میں شوگر کا دائمی مریض ہوں‘ میں اس مرض میں کب مبتلا ہوا‘ میں نہیں جانتا‘ میں یہ بھی نہیں جانتا یہ مرض میں ساتھ لے کر پیدا ہوا تھا یا میں بچپن میں ذیابیطس کا شکار ہوا یا پھر جوانی میں اس عفریت کا اسیر بنا‘ میں کیوں نہیں جانتا؟ اس کیوں کی بے شمار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ شوگر کی علامات سے ناواقفیت تھی‘ میرا بچپن گاﺅں‘ قصبے اورقصباتی شہر میں گزرا‘ میرے والدین‘ اساتذہ اوراہل محلہ شوگر کی علامات سے ناواقف تھے چنانچہ مجھے بچپن میں علم نہیں سکا‘ دوسری وجہ میڈیکل چیک اپ تھا‘ میں نے یونیورسٹی تک بلڈ ٹیسٹ تک نہیں کروایا تھا لہٰذا میں لڑکپن میں بھی اپنی بیماری سے آگاہ نہ ہو سکا اور تیسری وجہ ہمارے علاقے کے ڈاکٹر تھے‘ یہ صرف کھانسی‘ سردرد اور بخار کو بیماری سمجھتے تھے‘ یہ صرف ان مہلک امراض کے ایکسپرٹ تھے چنانچہ میرا مرض جوانی میں بھی کسی کو سمجھ نہیں آیا یوں میں شوگر کے ساتھ پروان چڑھتا رہا‘
میں عملی زندگی میں آیا تو میں چڑچڑے پن کا شکار ہو گیا‘ میرا وزن بھی تیزی سے گرنے لگا‘ میری پیاس بھی بڑھنے لگی تھی اور مجھے واش روم کی ضرورت بھی کثرت سے رہنے لگی‘ پاکستان اخبار میں میرے ایک دوست شوگر کے مرض سے واقف تھے‘ انہوں نے مجھے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا‘ میں لیبارٹری چلا گیا‘ خون دیا‘ ٹیسٹ ہوا‘ پتہ چلا میرے خون میں شوگر کی مقدار خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے‘ میں پریشان ہو گیا لیکن پریشانی حل نہیں تھا‘ حل علاج تھا‘ میں نے علاج شروع کر دیا‘ میں علاج کے دوران حکیموں کے قابو بھی آیا‘ سنیاسی بابوں کے پیچھے بھی پھرتا رہا‘ ہومیو پیتھک ادویات بھی کھاتا رہا‘ گھریلو ٹوٹکے بھی استعمال کرتا رہا‘ دم کر کے پانی بھی پیتا رہا اور ایلو پیتھک ادویات بھی کھاتا رہا لیکن شوگر کنٹرول نہ ہوئی‘ مجھے چھ سال ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد پتہ چلا میں جس نوعیت کی شوگر میں مبتلا ہوں اس کا واحد علاج انسولین ہے‘ میں ٹیکے سے ڈرتا تھا‘ میرا یہ خوف ڈاکٹر صداقت علی نے دور کیا‘ میں نے انسولین شروع کر دی‘ میں آہستہ آہستہ شوگر کے مرض کو سمجھنے بھی لگا‘ میں آج سوچتا ہوں مجھے اگر طالب علمی کے زمانے میں شوگر کا علم ہو گیا ہوتا‘ میں اگر اس کی علامات سے واقف ہوتا‘ میرے خون کا معائنہ اگر سکول‘ کالج یا یونیورسٹی میں ہوگیا ہوتا یا اگر ڈاکٹروں نے جوانی میں میری بلڈ سکریننگ کرالی ہوتی تو میں بہت پہلے اپنا علاج شروع کر چکا ہوتا اور میں شاید آج سے بہتر زندگی گزار رہا ہوتا ۔
ہمارا ملک دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں صحت کا بجٹ مسلسل بڑھ رہا ہے‘ ہمیں ہر سال زیادہ ہسپتالوں‘ زیادہ ڈاکٹروں اور زیادہ نرسوں کی ضرورت پڑتی ہے‘ ملک میں ادویات کا کاروبار تیزی سے ترقی کرنے والا بزنس سمجھا جاتا ہے‘ آپ ادویات کی چھوٹی سی فیکٹری لگائیں اور دو تین سال میں ارب پتی ہو جائیں‘ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی بڑی وجہ امراض سے ناواقفیت ہے‘ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی اپنے جسم میں پلنے والی بیماریوں سے تیس تیس سال آگاہ نہیں ہوتی اور یہ جب واقف ہوتے ہیں تو اس وقت تک ان کا مرض لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے‘ مجھے ملک کے نامور کارڈیالوجسٹ اور راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ جنرل اظہر کیانی نے بتایا‘ ان کے پاس جوان مریضوں کے تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ انہوں نے 22 سال کے ایک الیکٹریشن کا واقعہ سنایا‘ یہ نوجوان ڈبل شفٹ میں کام کرتا تھا اور روز نہاری کھاتا تھا‘ذہنی دباﺅ اور نہاری نے اس کے خون کو کیچڑ بنا دیا اور یہ 22 سال کی عمر میں دل کا مریض ہو گیا‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا اگر کوئی شخص اسے بچپن میں امراض قلب کے بارے میں بتا دیتا یا یہ ریگولر طبی معائنہ کراتا رہتا تو یہ اس انجام سے بچ جاتا‘ سائرہ افضل تارڑ وزیر صحت ہیں‘ ان کا ضلع حافظ آباد ہیپاٹائیٹس سی میں تمام اضلاع سے آگے ہے‘ پاکستان میں ٹی بی بھی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے‘ ہم پولیو میں بھی خطرناک ملک بن چکے ہیں‘ ہمارے بچے سانس کی بیماریوں کے شکار بھی ہیں‘ ہم امراض قلب میں بھی سرخ لائین کے اوپر ہیں‘ ملک میں ایڈز بھی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہم شوگر میں بھی دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں چنانچہ ہم من حیث القوم بیمار ہیں‘
یہ صورتحال انتہائی الارمنگ ہے‘ میری حکومت بالخصوص منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال سے درخواست ہے‘ آپ 20 مہلک بیماریوں کو پرائمری سکول کے سلیبس میں شامل کرا دیں تا کہ ہمارے بچے چھ سات سال کی عمر میں ان بیماریوں کی تمام علامات سے بھی واقف ہو جائیں‘ یہ ان بیماریوں کے تدارک سے بھی آگاہ ہوں اور یہ ان بیماریوں کا علاج بھی جان لیں‘ہمیں صحت عامہ کو اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی طرح لازمی مضمون بنا دینا چاہیے‘ یہ مضمون تین حصوں پر مشتمل ہو‘ بیماریاں‘ ان کا پس منظر‘ ان کی علامات اور ان کا تدراک پہلا حصہ ہو‘ دوسرا حصہ ماحول‘ جسم اور گھر کی صفائی پر مشتمل ہو اور تیسرا حصہ صحت مند عادات مثلاً ایکسرسائز‘ مطالعہ‘ شائستگی‘ لباس‘ گفتگو کا طریقہ‘ دوسروں کے حقوق اور محلے کی صفائی ستھرائی پر مشتمل ہو‘ یہ مضمون امراض کے تدارک اور ادراک میں اضافہ کرے گا‘ دوسرا حکومت فوری طور پر سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں میڈیکل چیک اپ کو لازمی قرار دے دے‘ بچے کی صحت اس کی تعلیمی سند کا حصہ ہونی چاہیے‘ یہ میڈیکل ریکارڈ بچے کے ساتھ ساتھ چلے‘ حکومت سپورٹس‘ ایکسرسائز اور لائبریری کو بھی تعلیم کا لازم حصہ بنا دے‘ ملک میں جس طرح کوئی بچہ 16 سال تعلیم حاصل کرتا ہے وہ بالکل اسی طرح 16 سال سپورٹس اور وہ ایکسرسائز بھی کرے اور لائبریری سے کم از کم دو ہزار کتابیں بھی ایشو کرائے‘ یہ کتابیں‘ یہ ایکسرسائز اور یہ سپورٹس طالب علموں کے پروفائل کا حصہ ہوں‘ حکومت تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارں میں ملازمین کے سالانہ میڈیکل چپک اپ کو بھی لازمی قرار دے دے‘ یہ چیک اپ ملازمین کو بیماری کی بروقت اطلاع دیں گے یوں یہ وقت سے پہلے اپنا علاج شروع کر لیں گے‘
میں یہاں دعوت اسلامی کی مثال دیتا ہوں‘ یہ مذہبی جماعت ہے لیکن اس جماعت کے ہر فرد کےلئے چھ ماہ بعد میڈیکل چیک اپ لازمی ہے‘ یہ کیوں لازم ہوا؟ اس کی وجہ جماعت کے ایک رہنما تھے‘ یہ رہنما بلڈ کینسر کی وجہ سے اچانک فوت ہو گئے‘ مولانا محمد الیاس قادری نے اس ایک انتقال کی وجہ سے کارکنوں پر میڈیکل ٹیسٹ لازم قرار دے دیا‘ حکومت بھی ملک کے تمام اداروں میں یہ تجربہ کر سکتی ہے‘ پاکستان میں تھیلیسیمیا تیزی سے پھیل رہا ہے‘ اس مرض کی واحد وجہ شادی ہے‘ میاں یا بیوی میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کا کیریئر ہوتا ہے‘ شادی کے بعد کیریئر کو ڈونر مل جاتا ہے اور یوں بچہ اس مہنگے اور خوفناک مرض کا شکار ہو جاتا ہے‘ اٹلی میں شادی سے قبل تھیلیسیمیا سمیت 9 مہلک امراض کا ٹیسٹ لازمی ہے‘ ہم بھی یہ ٹیسٹ شادی کا حصہ بنا سکتے ہیں‘ہمارا یہ فیصلہ ہزاروں بچوں کو تھیلیسیمیا سے بچا لے گا اور تیسرا فیصلہ ایکسرسائز ہے‘ میں نے کولمبو شہر میں دیکھا‘ حکومت نے درجنوں جم بنا رکھے ہیں‘ یہ جم 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور یہ مفت ہیں‘ لوگ آتے ہیں‘ ایکسرسائز کرتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں‘ہماری حکومت سگریٹ‘ پٹرولیم اور سیمنٹ جیسی ان تمام صنعتوں کا کنسورشیم بنائے جن کی وجہ سے شہریوں کی صحت خراب ہو رہی ہے‘یہ اس کنسورشیم کو مفت زمین دے اور یہ لوگ ملک کے 50 بڑے شہروں میں زنانہ اور مردانہ جم بنا دیں‘ یہ جم بھی لوگوں کو صحت مند بنائیں گے۔
دنیا کے ماہرین سمجھتے ہیں حکومت جتنے پیسے بجلی کا ایک یونٹ بنانے پر خرچ کرتی ہے یہ اگر اس کا صرف 25فیصد عوام کی موبلائزیشن پر لگا دے تو ہر شخص روزانہ بیس یونٹ بجلی بچاسکتا ہے اوریہ بچت لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کر سکتی ہے‘ ہم صحت پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کر پا رہے‘ ہمیں ہر حال میں پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہسپتال‘ زیادہ ڈاکٹر‘ زیادہ نرسیں اور زیادہ ادویات درکار ہوتی ہیں‘میرا مشورہ ہے حکومت اگر بجلی کی سپرٹ صحت پر لگا دے‘ یہ صحت کے بجٹ کا صرف دس فیصد بیماریوں کی ”اوئیرنیس“ پر خرچ کردے‘ یہ لوگوں کوبیماریوں سے بچنے کے طریقے بتا دے تو ہمارا صحت کا بجٹ کم ہو جائے گا ‘ حکومت کویہ کام سکولوں اور بچوں سے شروع کرنا چاہیے‘ ہم اگر ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لوگوں کی صحت پر توجہ دینا ہو گی‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کی کوئی بیمار قوم ترقی یافتہ نہیں ہو سکتی۔
نوٹ: ملک کے چند اہل درد ”ڈائیا بیٹک سنٹر“ کے نام سے مری ایکسپریس وے پر شوگر کے مریضوں کےلئے جدید ترین ہسپتال بنا رہے ہیں‘ آپ اگر مری جائیں تو آپ کو ہسپتال کی عمارت مری ایکسپریس وے پر ٹول پلازے کے فوراً بعد بائیں جانب دکھائی دے گی‘ یہ 75 کروڑ روپے کا منصوبہ ہے‘ یہ حضرات فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہیں‘ مخیر حضرات سے امداد کی درخواست ہے‘ آپ +92-334-5228819 یا+971566083542پر ان حضرات سے رابطہ کر سکتے ہیں۔