آپ اور میں تھوڑی دیر کےلئے ماضی میں چلتے ہیں‘ 2009ءکا سن تھا‘ حج کا زمانہ تھا‘ پاکستان سے ایک لاکھ 59ہزارافراد حج کی ادائیگی کےلئے سعودی عرب پہنچے‘ حجاج کو مکہ مکرمہ کے مختلف علاقوں کی مختلف عمارتوں میں رکھا گیا‘ پینتیس ہزار حاجیوں کو حرم سے ساڑھے تین سے پانچ کلو میٹر دور 87زیر تعمیر عمارتوں میں ٹھونس دیا گیا‘
یہ عمارتیں خراب بھی تھیں‘ ناقابل رہائش بھی تھیں اوربنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھیں‘ حاجیوں کو دقت کا سامنا کرنا پڑا‘2009ءکے حج میں بے شمار دوسری بدنظمیاں بھی سامنے آئیں‘ حاجیوں نے شکایات شروع کیں‘ خبریں بنیں اور شائع اور نشر ہوئیں‘ملک میں کہرام برپا ہوگیا‘ ملک میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی ‘ اعظم خان سواتی اور حامد سعید کاظمی وفاقی وزراءتھے‘ حامد سعید کاظمی کے پاس مذہبی اموراور اعظم سواتی کے پاس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قلم دان تھا‘ اعظم سواتی جمعیت علماءاسلام (ف) کے ”کوٹے“ پر سینیٹر اور وزیر بنے تھے جبکہ حامد سعید کاظمی کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا‘ سواتی صاحب نے2010ءمیں حامد سعید کاظمی پر حج میں بدعنوانی کا الزام لگا دیا‘ ان کا دعویٰ تھا حامد سعید کاظمی نے ڈائریکٹر جنرل حج راﺅ شکیل کے ساتھ مل کر حج میں کرپشن کی‘ اعظم سواتی نے یہ الزام میرے پروگرام ”کل تک“ میں لگایا تھا‘ یہ کرپشن کے دستاویزی ثبوت بھی ساتھ لائے تھے‘ پروگرام میں حامد سعید کاظمی بھی موجود تھے‘ انہوں نے حلف اٹھایا اور الزام کو جھوٹا قرار دے دیا‘ یہ الزامات‘ خبریں اور حاجیوں کی شکایتیں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری تک پہنچیں‘ چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا اور حامد سعید کاظمی کے خلاف انکوائری شروع کرا دی‘ سعودی عرب کے شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ دیا‘ شہزادے کا کہنا تھا ”پاکستانی حکام حج میں کرپشن کے مرتکب ہوئے‘ میرے پاس ان کی بدعنوانی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں“ شہزادے نے لکھا ”پاکستانی حکام کو حرم سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر 3350 ریال میں رہائش گاہیں مل رہی تھیں لیکن انہوں نے یہ رہائش گاہیں لینے کی بجائے ساڑھے تین کلو میٹر دور 3600 ریال میں معمولی درجے کی عمارتیں لے لیں“
سپریم کورٹ نے یہ خط بھی تحقیقات میں شامل کرا دیا‘ تحقیقات شروع ہوئیں تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی‘ وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی‘ جوائنٹ سیکرٹری مذہبی امور راجہ آفتاب الاسلام اور ڈی جی حج راﺅ شکیل کے نام سامنے آگئے‘ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے دباﺅ میں حامد سعید کاظمی اور پارٹی کے پریشر میں اعظم سواتی کو وزارتوں سے فارغ کر دیا‘ حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کو بھی تحقیقات کی اجازت دے دی‘ قائمہ کمیٹی کے ارکان سعودی عرب گئے اورانہوں نے بھی حج کے انتظامات میں بدعنوانی کی تصدیق کر دی‘
حکومت نے ڈی جی حج راﺅ شکیل کو سعودی عرب سے واپس بلا لیا‘21 نومبر کو سعودی عرب نے 25 ہزار حاجیوں کو اڑھائی سو ریال فی کس واپس کرنے کا اعلان کردیا‘ 20 دسمبر 2010ءکو وزیر داخلہ رحمن ملک نے قومی اسمبلی میں تسلیم کر لیا ”حج انتظامات میں 16 لاکھ ریال کی کرپشن ہوئی تھی‘ حکومت بدعنوانی کے ذمہ داروں کو سخت سزا دے گی“ ملزمان نے اس دوران ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی‘
یہ ضمانت 15 مارچ 2011ءکو ختم ہوگئی‘ حامد سعید کاظمی کمرہ عدالت سے گرفتارہو گئے جبکہ17مارچ 2011ءکو نیب نے ڈی جی حج راﺅ شکیل کوبھی گرفتار کر لیا ‘ یہ لوگ اس کے بعد عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ‘ عدالت نے 30 مئی 2012ءکوان پر فرد جرم عائد کر دی ‘یہ کیس چلا اور یہ چلتا ہی چلا گیا ‘ تاریخ پر تاریخ اور سماعتوں پر سماعتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ سپیشل جج سنٹرل ملک نذیر احمد نے 3 جون 2016ءکو حامد سعید کاظمی اور جوائنٹ سیکرٹری آفتاب الاسلام کو سولہ سولہ سال اور ڈائریکٹر جنرل حج کو 40 سال قید کی سزا سنا دی
کو پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ بھی کیا گیا‘ عدالت کے حکم پر حامد سعید کاظمی اور آفتاب الاسلام کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ راﺅ شکیل پہلے سے ہی نیب کی حراست میں تھے‘ یہ تینوں ملزم جیل بھجوا دیئے گئے‘ حامد سعید کاظمی نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی‘ یہ اپیل 9 ماہ زیر سماعت رہی یہاں تک کہ 20 مارچ 2017ءکو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں ملزموں کو باعزت بری کر دیا‘ عدالت کا کہنا تھا ”ملزمان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا“یوں عدالتی حکم کے بعد تینوں ملزمان باعزت بری ہو گئے۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے‘ ملزمان اب ملزمان نہیں رہے‘ یہ باعزت بری ہو چکے ہیں‘ ملزمان کی بریت کے بعد ہمیں اب یہ بھی ڈکلیئر کر دینا چاہیے2009ءکے حج کے دوران کسی حاجی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی تھی‘ اعظم سواتی اور قائمہ کمیٹی کے تمام الزامات جھوٹے تھے‘ حاجیوں کی رہائش گاہیں ساڑھے تین کلو میٹر دور نہیں تھیں‘ ان کا کرایہ 3600 ریال بھی ادا نہیں کیا گیا ‘ سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز کا خط بھی جھوٹا تھا‘ سپریم کورٹ نے بھی غلط سوموٹو لیا تھا
ایف آئی اے اور نیب کی انکوائری بھی غلط تھی‘ وزیر داخلہ رحمن ملک نے 20 دسمبر 2010ءکو قومی اسمبلی میں 16 لاکھ ریال کی کرپشن کا اعتراف بھی نہیں کیا تھا‘ عدالت میں پیش کردہ ساری دستاویزات بھی جھوٹی تھیں‘ حکومتی وکیلوں نے بھی جھوٹ بولا تھا‘ سپیشل جج کا فیصلہ بھی جانبدارانہ تھا اور 35 ہزار حاجیوں کی شکایتیں بھی جھوٹی تھیں اور ان تمام جھوٹوں کا ایک ہی مقصد تھا حامد سعید کاظمی‘ راﺅ شکیل اور راجہ آفتاب الاسلام کو پھنسانا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی کو بدنام کرنا اور بس‘ ہمیں اب یہ سارا مقدمہ بھی جھوٹا اور بے بنیاد قرار دینا چاہیے‘ کیوں؟
کیونکہ اگر یہ الزامات غلط نہ ہوتے‘ اگریہ سارا مقدمہ جھوٹ پر مبنی نہ ہوتا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کبھی ملزموں کو باعزت بری نہ کرتی‘ ملزموں کی رہائی ثابت کرتی ہے سعودی شہزادے کے خط سے لے کر سپیشل جج کے فیصلے تک تمام واقعات‘ تمام الزامات غلط تھے اور ریاست سات سال تک تینوں ملزموں کے ساتھ زیادتی کرتی رہی اور ہم اور ہماری ریاست دونوں حامد سعید کاظمی‘ راﺅ شکیل اور راجہ آفتاب الاسلام کے مجرم ہیں‘ ہمیں اب ان تینوں ملزموں کو تاوان بھی ادا کرنا چاہیے
ہم اگر یہ نہیں کرتے‘ہم اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خاموش رہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ سارا سکینڈل درست ماننا پڑے گا‘ ہمیں ماننا ہوگا حج کے دوران جان بوجھ کر مہنگی رہائش گاہیں لی گئی تھیں‘ رہائش گاہوں میں پیسہ بنایا گیا تھا‘ حاجیوں کو واقعی تکلیف ہوئی تھی‘ سوموٹو نوٹس بھی ٹھیک تھا‘ شہزادے کا خط بھی حقیقت تھا‘ تحقیقات بھی درست تھیں اور ملزموں کو سزا بھی ٹھیک ہوئی تھی‘ ہم اگر اس سکینڈل کو ٹھیک مان لیتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے اگر 2009ءکے حج کے دوران کرپشن ہوئی تو اس کرپشن کا اصل ذمہ دار کون تھا
وہ کون تھا جس نے حاجیوں کو لوٹا‘ وہ کون تھا جس نے حاجیوں کی بددعائیں لیں‘ وہ کون تھا جس نے رہائش گاہوں کا سودا کیا‘ وہ کون تھا جس کے بارے میں شہزادے نے خط لکھا‘ وہ کون تھا جس نے 16 لاکھ ریال اڑا ئے اور وہ کون تھا جس کی نشاندہی پارلیمانی کمیٹی اور اعظم سواتی نے کی تھی‘ وہ یقینا حامد سعید کاظمی‘ راﺅ شکیل یا راجہ آفتاب الاسلام نہیں ہیں‘ وہ کوئی اور تھا جس نے یہ سارے غلیظ کام کئے‘ جس نے ذلت کے یہ سارے سودے کئے‘ ہمیں وہ شخص تلاش کرنا ہوگااور ہم اگر اس شخص کو تلاش نہیں کرتے تو ہم قومی مجرم ثابت ہو ں گے۔
ریاست کو اب دو کام کرنا ہوں گے‘ ریاست کو حامد سعید کاظمی‘ راﺅ شکیل اور راجہ آفتاب سے معافی مانگنا ہو گی اور اسے حج سکینڈل کے اصل ملزم تلاش کرنا ہوں گے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک ترین سکینڈل تھا‘ ہم مسلمان ہیں اور کوئی مسلمان حج‘ عمرے اور زکوٰة جیسے فرائض میں بے ایمانی نہیں کر سکتا‘ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا دنیا کا واحد ملک بھی ہے چنانچہ پاکستان جیسی اسلامی جمہوریہ میں ریاستی سطح پر حاجیوں کے ساتھ زیادتی ہو جائے یہ ممکن نہیں چنانچہ ہمیں اب وہ ننگ انسانیت ‘ وہ ننگ اسلاف شخص تلاش کرنا ہوگا
جس نے حاجیوں کے زاد راہ میں منہ مارنے کا گناہ کیا‘ یہ سکینڈل ظلم عظیم تھا اور ہم اس ظلم پر جتنا بھی شرمندہ ہوں وہ کم ہو گا‘ ہم نے اس سکینڈل کے ذریعے پوری دنیا میں ہزیمت بھی اٹھائی اور دنیا ہمارے بارے میں ببانگ دہل کہنے لگی تھی‘ یہ وہ قوم ہے جو حاجیوں کو بھی معاف نہیں کرتی چنانچہ یہ سکینڈل فائلوں میں نہیں دبنا چاہیے‘ ہمیں اصل مجرم تلاش کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر ہمیں اس ملک میں انصاف کا جنازہ تیار کر لینا چاہیے
ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگو کے نیچے ”بے انصافوں کی سرزمین“ لکھ دینا چاہیے اور ہم اگر یہ لکھ دیتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیونکہ جو ملک حاجیوں کو انصاف نہیں دے سکتا اس ملک میں انصاف کے لفظ پر پابندی لگ جانی چاہیے‘ اس میں جسٹس کے لفظ کو بین کر دینا چاہیے چنانچہ آئیے اصل مجرم تلاش کریں یا پھر انصاف کے لفظ پر پابندی لگا دیں تاکہ ہم بانس اور بانسری دونوں سے ایک ہی بار جان چھڑا لیں۔