تویونی کی مسجد بھی حیران کن تجربہ ہے‘یہ مسجد ہندوستان کے مزدور مسلمانوں نے سو سال پہلے بنائی‘ عمارت لکڑی سے تعمیر ہوئی اور یہ ستونوں پر کھڑی ہے ‘یہ خاصی خستہ حال ہے‘ کرہ ارض پر روزانہ فجر کی پہلی اذان اس مسجد میں ہوتی ہے‘ اللہ اکبر کا پیغام روز اس مسجد سے پھوٹتا ہے اور یہ سورج کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے‘ حاجی شیخ مجھے ظہر کے وقت مسجد میں لے گیا‘ میں تصویریں بنانے میں مشغول ہو گیا اور وہ دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا‘ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا‘ مسجد کے ہال میں تین نمازی قبلہ رخ کھڑے تھے‘ ایک امام صاحب‘ دوسرا حاجی شیخ اور تیسرا بارہ تیرہ سال کا لڑکا‘ میں دوڑ کر وضو خانے گیا‘ وضو کیا اور ان کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا‘ مجھے بے شمار مساجد میں سجدے کی سعادت حاصل ہوئی لیکن جو لذت اس نماز میں ملی وہ مجھے کم کم نصیب ہوئی‘ میں جوں جوں یہ سوچتا تھا میں سات ارب انسانوں کی اس دنیا میں آج کی تاریخ میں ان تین لوگوں کے ساتھ شامل ہوں جو کرہ ارض پر سب سے پہلے ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں تو میری آنکھوں کی نمی بڑھ جاتی تھی‘ یہ حقیقتاً نایاب تجربہ تھا‘ میں نے دنیا کی اس انوکھی گم نام مسجد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ”یا باری تعالیٰ مجھے بیت اللہ اور بیت المقدس کی دیواروں کے اندر سجدہ کرنے کی توفیق بھی عطا فرما دے“ مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے میری یہ درخواست قبول فرما لی ہے‘ مجھے اب کسی دن فلسطین اور مکہ مکرمہ سے پیغام آئے گا اور یہ سعادت بھی میرے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی۔
تویونی ایک طلسماتی جزیرہ ہے‘ یہ مشرق کی طرف آخری انسانی آبادی ہے‘ اس سے آگے پانی کے سوا کچھ نہیں‘ بس خلاءہے‘ اللہ کا نام ہے اور دنیا کے حقیر ہونے کا احساس ہے‘ دوسری طرف کیلے‘ ناریل اور انناس کے جنگل ہیں‘ آپ جزیرے میں کسی طرف نکل جائیں‘ آپ ناریل کے گھنے جنگل میں گم ہو جائیں گے‘ درخت سے درخت‘ جھاڑی سے جھاڑی اور پودے سے پودا ملا ہوا ہے‘ اس گہرے گھور جنگل میں ایک بڑی آبشار بھی ہے‘ ہم چالیس منٹ کی ڈرائیو اور دس منٹ کی واک کے بعد آبشار تک پہنچے‘ راستے میں سرخ رنگ کے سینکڑوں جھاڑی نما پودے تھے‘ ان پودوں نے راستے کو سرخ بنا رکھا تھا‘ یوں محسوس ہوتاتھا ایک آگ ہے جو سڑک سے آبشار تک پھیلی ہے اور لوگ اس آگ پر چل کر آسمان سے برستے پانی تک پہنچ رہے ہیں‘ یہ آبشار تویونی کی جھیل سے نکلتی ہے‘ یہ جزیرہ آتش فشانی زلزلے کی پیداوار تھا‘ ہزاروں سال پہلے یہاں زلزلہ آیا‘ زلزلے سے آتش فشاں پھٹا اور پہاڑوں کے اوپر ایک وسیع جھیل بن گئی‘ یہ جھیل اب ندیاں‘ نالے اور آبشاریں بن کر جزیرے میں اترتی ہے اور یہاں کے لو گوں کی آبی ضرورت پوری کرتی ہے‘ جزیرے کے ساتھ ساتھ نیلے ساحل ہیں اور ساحلوں میں ریزارٹ ہیں‘ سمندر کے اندر بھی چھوٹے چھوٹے جزیرے سر اٹھا کر کھڑے ہیں‘ یہ جزیرے بھی ریزارٹ ہیں‘ سیاح جہازوں کے ذریعے تویونی آتے ہیں‘ ریزارٹ کی کشتیاں انہیں لیتی ہیں‘ یہ ان چھوٹے جزیروں میں پہنچتے ہیں‘ یہ چند دن یہاں گزارتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں‘ یہ ریزارٹ جزیرے‘ سمندر کی بے لگام موجیں‘ سفید ریت کے ساحل اور ان کے ساتھ ساتھ سرسبز تویونی یہ سب مل کر جنت کا ٹکڑا بن گئے اور میں حاجی شیخ کے ساتھ اس جنت گم گشتہ میں اپنا پتہ‘ اپنا سراغ تلاش کرتا رہا‘ شام ساڑھے چار بجے واپسی کی فلائٹ تھی‘ واپسی پر دوبارہ مسافروںکا وزن ہوا‘ جہاز پھڑپھڑایا اور نادی کی طرف پرواز کر گیا‘ یہ اس بار تویونی کی جھیل کے اوپر سے گزرا‘ جھیل کیا تھی یہ پورا سمندر تھی‘ تاحد نظر تک پھیلے سمندر میں ناریل اور کیلے کا وسیع پیالہ تھا اور اس پیالے کے اندر سبز رنگ کا پانی بھرا تھا‘ پانی کے اندر پانی اور اس کے اندر ڈوبتے سورج کی لالی جہاز کے مسافر کھڑکیوں کے ساتھ جڑ کر تصویریں کھینچنے میں مصروف ہو گئے‘ میں سوا گھنٹے بعد دوبارہ نادی پہنچ گیا۔
نادی میں گوروں نے ”ڈی نیورو“ کے نام سے الگ بستی آباد کر رکھی ہے‘ یہ نادی کا ساحلی علاقہ ہے‘ یہ فجی میں ہونے کے باوجود فجی کا علاقہ نہیں‘ اس کی سیکورٹی‘ اس کا کلچر‘ اس کی زبان اور اس کے قوانین مختلف ہیں‘ آپ جوں ہی ”ڈی نیورو“ کے علاقے میں داخل ہوتے ہیں آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ یورپ کے کسی شہر میں آ گئے ہیں‘ ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں فائیو سٹار ریزارٹ ہیں‘ ان کے پیچھے فائیو سٹار فلیٹس کی قطاریں ہیں اور ان سے پیچھے پانچ پانچ ملین ڈالر کے ولاز ہیں اور ان سب کے درمیان گالف کورس ہے‘ ڈی نیورو کے شاپنگ سنٹرز‘ کافی شاپس اور ریستوران بھی الگ ہیں اور اس کی بندر گاہ بھی‘ سمندر لوگوں کے گھروں تک آتا ہے‘ لوگ اپنی موٹر بوٹ گھر تک لے جاتے ہیں‘ میں نے ڈی نیورو کے شیرٹن میں دو دن کےلئے کمرہ بک کرا رکھا تھا‘ ریزارٹ کا ہر کمرہ سمندر کی طرف کھلتا ہے‘ صبح اور شام دونوں وقت لاجواب تھے‘ میرے کمرے سے چند گز دور چرچ تھا‘ یہ چرچ ہوٹل نے ”سن سیٹ میرج“ کےلئے بنا رکھا تھا‘ لوگ یہاں شام کے وقت شادیاں کراتے ہیں‘ ہوٹل شادی کےلئے سپیشل پیکج دیتا ہے‘ میں نے اگلی شام شادی کی ایک تقریب دیکھی‘ ایک طرف سورج غروب ہو رہا تھا‘ دوسری طرف پادری نکاح پڑھا رہا تھا اور تیسری طرف باراتی شیمپیئن کے جام اڑا رہے تھے‘ میں نے یہ منظر اس سے قبل صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھا تھا‘ یہ بندوبست فجی کے تقریباً تمام ریزارٹ میں موجود ہے‘ ہم فجی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ ہم ایک فجی کو مقامی لوگوں کا فجی کہہ سکتے ہیں اور دوسرا فجی گوروں کا فجی ہے‘ مقامی لوگ ہزاروں سال قبل ساﺅتھ افریقہ سے فجی پہنچے‘ یہ لوگ ہزاروں میل لمبا سمندر پار کرکے یہاں کیسے آئے؟ یہ ایک مسٹری ہے‘ کیا یہ لوگ واقعی ساﺅتھ افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ ہم اس کے جواب میں ان کے جسمانی خدوخال‘ قد کاٹھ اور دونوں زبانوں کے مشترکہ الفاظ کو بطور ثبوت پیش کر سکتے ہیں‘ یہ لوگ سیاہ فام ہیں‘ یہ جسمانی لحاظ سے دنیا کے طاقتور ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ آپ ان کو پکڑ نہیں سکتے‘یہ لوگ پوری گاڑی ایک ہاتھ کی طاقت سے الٹ دیتے ہیں‘ آپ دس لوگوں کو لیں‘ انہیں بانس پکڑا دیں اور دوسری طرف ایک فجین کھڑا کر دیں‘ یہ اکیلا شخص دس کو پیچھے دھکیل دے گا‘ فجی کے تمام لوگ ورزش کرتے ہیں‘ یہ رگبی کے قدرتی کھلاڑی ہیں‘ رگبی ان کے خون میں شامل ہے‘ یہ 1997ءاور 2005ءکے رگبی ورلڈ کپ سیونزجیت چکے ہیں اور حال ہی میں رگبی ورلڈ سیون سیریز 2015-16 ءبھی جیتی ہے جو رگبی ورلڈ کپ سیونز کے بعد سب سے بڑا ایونٹ ہے‘ میچ کے دن پورے ملک میں چھٹی ہو جاتی ہے‘ یہ لوگ پریکٹس کےلئے کیچڑ میں رگبی کھیلتے ہیں‘ آپ انہیں کیچڑ میں بھی پیچھے نہیں دھکیل سکتے‘ رگبی سیون ان کی قومی ٹیم ہے اور یہ تمام لوگ قومی ترانے کی طرح اس کا احترام کرتے ہیں‘ آپ کسی فجین کو دیکھ کر ”رگبی سیون“ کا نعرہ لگائیں وہ سارا کام چھوڑ کر دانت نکال کر کھڑا ہو جائے گا‘ یہ جسمانی مضبوطی کی وجہ سے دنیا بھر کی سیکورٹی ایجنسیوں اور فوجوں کےلئے ہاٹ کیک ہیں‘ برطانیہ ہر سال سینکڑوں فجین نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرتا ہے‘ یہ لوگ بڑی تعداد میں اقوام متحدہ کی فوج میں بھی شامل ہیں‘ ان کی چھاتیاں چوڑی‘ شانے مضبوط اور بازوں طاقتور ہوتے ہیں‘ یہ دوڑنے میں بھی بہت اچھے ہیں‘ پورا پورا گاﺅں کسرت کرتا ہے‘ موٹوپا ہے لیکن پیٹ نہیں ہیں‘ یہ ڈالو اور کساوا نام کی خوراک کھاتے ہیں‘ ڈالو شکر قندی کی قسم کا ایک پودا ہے‘ یہ جنگلوں میں عام پایا جاتا ہے‘ یہ لوگ صدیوں سے یہ کھاتے چلے آ رہے ہیں‘ ڈالو جسمانی مسلز بناتا ہے لیکن یہ چربی پیدا نہیں کرتا‘ یہ گوشت پکانے کے طریقے کو ”لوبو“ کہتے ہیں‘ یہ لوگ لوبو کےلئے بڑے بڑے پتھر گرم کرتے ہیں‘ یہ جب خوب سرخ ہو جاتے ہیں تو یہ گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر انہیں ان گرم پتھروں پر رکھتے ہیں اور پھر ان پر مٹی ڈال کر انہیں زمین میں دفن کر دیتے ہیں یوں گوشت ہلکی آنچ پر تیار ہوتا ہے اور یہ خاصا لذیذ ہوتا ہے‘ یہ لوگ آج سے سو سال پہلے تک انسانوں کو بھی لوبو کر کے کھا جاتے تھے‘ ریکی ریکی کے گاﺅں میں آج بھی ”انرے“ نام کے ایک بوڑھے کی قبر موجود ہے‘ یہ ننانوے لوگ بھون (لوبو) کر کھا گیا تھا‘ اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے‘ یہ سلسلہ اب بند ہو چکا ہے تاہم یہ لوگ آج بھی اجنبیوں کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ لوگ بلا کے مہمان نواز بھی ہیں‘ یہ مسکرا کر آپ کی طرف دیکھیں گے‘ خوش دلی سے آپ کو خوش آمدید کہیں گے‘ ناگونا ان کا قومی مشروب ہے‘ یہ پودے کی جڑ ہے‘ یہ اسے کوٹ کر اس کاپاﺅڈر بناتے ہیں اوراسے قہوے کی طرح پانی میں گھول کر پیتے ہیں‘ یہ مشروب نشہ آور ہے‘ یہ پینے والوں کو سست بنا دیتا ہے‘ یہ ”ہولی واٹر“ کی طرح اس کی عزت کرتے ہیں‘ اگر کوئی فجین کسی کو ناگونا پیش کرے اور وہ لینے یا پینے سے انکار کر دے تو یہ برا منا جاتے ہیں‘ دشمن اگر ناگونا لے کر ان کے گھر آ جائے تو یہ قتل تک معاف کر دیتے ہیں۔
بھولا ان کا ہیلو‘ ہائے یا السلام علیکم ہے‘ یہ گزرتے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بھولا کہتے جاتے ہیں‘ وِناکا ان کا شکریہ ہے اور کیرے کیرے ان کا جادوئی لفظ ہے‘ آپ کیرے کیرے کہہ کر ان سے کچھ بھی مانگ لیں یہ انکار نہیں کریںگے اور اگر کسی فجین نے آپ کو کیرے کیرے کہہ دیا تو آپ بھی انکار نہیں کر سکیں گے‘ آپ نے اگر کیرے کیرے کے بعد اس کا کام نہ کیا تواس کا سارا قبیلہ آپ سے ناراض ہو جائے گا‘ یہ لوگ کرپٹ‘ چور اور سست بھی ہیں‘ یہ طاقتور جسم کے باوجود کام نہیں کرتے‘ سرکاری نوکری کریںگے‘ کاروبار نہیں کریں گے چنانچہ تمام کاروبار ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ یہ چند ڈالر لے کر قتل کا ملزم بھی چھوڑ دیں گے‘ یہ چوری سے بھی باز نہیں آتے‘ حکومت پولیس کو اسلحہ نہیں دیتی‘ پولیس فجی میں اسلحہ کے بغیر ڈیوٹی دیتی ہے، کیوں؟ کیونکہ فجین اہلکار چند ڈالر میں اپنی رائفل تک بیچ دیتا ہے‘ پولیس اگر ناراض ہو جائے تو سو ڈیڑھ سو پولیس اہلکار مل کر پارلیمنٹ پر بھی قابض ہو سکتے ہیں‘ فوج صرف ساڑھے تین ہزار ہے لیکن یہ ساڑھے تین ہزار بھی جب چاہتے ہیں ملک میں مارشل لاءلگا دیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس رائفلیں ہیں‘ دیہاتی لوگ بھی ڈنڈوں اور کیلے اور ناریل توڑنے والے چھروں کے ذریعے حکومت کو بھگا دیتے ہیں‘ چوری ان کی سرشت میں شامل ہے لیکن کوئی فجین کسی فجین کو نہیں لوٹتا‘ یہ چوری ہمیشہ کسی ہندوستانی کے گھر یا دکان پر کریں گے‘ یہ دھوتی ٹائپ چادر باندھتے ہیں‘ یہ چادر سولو کہلاتی ہے‘ انہیں برطانوی حکمرانوں نے سولو باندھنے پر مجبور کیا تھا‘ یہ اس سے پہلے ننگے رہتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ کیلے کے پتے باندھ لیتے تھے‘ یہ تیز رنگوںکی شرٹ پہنتے ہیں‘یہ بھولا شرٹ کہلاتی ہے‘ یہ موسیقی اور رقص کے دلدادہ ہیں‘یہ ساری ساری رات ناگونا پیتے‘ آلات موسیقی بجاتے اور ناچتے رہیں گے اور آخر میں زمین پر آڑھے ترچھے ہو کر سو جائیں گے‘ ان کے گھر بہت گندے اور غریبانہ ہوتے ہیں‘ یہ ٹین کی دیواروں پر ٹین کی چھت ڈال کر اندر گھس جائیں گے‘ وجہ شاید سمندری طوفان ہیں‘ فجی میں ہر سال طوفان آتے ہیں اور یہ ان کے گھر اڑا لے جاتے ہیں چنانچہ یہ لوگ پکے گھر تعمیر نہیں کرتے‘ سڑکیں اور گلیاں بھی بہت خراب ہیں‘ بجلی اور پانی کا نظام بھی ٹھیک نہیں‘ یہ لوگ فضول خرچ بھی بہت ہیں‘ ہزار ڈالر ہوں گے تو ہزار ڈالر اڑا دیں گے اور لاکھوں ڈالر ہوں گے تو لاکھوں کھا جائیں گے بچت نہیں کریں گے۔
فجی فجی ہے
5
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں