میں میاں نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کو چند لمحوں کیلئے اگست 2014ء میں لے جانا چاہتا ہوں۔
میاں صاحب آپ کو یاد ہو گا‘ 2014ء کے اگست میں عمران خان اور علامہ طاہر القادری ’’دس لاکھ‘‘ لوگوں اور ’’ایک لاکھ‘‘ موٹر سائیکلوں کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تھے‘ یہ لوگ 14 اگست کو لاہور سے نکلنے لگے تو حکومت نے انہیں زمان پارک اور ماڈل ٹاؤن میں روکنے کا فیصلہ کیا‘ ان کے سامنے پولیس تعینات کر دی گئی‘ پنجاب پولیس کے سورما ان کے سامنے کھڑے ہو کر لوہے کی شیلڈز کو ڈنڈوں سے بھی بجاتے رہے‘ رائفلوں میں گولیاں بھی بھرتے رہے اور آنسو گیس پھینکنے والی بندوقوں کی نالیوں پر شیل بھی چڑھاتے رہے لیکن پھر اچانک مظاہرین کو لاہور سے نکلنے کا راستہ دے دیا گیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں گروپ تگڑے تھے اور حکومت کا خیال تھا‘ ملک کے طاقتور ادارے ان گروپوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘ یہ لوگ 15 اگست کو اسلام آباد پہنچے اور ان لوگوں نے شاہراہ کشمیر پر کھڑے ہو کر سول نافرمانی بھی کی‘ بجلی کے بل بھی پھاڑے‘ یوٹیلٹی بل ادا نہ کرنے کا اعلان بھی کیا‘ تارکین وطن کو ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجوانے کا حکم بھی دیا اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے اور وزیراعظم ہاؤس کے گھیراؤ کا وعدہ بھی کیا لیکن حکومت خاموش رہی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں گروپ تگڑے تھے اور حکومت کا خیال تھا‘ ملک کے طاقتور ادارے ان گروپوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘ یہ لوگ 30 اگست کی رات کو ریڈ زون میں داخل ہوئے‘ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلے بھی توڑے‘ ایوان صدر کا گیٹ بھی توڑا‘ یہ وزیراعظم ہاؤس کے گیٹ تک بھی پہنچے‘ انہوں نے سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندی شلواریں بھی لٹکائیں‘ الیکشن کمیشن کا گھیراؤ بھی کیا‘ یہ ریڈزون پر بھی قابض ہوئے‘ انہوں نے قبریں بھی کھودیں‘ کفن بھی باندھے‘ پارلیمنٹ کے خاتمے کی تاریخیں بھی دیں‘ پارلیمنٹ‘ آئین اور قانون کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان بھی کیا‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو چور کا خطاب بھی دیا‘ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اسلام آباد کی انتظامیہ کو دھمکیاں بھی دیں اور عمران خان نے پولیس کی گاڑیاں روک کر زبردستی ملزم بھی چھڑائے‘ پی ٹی وی پر حملہ بھی کیا گیا‘ پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے کے سامنے دھرنا بھی دیا گیا یہاں تک کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ارکان پارلیمنٹ پچھلے دروازوں سے ہاؤس میں آتے اور جاتے رہے‘ آئین اور قانون دونوں کے وجود سے بھی انکار کیا گیا‘ پولیس اہلکاروں کو سرے عام ڈنڈے بھی مارے گئے‘ ایس ایس پی سٹی کو سڑک پر لٹا کر اتنے ڈنڈے اور ٹھڈے مارے گئے کہ وہ مہینہ بھر ہسپتال میں پڑا رہا‘ اسلام آباد کی کچہری میں پاکستان تحریک انصاف کے انقلابیوں نے قیدیوں کو لے جانے والی سرکاری بس روک لی‘ اس کے ٹائروں سے ہوا بھی نکال دی گئی‘ حکومت نے آئین اور قانون کے ان ’’ملزموں‘‘ کے خلاف ایف آئی آریں بھی کٹوائیں اور ملکی تاریخ میں پہلی بار سپیکر قومی اسمبلی کی مدعیت میں کسی سیاسی جماعت اور کسی سیاسی لیڈر کے خلاف پرچہ بھی درج کیا گیا لیکن حکومت نے علامہ طاہر القادری کو گرفتار کیا اور نہ ہی عمران خان کو ہتھکڑی لگائی‘ عمران خان روز رات کو بنی گالہ جاتے تھے‘ رات اپنے بستر پر سوتے تھے‘ صبح اٹھ کر ایکسرسائز کرتے تھے‘ ناشتہ کرتے تھے‘ شیو بناتے تھے اور نہا دھو کر شام کے وقت دوبارہ دھرنے میں آ جاتے تھے‘ دھرنے میں عارضی باتھ روم بھی بنائے گئے‘ خیمہ بستیاں بھی آباد ہوئیں‘ موبائل ہسپتال بھی بنے‘ ریستوران بھی اور میٹرنٹی ہوم بھی‘ دھرنے میں نکاح بھی ہوئے اور بچے بھی پیدا ہوئے اور دھرنے کے شرکاء کو باہر سے کھانا بھی آتا رہا‘ دھرنے کی چار چار گھنٹے کی تقریریں تمام ٹیلی ویژن چینلز پر لائیو دکھائی جاتی تھیں اور حکومت ان تمام کارروائیوں پر نہ صرف خاموش رہی بلکہ یہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو سہولتیں بھی فراہم کرتی رہی‘ یہ انہیں سیکورٹی بھی دیتی رہی اور کنڈے لگا کر بجلی چوری کرنے کا موقع بھی ‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں گروپ تگڑے بھی تھے اور حکومت کا خیال تھا‘ ملک کے مضبوط ترین ادارے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف اور چودھری نثار کو یاد ہو گا‘ ریاست نے عمران خان‘ علامہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے تھے‘ یہ مقدمات آج تک زیر سماعت ہیں‘ عدالتیں ان رہنماؤں کے وارنٹ گرفتار بھی جاری کر چکی ہیں لیکن حکومت نے آج تک ان کی گرفتاری کی ہمت نہیں کی‘ چودھری نثار اور میاں نواز شریف کو یہ بھی یاد ہو گا‘ یہ دھرنا مسلسل 126 دن جاری رہا‘ اس دوران چینی صدر کا دورہ بھی منسوخ ہوا‘ سیکرٹریٹ کا کام بھی بند رہا‘ میٹرو کی تعمیر بھی رکی رہی اور پاکستان کا اربوں روپے کا نقصا ن بھی ہوا‘ ان دونوں کو یہ بھی یاد ہو گا‘ حکومت دھرنا ختم نہیں کرا سکی تھی‘ علامہ طاہر القادری نے 21 اکتوبر2014ء کو اپنی مرضی سے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور عمران خان نے بھی 17 دسمبر2014ء کو اپنی رضا سے دھرنا ختم کیا‘ ان دونوں کو یہ بھی یاد ہو گا‘ عمران خان‘ علامہ طاہر القادری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آج بھی مقدمات قائم ہیں‘ عدالتیں دونوں کو بار بار نوٹس جاری کرتی ہیں لیکن حکومت علامہ صاحب کو گرفتار کرتی ہے اور نہ ہی عمران خان کو‘ یہ آج بھی ناقابل ضمانت وارنٹس کے باوجود ملک اور بیرون ملک آزاد پھرتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ حکومت آج بھی یہ سمجھتی ہے‘ یہ دونوں حکومت کے مقابلے میں تگڑے ہیں اور ملک کے مضبوط ترین ادارے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف اور چودھری نثار کو آج 2014ء کی اپنی اس کمزوری کا اعتراف بھی کرنا چاہیے اور قوم سے معافی بھی مانگنی چاہیے‘ ان دونوں کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے‘ ریاست اگر اگست 2014ء میں کمزوری کا مظاہرہ نہ کرتی‘ حکومت نے اگر اس وقت اپنی رٹ منوائی ہوتی تو مدارس کے نوجوان اور مذہبی جماعتوں کے کارکن 27 مارچ کو لیاقت باغ سے نکلتے‘ مری روڈ کی رکاوٹیں توڑتے‘ فیض آباد پہنچتے اور نہ ہی ریڈزون پر قابض ہوتے‘ میٹرو بس کے سٹیشن بھی نہ ٹوٹتے‘ سرکاری کیمروں پر بھی حملے نہ ہوتے‘ فائر بریگیڈ کو بھی آگ نہ لگائی جاتی اور کنٹینر بھی نہ جلتے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا‘ یہ ریاست کی 2014ء کی وہ کمزوری تھی جس پر چل کر یہ لوگ 27 مارچ کو ریڈ زون پہنچے اور انہوں نے چار دن یہاں دھرنا دیئے رکھا‘ حکومت کو یہ بھی ماننا ہو گا‘ اس کے رویئے میں تضاد ہے‘ حکومت نے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو نہ صرف 126 دن برداشت کیا بلکہ یہ انہیں سہولتیں بھی دیتی رہی اور ان سہولتوں میں ریاست کی رٹ کو پاؤں میں روندنا اور آئین‘ قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنا بھی شامل تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ان لوگوں سے حکومت کا رویہ مختلف تھا‘ ان کا کھانا اور پانی تک روک لیا گیا‘ ان کے 3500 لوگ بھی گرفتار کر لئے گئے‘ انہیں ٹینٹ لگانے اور واش روم بنانے تک کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں زبردستی اٹھانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا‘ یہ بھی حقیقت ہے‘ حکومت نے بھر پور آپریشن کا فیصلہ کر لیا تھا‘ تیاریاں مکمل تھیں‘ وزیرداخلہ کے ایک اشارے کی دیر تھی اور پولیس لاٹھیاں لے کر ان پر پل پڑتی اور اس حملے میں شاید کسی کی جان بھی چلی جاتی لیکن سوال یہ ہے‘ یہ تضاد کیوں ہے‘ ایک ہی جرم پر حکومت کے دو ردعمل کیوں ہیں‘ آپ نے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کو پارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر اور پی ٹی وی تک پر حملے کی اجازت دے دی تھی لیکن آپ ان لوگوں کو چار دن بھی برداشت نہ کر سکے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کمزور تھے اور آپ کو علم تھا‘ ان کی پشت پر کوئی نہیں‘ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا کہ جب علامہ طاہر القادری اور عمران خان کھلے عام آئین اور قانون کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے تو ٹیلی ویژن چینلز یہ تقریریں براہ راست دکھاتے تھے اور پیمرا خاموشی سے منہ دیکھتا رہتا تھا لیکن جب یہ لوگ ریڈ زون پہنچے تو میڈیا پر لکھنے‘ بولنے اور براہ راست دکھانے پر پابندی لگا دی گئی! یہ پابندی اس قدر سخت تھی کہ چینلز احتجاجیوں کے گیارہ مطالبات تک رپورٹ نہیں کر سکتے تھے‘ کیوں؟ یہ تضاد کیوں؟ آپ نے اگر اُن کو آزادی دی تھی تو آپ اِن کو بھی آزادی دے دیتے‘ آپ دونوں میں فرق کیوں کرتے رہے؟۔
میں اس ملک میں ’’رول آف لاء‘‘ چاہتا ہوں‘ ریاست کی رٹ بھی نظر آنی چاہیے‘ جس ریاست کی رٹ اور جس ملک کا قانون نہ ہو وہ ملک ٗ ملک اور وہ ریاست ٗ ریاست نہیں ہوتی لیکن حکومتوں کو اپنے تمام شہریوں‘ اپنے ملک کے تمام گروپوں کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے‘ قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے‘ قانون کو جینز اور داڑھی میں فرق نہیں روا رکھنا چاہیے‘ اگر ریڈزون ریڈزون ہے تو پھر یہ سب کیلئے ریڈزون ہونا چاہیے‘ حکومت اگر ریڈزون میں دھرنا دینے والوں کو ریاست کا ملزم سمجھتی ہے تو پھر اسے کسی سے بھی رعایت نہیں کرنی چاہیے‘ پھر اسے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں‘ فیصلے کرنے چاہئیں‘ آپ آج ہی یہ فیصلہ کر لیں‘ یہ ریاست آج کے بعد کسی گروپ کو ریڈزون تک نہیں پہنچنے دے گی‘ پولیس کو پورے اختیارات ہوں گے اور پولیس اگر حکومت کی رٹ کے نفاذ کے دوران اپنی حدود سے باہر نکل جائے تو ریاست پولیس کی ڈھال بنے گی‘ اگر پولیس میں ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کیپیسٹی نہیں ہے تو پھر حکومت یورپی ملکوں کی طرح ملٹری پولیس بنا لے‘ یہ خصوصی پولیس ہو‘ اس میں فوج کے حاضر سروس یا تازہ ریٹائر جوان شامل ہوں‘ ان کی یونیفارم عام فوج سے مختلف ہو‘ یہ فوج کی طرح جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوں اور انہیں خصوصی اختیارات بھی حاصل ہوں‘ حکومت انہیں جب بھی میدان میں اتارے تو ہجوم کو یہ پیغام مل جائے‘ ہمارے پاس اب پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی آپشن نہیں‘ ہم اگر آگے بڑھے تو ہم ملٹری پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جائیں گے‘ حکومت یہ فورس بنائے اور اسے ملک کے ہر اس شہر تک پہنچائے جہاں ریاست کی رٹ چیلنج ہو‘ ریاست کو جینز اور عمامے سے باہر آنا ہو گا‘ اسے عمران خان اور ثروت اعجاز قادری کو ایک نظر سے دیکھنا ہو گا‘ اس کی نظر میں 30اگست 2014ء اور 27 مارچ 2016ء میں فرق نہیں ہونا چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ فرق جب تک قائم رہے گا‘ ہمارا ریڈزون اس وقت تک پامال ہوتا رہے گا‘ خواہ ہم اس کے گرد کتنی ہی اونچی دیواریں کیوں نہ بنا لیں‘ خواہ ہم اس کے گرد کتنی ہی پولیس کیوں نہ کھڑی کر دیں‘ ہمیں ماننا ہو گا‘ دنیا میں قانون سے بڑی دیوار کوئی نہیں ہوتی اور ہم تضادات کے ہتھوڑے سے یہ دیوار توڑتے جا رہے ہیں۔
ریڈ زون
31
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں