم ہو ئے اور وہ 19 بلین ڈالر کا مالک بن گیا‘ وہ 38 سال کی عمر میں دنیا کے بڑے بلینئریز میں شامل ہو چکا تھا۔جین کوم کی کہانی اس سنٹر سے شروع ہوئی تھی لیکن اس کہانی سے پہلے یوکرائن آتا ہے‘ وہ یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘ خاندان عسرت میں زندگی گزار رہا تھا‘ گھر میں بجلی تھی‘ گیس تھی اور نہ ہی پانی تھا‘ گرمیاں خیریت سے گزر جاتی تھیں لیکن یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے‘ اس غربت میں 1992ء میں زیادتی بھی شامل ہو گئی‘ یوکرائن میں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم شروع ہو گیا‘ والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما‘ اٹیچی کیس میں بیٹے کی کتابیں بھریں اور یہ دونوں امریکا آ گئے‘ کیلیفورنیا ان کا نیا دیس تھا‘ امریکا میں ان کے پاس مکان تھا‘ روزگار تھا اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان‘ یہ دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر خیرات کے سہارے چل رہے تھے‘ امریکا میں ”فوڈ سٹمپ“ کے نام سے ایک فلاحی سلسلہ چل رہا ہے‘
حکومت انتہائیغریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹمپس دیتی ہے‘ یہ سٹمپس امریکی خیرات ہوتی ہیں‘ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ یہ زندگی بچانے کیلئے خیرات لینے پر مجبور تھے‘ جین کوم کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘ یہ پڑھنے لگا‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی مہنگی ہونے لگی‘ فوڈ سٹمپس میں گزارہ مشکل ہو گیا‘ جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی‘ خوش قسمتی سے اسے ایک گروسری سٹور میں سویپر کی ملازمت مل گئی‘
سٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم اور دروازوں کھڑکیوں سے لے کر سڑک تک صفائی اس کی ذمہ داری تھی‘ وہ برسوں یہ ذمہ داری نبھاتا رہا‘ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہوگیا‘ یہ شوق اسے سین جوز سٹیٹ یونیورسٹی میں لے گیا‘ وہ 1997ء میں ”یاہو“ میں بھرتی ہوا اور اس نے نو سال تک سر نیچے کر کے یاہو میں گزار دیئے‘2004ء میں فیس بک آئی‘ یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو تی چلی گئی‘ یہ 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی‘
جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا‘ وہ یہ نوکری حاصل نہ کر سکا‘ وہ مزید دو سال ”یاہو“ میں رہا‘ وہ آئی فون خریدنا چاہتا تھا لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے تھے‘ اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کئے اور نیا آئی فون خرید لیا‘ یہ آئی فون آگے چل کر اس کیلئے سونے کی کان ثابت ہوا‘جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے سوچا‘ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو‘ جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے‘
تصاویر بھی بھجوائی جا سکیں‘ ڈاکومنٹس بھی روانہ کئے جا سکیں اور جسے ”ہیک“ بھی نہ کیا جا سکے‘ یہ ایک انوکھا آئیڈیا تھا‘ اس نے یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا‘ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر جت گئے‘ یہ کام کرتے رہے‘ کام کرتے رہے یہاں تک کہ یہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ ”ایپ“ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں کراس کر گئی‘ یہ ایپ ٹیلی کمیونیکیشن میں انقلاب تھی‘ اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
یہ ایپلی کیشن واٹس ایپ کہلاتی ہے‘ دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں‘ یہ ایپ دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ ہے‘ آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی آپ کسی موبائل کمپنی کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے‘ آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا‘
فروری 2014ء میں فیس بک بھی ”واٹس ایپ“ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی‘ فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر بولا ”یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا“ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے اس ہنسی کے دوران ”فیس بک“ کو ہاں کر دی‘ 19بلین ڈالر میں سودا ہوگیا‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجئے‘
پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا جبکہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی‘ جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی”میں فوڈ سٹمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر دستخط کروں گا“ فیس بک کیلئے یہ شرط عجیب تھی‘ یہ لوگ یہ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ڈٹ گیا یہاں تک کہ فیس بک اس کی ضد کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی‘ ایک تاریخ طے ہوئی‘
فیس بک کے لوگ فلاحی سنٹر پہنچے‘ وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا‘ وہ کیوں نہ روتا‘ یہ وہ سنٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ”فوڈ سٹمپس“ کا انتظار کرتے تھے‘ یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے‘ ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی‘ وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی‘ طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی”تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے‘ تم کام کیوں نہیں کرتے“
یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے‘ خاتون انہیں ”سلپ“ دیتی تھی‘ ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے‘ وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے 19 بلین ڈالر کی ڈیل پر ”فوڈ سٹمپس“ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کئے‘
چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا‘ فوڈ سٹمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی‘ جین نے 19بلین ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا ”آئی گاٹ اے جاب“ اور سنٹر سے باہر نکل گیا۔یہ ایک غریب امریکی کے عزم وہمت کی انوکھی داستان ہے‘ یہ داستان ثابت کرتی ہے آپ اگر ڈٹے رہیں‘ محنت کرتے رہیں اور ہمت قائم رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کیلئے کامیابی کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے‘ جین کوم نے وطن چھوڑا‘ والد نے ساتھ جانے سے انکار کیا‘ وہ بے چارہ بیٹے اور بیوی کی صورت کو ترستا ہوا 1997ء میں یوکرائن میں انتقال کر گیا‘
جین نے خیرات لے کر تعلیم حاصل کی‘ گروسری سٹور پر سویپر کا کام کیا اور وہ آخر میں اللہ تعالیٰ کے کرم سے کھرب پتی بن گیا‘ یہ داستان جہاں جین کوم کے عزم اور ہمت کی دلیل ہے یہ وہاں امریکی معاشرے کی وسعت اور فراخ دلی کا ثبوت بھی ہے‘ یہ ثابت کرتی ہے امریکا ایک ایسا ملک ہے جس میں کوئی شخص 1992ء میں آ کر خیرات کے پیسے سے تعلیم حاصل کرتا ہے اور صرف 24 برسوں میں کھرب پتی بن جاتا ہے اور یہ صرف امریکا میں ممکن ہے‘ ہم جہاں اس داستان سے جین کوم کا عزم سیکھ سکتے ہیں ہمیں وہاں اس داستان سے ایک ایسے معاشرے کا آئیڈیا بھی ملتا ہے جس میں صرف عزم اور محنت کاشت ہوتی ہو‘
جس میں ترقی صرف ترقی یافتہ لوگوں کی وراثت نہ ہو اور جس میں ہمیشہ کامیاب لوگ کامیاب لوگوں کو جنم نہ دیتے ہوں‘جس میں سب کیلئے محنت کے برابر مواقع موجود ہوں‘ میں جب بھی جین کوم جیسے لوگوں کی داستان پڑھتا ہوں‘ میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں ہم مسلمان کس قدر بدقسمت ہیں‘ ایسے فراخ دل معاشرے کاخواب ہمارے رسولؐ نے دیکھا تھا لیکن یہ معاشرہ ٹرمپ جیسے لوگوں کے حصے آیا‘ ہم مسلمان ایسے معاشرے کب بنائیں گے‘ ہم اپنے رسولؐ کی خواہش کب پوری کریں گے‘ ہمارے معاشروں میں جین کوم جیسے لوگ کب پیدا ہوں گے‘ ہم کب 19بلین ڈالر مالیت کی ایپلی کیشنز بنائیں گے۔