آپ مری سے ایبٹ آباد جائیں تو ایوبیہ راستے میں آتا ہے اور ایوبیہ کے بعد ڈونگہ گلی۔ ڈونگہ گلی دو حوالوں سے مشہور ہے‘ پہلا حوالہ پانی کا ذخیرہ ہے‘ انگریز نے 1900ءکے شروع میں ڈونگہ گلی میں پانی کے بڑے ذخائر بنائے تھے‘ برٹش راج میں علاقے کے تمام بڑے چشموں کا پانی ڈونگہ گلی میں سٹور کیا جاتا تھا‘ یہ پانی بعد ازاں چار کلومیٹر لمبی پائپ لائین کے ذریعے ایوبیہ لایا جاتا تھا اور پھر وہاں سے مری سپلائی کیا جاتا تھا‘ ڈونگہ گلی سے ایوبیہ تک کی پائپ لائین واک کے خوبصورت ٹریکس میں شمار ہوتی ہے‘ یہ ٹریک پہاڑوں کے ساتھ ساتھ گھنے جنگلوں سے گزرتا ہے‘ میں جب بھی ٹینس ہوتا ہوں یا اینگزائٹی کا شکار ہوتا ہوں تو اس ٹریک پر واک کرتا ہوں‘ فریش آکسیجن لیتا ہوں اور تازہ دم ہو جاتا ہوں‘ انگریزوں نے ڈونگہ گلی میں پانی کے ٹینکوں کے ساتھ جنگل میں ایک خوبصورت ریسٹ ہاﺅس بھی بنایا تھا‘مجھے دس سال پہلے اس ریسٹ ہاﺅس میں رہنے کا اتفاق ہوا‘ میں نے وہ پوری رات جاگ کر گزاری تھی‘ یہ ڈونگہ گلی کا پہلا حوالہ ہے‘ دوسرا حوالہ عنبرین ہے‘ سولہ سال کی مظلوم عنبرین‘ مکول کی عنبرین لیکن ہم عنبرین کی طرف جانے سے پہلے مکول جائیں گے‘ مکول ڈونگہ گلی کا چھوٹا سا پہاڑی گاﺅں ہے‘ گاﺅں میں کڑلال قبیلے کے لوگ رہتے ہیں‘ یہ لوگ سردار کہلاتے ہیں‘ مکول میں صائمہ بھی رہتی تھی‘ صائمہ کا موبائل فون کے ذریعے کسی لڑکے سے رابطہ ہو گیا‘ والدین رشتے کےلئے تیار نہ ہوئے‘ صائمہ نے گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لی‘ لڑکا ایبٹ آباد کے قریب ایک گاﺅں میں رہتا تھا‘ یہ لوگ بااثر اور تگڑے ہیں‘ صائمہ کے والدین کی سبکی ہوئی‘ یہ انتقام کےلئے نکلے لیکن مخالف خاندان کے اثر ورسوخ سے گھبرا گئے‘ گاﺅں کے ایک نوجوان نے والدین کو بتایا ”دنیا کی کوئی لڑکی اس وقت تک گھر سے نہیں بھاگ سکتی جب تک اسے کسی سہیلی کی سپورٹ نہ ہو“ خاندان نے سہیلی کی تلاش شروع کر دی‘ پتہ چلا صائمہ عنبرین سے رابطے میں تھی‘ یہ بھی پتہ چلا صائمہ گاﺅں کے ڈرائیور صدیق کی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو ئی تھی‘ صائمہ کے والدین نے جرگہ بلا لیا‘ جرگے کی سربراہی مقامی سیاستدان اور کونسلر سردار پرویز نے کی‘ گاﺅں کے لوگ رات کے وقت عنبرین کے گھر چلے گئے‘ عنبرین کے والد سردار ریاست کراچی میں ملازمت کرتے ہیں‘ یہ لوگ انتہائی غریب ہیں‘ گھر میں صرف لڑکی کی والدہ شمیم اور بھائی نعمان تھا‘ جرگے کے لوگوں نے شمیم بی بی کو عنبرین حوالے کرنے کا حکم دے دیا‘ خاتون منتیں کرنے لگی‘ اس نے ان لوگوں کے پاﺅں تک پکڑ لئے لیکن وہ نہ مانے‘ عنبرین بھی منتیں کرتی رہی‘ سعید نام کے ایک شخص نے لڑکی کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے گلی میں لے گیا‘ وہ اسے دھکیلتا‘ گھسیٹتا ہوا گاﺅں کے ایک خالی مکان میں لے گیا‘ جرگے کے باقی لوگ اس مکان میں موجود تھے‘ سردار پرویز بھی وہاں تھا‘ جرگے نے لڑکی کو دیکھتے ہی اس کے قتل کا حکم دے دیا‘ عنبرین ان لوگوں کے پاﺅں پڑ گئی‘ اس نے اللہ اور رسول کے واسطے بھی دینا شروع کر دیئے لیکن جرگے کا فیصلہ(نعوذ باللہ) اللہ اور رسول کے فیصلوں سے بڑا تھا چنانچہ ہجوم نے لڑکی کے منہ میں دوپٹہ ٹھونسا‘ اس کی چادر کا رسہ بنایا‘ اس کے گلے میں ڈالا اور گردن دبانا شروع کر دی‘ عنبرین مزاحمت کرنے لگی‘ وہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگنے بھی لگی‘ جرگے کے ایک رکن نے بے ہوشی کے انجیکشن کا بندوبست کر رکھا تھا‘ اس نے انجیکشن بھرا اور سوئی عنبرین کے جسم میں چبھو دی‘ لڑکی آخری بار پھڑپھڑائی اور بے ہوش ہو کر گر پڑی‘ جرگے نے اطمینان کا سانس لیا‘ فرش پر گری لڑکی کا گلہ دبایا‘ بے ہوش بدن نے آخری جھٹکا کھایا اور عنبرین کی روح پہاڑی جنگلوں کی طرف نکل گئی‘ جرگے کے سامنے اب لاش کو ٹھکانے لگانے کا سوال تھا‘ سردار پرویز اس جرگے کا چیف جسٹس بھی تھا اور عقل مند بھی‘ اس نے لاش کو دوسرے مجرم ڈرائیور صدیق کی گاڑی میں رکھ کر آگ لگانے کا حکم دے دیا‘ صائمہ صدیق کی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوئی تھی‘ عنبرین کی لاش کو کیری ڈبے میں گیس کے سلینڈر کے اوپر بٹھایا گیا‘ اس کے دونوں ہاتھ کیری ڈبے کی دیوار کے ساتھ باندھے گئے‘ لاش پر پٹرول چھڑکا گیا اور آگ لگا دی گئی‘ قتل کو حادثہ ثابت کرنے کےلئے قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی گئی‘ جرگہ اس کے بعد عنبرین کے گھر گیا‘ اس کی ماں شمیم اور بھائی نعمان سے ملا اور انہیں حکم دیا ”تم لوگوں نے اگر زبان کھولی تو ہم تم دونوں کو بھی گھر سمیت جلا دیں گے“ ماں سہم گئی۔
عنبرین دنیا سے چلی گئی مگر اس کی مظلومیت ڈونگہ گلی کے جنگلوں‘ ڈونگہ گلی کے پہاڑوں میں بین کرتی رہی‘ دوسرے دن پولیس آئی‘ لاش اٹھائی اور گاڑیوں کا جائزہ لیا‘ پولیس کے ایک اہلکار نے موبائل سے لاش اور گاڑی کی تصویریں بنا لیں‘ یہ تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئیں تو لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیا ”اگر لڑکی حادثے میں جل کر مری تھی تو پھر اس کے ہاتھ گاڑی کے ساتھ کیوں بندھے ہیں“ یہ سوال ناقابل تردید تھا‘ یہ سوال عنبرین کی لاش کی تصویر کے ساتھ وائرل ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں نوٹس لینے پر مجبور ہوگئے‘پولیس متحرک ہوئی‘ تفتیش شروع ہوئی اور پولیس 24گھنٹے میں مجرموں تک پہنچ گئی‘ 16 میں سے 14 ملزم گرفتار ہو گئے‘ یہ گرفتاریاں موبائل فون کے ایک نمبر اور جیو فینسنگ کی وجہ سے ہوئیں اور اس کا سارا کریڈٹ ڈی پی او خرم رشید کو جاتا ہے‘ مجرم گرفتار ہو چکے ہیں‘ یہ عنقریب فوجی عدالت میں پیش ہوں گے‘ یہ سزائے موت بھی پائیں گے اور انہیں ان کے کئے کی سزا بھی مل جائے گی لیکن یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں‘ کیا عنبرین کا کیس ہمارے پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ نہیں‘ کیا یہ واقعہ یہ ثابت نہیں کرتا ہم ابھی جنگل کے اس دور سے باہر نہیں نکلے جس میں مرغی کی وقعت عورت سے زیادہ ہوتی تھی‘ کیا یہ ہماری ان معاشرتی روایات کے منہ پر طمانچہ نہیں جس میں لوگ صرف الزام پر لڑکی کا گلہ دبا دیتے ہیں اور پھر اس کی لاش کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے ہیں اور گاﺅں کے آدھے لوگ اس ظلم کا حصہ بن جاتے ہیں اور باقی آدھے چپ سادھ لیتے ہیں‘ کیا یہ واقعہ ہمارے اس سماج کے منہ پر طمانچہ نہیں جس میں لوگ اس قدر بے حس ہیں کہ ان کے گھروں سے چند فٹ کے فاصلے پر لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے‘ یہ لوگ رات بھر انسانی جسم کا دھواں سونگھتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی شخص پولیس کو اطلاع دیتا ہے اور نہ ہی ہونٹوں پرحرف شکایت لاتا ہے‘ کیا یہ واقعہ ہمارے اس پولیس سسٹم کے منہ پر طمانچہ نہیں جس کی خامیوں اور کمیوں کی وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کے قتل کے بعد بھی تھانے نہیں جاتے‘ یہ پولیس سے مدد نہیں لیتے اور کیا یہ ہمارے اس جسٹس سسٹم کے منہ پر بھی طمانچہ نہیں جس کی خرابیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے لوگ اب گھروں میں عدالتیں سجانے لگے ہیں‘ یہ خود ”مجرم“ کو پکڑتے ہیں‘ خود مقدمہ تیار کرتے ہیں‘ خود الزام لگاتے ہیں‘ خود سماعت کرتے ہیں‘ خود سزا سناتے ہیں‘ خود سزا پر عمل کرتے ہیں اور آخر میں خود ہی مجرم کی تدفین کر دیتے ہیں اور کیا یہ ہماری نام نہاد مذہب پسندی کے منہ پر بھی طمانچہ نہیں! آپ کمال دیکھئے جرگے کے آدھے لوگ باریش ہیں‘ یہ نماز بھی ادا کرتے ہیں‘ روزے بھی رکھتے ہیں اور یہ مذہبی اجتماعات میں بھی شریک ہوتے ہیں‘ آپ ان میں سے کسی شخص کے موبائل پر فون کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو تلاوت اور نعت خوانی کی آواز آئے گی لیکن آپ ان کی سنگ دلی ملاحظہ کیجئے‘ یہ لوگ سولہ سال کی بچی کو بالوں سے کھینچ کر جرگے کے سامنے لاتے ہیں‘ یہ اس روتی‘ بلکتی‘ تڑپتی اور واسطے دیتی بچی کےلئے سزائے موت کا حکم دیتے ہیں‘ یہ اپنے ان ہاتھوں سے اس کا گلہ دباتے ہیں جن سے یہ روز وضو کرتے ہیں اور پھر یہ اپنی نگرانی میں اس کی لاش کو آگ لگواتے اور یہ اس کے باوجود مسلمان بھی کہلاتے ہیں‘ اللہ اور اس کے رسول کا نام بھی لیتے ہیں اور خود کو پارسا اور مومن بھی سمجھتے ہیں‘ کیا یہ وہ اسلام ہے جس کو ہم اس معاشرے میں نافذ کرنا چاہتے ہیں‘کیا یہ وہ سماج ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں‘ کیا یہ وہ پولیس ہے جس کو ہم معتبر کہتے ہیں‘ کیا یہ وہ جسٹس سسٹم ہے جس کی حرمت کی ہم قسم کھاتے ہیں اور کیا یہ وہ نظام ہے جسے ہم ڈی ریل ہوتا نہیں دیکھ سکتے؟
کاش ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف‘ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور شاہ انقلاب عمران خان عنبرین جیسی بچیوں کو پانامہ لیکس کا چوتھائی وقت دے دیں اور کاش یہ عدل اور پولیسنگ کا سسٹم ٹھیک کر دیں تو یہ جنگل انسانوں کے رہنے کے قابل ہو جائے گا لیکن ہمارے حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ یہ شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی جیسے واقعات کو بھی قدرت کی وارننگ ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ یہ اپنے بچے اغواءہونے کے باوجود بھی جاگنے کےلئے رضا مند نہیں ہیں‘ پتہ نہیں ان کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ شاید اس وقت کھلیں گی جب ان کی پلکوں کی آخری لرزش بھی جواب دے جائے گی‘ جب ان کی روحیں بھی ڈونگہ گلی کے جنگلوں میں ماری ماری پھر رہی ہوں گی!
پلکوں کی آخری لرزش تک
11
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں