یہ ایک لڑکی صبا کی کہانی ہے‘ صبا کو اٹھارہ سال کی عمر میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا اور لاش دریا میں بہا دی گئی لیکن صبا کے جسم میں زندگی کی رمق باقی تھی‘ دریا کے ٹھنڈے پانی نے بہتا خون روک دیا‘ حیات نے انگڑائی لی اور مردہ صبا دریا کی لہروں کا مقابلہ کرنے لگی‘ وہ موت سے لڑتے لڑتے کنارے لگ گئی‘ صبا بچ گئی یہاں پہلی کہانی ختم اور دوسری شروع ہوگئی‘ وہ انصاف کےلئے پولیس‘ وکیلوں اور عدالتوں میں دھکے کھانے لگی‘ معاشرہ اس کے خلاف تھا لیکن چند لوگ اس کے باوجود اس کا ساتھ دیتے رہے‘ وہ ان لوگوں کی مدد سے انصاف کے قریب پہنچ گئی لیکن پھر وہ ماں کے دودھ‘ باپ کے خون اور رشتوں کی قسموں کے ہاتھوں مجبور ہو گئی اور اس نے ان لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے اس کی زندگی موت سے بدتر بنا دی تھی‘ صبا اپنا سب کچھ ہار گئی‘ محبت‘ انا‘ انسانی حقوق‘ انصاف‘ ذہنی توازن‘ جذباتی خزانہ اور عزت‘ صبا کا سب کچھ ختم ہو گیا‘ پیچھے صرف مظلومیت اور افسوس رہ گیا اور یہ افسوس شرمین چنائے کی نئی فلم کا موضوع تھا۔
ہمارے ملک میں سینکڑوں صبائیں موجود ہیں‘ ہمیں دودھ میں ڈٹرجنٹ پاﺅڈر سے لے کر جعلی ادویات تک اور گردہ فروشی سے لے کر نومولود بچوں کے اغواءتک ہر قسم کی ننگی بے غیرتی پر غیرت نہیں آئے گی لیکن ہم صبا جیسی بچیوں کی معمولی غلطی پر غیرت مند درندے بن جائیں گے‘ ہمیں جہاں غیرت آنی چاہیے‘ وہاں ہماری غیرت سو سال تک سوئی رہتی ہے لیکن جہاں اسے سو جانا چاہیے وہاں یہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے‘ ہماری اس غیرت مندانہ ہڑبڑاہٹ کے ہاتھوں پاکستان میں ہر سال صبا جیسی ایک ہزاربچیاں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں‘ ہم غیرت کے ہاتھوں قتل میں پوری دنیا میں بدنام ہیں‘ یہ بدنامی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس پر کوئی شخص زبان کھولنے کےلئے تیار نہیں‘ صبا جیسی بچیاں رو رہی ہیں مگر معاشرہ سو رہا ہے‘ یہ آوازیں جب شرمین عبید تک پہنچیں تو اس نے کیمرے کے ذریعے بولنے کا فیصلہ کر لیا‘ شرمین کون ہے؟ یہ کراچی کی رہنے والی ہیں‘ والد ٹیکسٹائل کے بزنس سے وابستہ ہیں‘ یہ لوگ متموول ہیں‘ شرمین نے سمتھ کالج سے اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری لی‘ پھر سیٹن فورڈ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پالیسی سٹڈیز اور کمیونی کیشن میں ماسٹر کیا اور پھر یہ صحافت کی دنیا میں آ گئیں‘ امریکا اور کینیڈا کے اخبارات میں فری لانسنگ کی اور پھر نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن میں ڈاکومینٹری پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کیا‘ یہ امریکا میں کام کر رہی تھیں‘ زندگی مطمئن اور خوبصورت تھی لیکن پھر ان کی زندگی میں ایک موڑ آیا‘ یہ چھٹیوں پر پاکستان آئیں اور اتفاقاً افغان مہاجرین کے کیمپ میں چلی گئیں‘ یہ اتفاق ایک نئی شرمین عبید چنائے کی پیدائش کا باعث بنا‘ شرمین نے ڈاکومینٹری فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا‘ یہ واپس امریکا گئیں‘ سمتھ کالج اور نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن سے بات کی‘ ان کو فنڈنگ پر تیار کیا‘ پاکستان آئیں اور ڈاکومینٹری فلمیں بنانا شروع کر دیں‘ شرمین نے چلڈرن آف طالبان‘ پاکستانیز ڈبل گیم‘ ٹیرر چلڈرن‘ وومن آف دی ہولی کنگڈم اور افغانستان ان ویلڈ جیسی معرکة الآراءفلمیں بنائیں‘ شرمین کی فلموں نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا لیکن سفر ابھی باقی تھا‘ شرمین کو 2010ءمیں رخسانہ اور ذکیہ ملیں‘ یہ دونوں پنجاب کی رہنے والی تھیں‘ ان کے شوہروں نے ان کے منہ پر تیزاب پھینک دیا تھا‘ ان کی کہانیاں بہت دردناک تھیں‘ یہ کہانیاں سن کر شرمین نے تیزاب کے ذریعے جلنے والی خواتین پر فلم بنائی‘ یہ فلم ”سیونگ دی فیس“ تھی‘ یہ آسکر ایوارڈز کی نامی نیشن میں آئی اور اس نے 2012ءمیں اکیڈمی ایوارڈ حاصل کر لیا یوں شرمین عبید چنائے پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز بن گئیں‘ یہ پاکستان جیسے اس معاشرے کےلئے اعزاز تھا جس میں آج بھی خواتین تعلیم‘ سپورٹس‘ صحافت اور بزنس میں بہت پیچھے ہیں اور جس میں بیٹیوں کی پیدائش پر لوگ خوش نہیں ہوتے‘ اداس ہو جاتے ہیں‘ یہ ایوارڈ شرمین کےلئے کافی تھا لیکن اس بہادر خاتون نے رکنے سے انکار کر دیا‘ یہ آگے بڑھتی رہیں یہاں تک کہ یہ صبا تک پہنچ گئیں‘ شرمین نے 2015ءمیں صبا کی کہانی کو غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے گرد بنا اور ”اے گرل ان دی ریور“ کے نام سے ایک شاندار فلم بنائی‘ کل 28 فروری کو شرمین کی اس فلم کو بھی آسکر ایوارڈ مل گیا یوں یہ پاکستانی تاریخ کی پہلی فلم ساز ہیں جنہیں دوسری بار آسکر ملا‘ یہ پاکستان اور شرمین دونوں کےلئے اعزاز کی بات ہے۔
پاکستان میں شرمین کی کامیابی پر حسب روایت تنقید جاری ہے‘ لوگ اس کامیابی کو ایک ایسی بین الاقوامی سازش قرار دے رہے ہیں جس میں روس‘ چین اور یورپ نے بھی امریکا کا بھرپور ساتھ دیا‘ میں ہمیشہ اس رویئے کا شاقی رہا ہوں‘ میں سمجھتا ہوں اگر شرمین جیسے لوگ کامیابی کے آئیکون نہیں ہیں تو پھر کون ہیں؟ اور اگر آسکر اور نوبل انعام جیسے ایوارڈز اعزاز نہیں ہیں تو پھر ہم کس کو اعزاز‘ کس کو ایوارڈ سمجھیں گے؟ شرمین پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے‘ یہ دنیا کے سامنے پاکستان کی منفی تصویر پیش کر رہی ہیں‘ یہ الزام درست ہو گا لیکن سوال یہ ہے‘ کیا پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتیں قتل نہیں ہوتیں‘ کیا پاکستان میں عورتوں کے منہ پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا‘ کیا ملک میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی نہیں ہوتی اور کیا پاکستان میں عورتوں کو برہنہ کر کے گلیوں میں نہیں گھمایا جاتا؟ اگر یہ ننگی حقیقتیں سچائی ہیں تو پھر ان کا اظہار‘ ان کو فلم کا موضوع بنانا سازش کیسے ہوگیا؟ ملک میں اگر پولیو ہوگا تو اس کی خبر بھی آئے گی اور دنیا ہمارے مسافروں پر پابندی بھی لگائے گی‘ آپ پولیو ختم کر دیں‘ آپ غیرت کے نام پر قتل روک دیں اور آپ تیزاب پھینکنے والوں کو سزائے موت دے دیں‘ ان ایشوز پر فلمیں بننا اور خبریں نشر ہونا بند ہو جائیں گی‘ آپ نے برائی کو کھلا چھوڑ رکھا ہے لیکن آپ شرمین عبید کے کیمرے کو قید کرنا چاہتے ہیں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ شرمین عبید کا دوسرا آسکر یہ بھی ثابت کرتا ہے‘ ہم اگر باصلاحیت ہیں اور ہم اگر محنت کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کامیاب اور نامور ہونے سے نہیں روک سکتی۔
ہم اگر چند لمحوں کےلئے شرمین کے آسکر کو سازش مان لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا وہ ڈاکٹر نرگس ماول والا اور ڈاکٹر عمران خان بھی سازش تھے جنہوں نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی تصدیق کی‘ آئن سٹائن نے 1915ءمیں عمومی اضافیت کا نظریہ پیش کیا تھا‘ اس نظریئے کے مطابق کائنات میں ستاروں کے ٹکرانے کی وجہ سے کشش ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں‘ سائنس دانوں نے سو سال بعد اس نظریئے کی تصدیق کا بیڑا اٹھایا‘ دنیا کے 133 تحقیقاتی اداروں اور 1004 سائنس دانوں نے تجربے میں حصہ لیا‘ یہ سائنس دان ستمبر 2015ءمیں کشش ثقل کی ان لہروں تک پہنچ گئے جو ایک ارب 86 کروڑ نوری سال پہلے دو کہکشاﺅں کے ٹکرانے سے پیدا ہوئیں تھیں اور یہ لہریں ستمبر میں زمین کے قریب سے گزریں‘ یہ اس صدی کا سب سے بڑا تجربہ تھا اور ہمارے دو سائنس دان کوئٹہ کے عمران خان اور کراچی کی ڈاکٹر نرگس ماول والا دنیا کی اس عظیم ٹیم کا حصہ تھے‘ یہ بھی یقینا سازش ہو گی‘ ملالہ یوسف زئی نے نوبل انعام حاصل کیا‘ یہ بھی سازش تھی اور ارفع کریم 2004ءمیں نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بن گئی‘ یہ بھی سازش تھی‘ علی معین نوازش نے 2008ءمیں اے لیول کے امتحان میں 24 سے 22 مضامین میں اے گریڈ حاصل کیا اور ابراہیم شاہد نے 2011ءمیں او لیول میں 23 اے گریڈ حاصل کئے اور ورلڈ ریکارڈ بنایا‘ زوہیب اسد نے 2012ءمیں او لیول میں 28 اے گریڈ حاصل کر کے یہ ریکارڈ توڑ دیا‘ کوہاٹ کے ہارون طارق نے 2014ءمیں اے لیول کے امتحان میں 47 اے گریڈ لے کر پوری دنیا کو پریشان کر دیا اور راولپنڈی کے حارث منظور نے 9 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کر کے پوری دنیا میں ڈنکا بجا دیا‘ او لیول کی عمر 17 سے 18 سال ہے اور اس کےلئے 14 سال کی سکولنگ بھی ضروری ہوتی ہے مگر حارث نے یہ نو سال کی عمر میں پاس کر لیا‘ یہ بھی یقینا سازش تھی! کیوں؟ کیونکہ امریکا اور یورپ ان سازشوں کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا‘ پاکستان میں صرف دہشت گرد‘ شدت پسند اور جاہل پیدا نہیں ہوتے‘ اس میں صرف ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جو خواتین کی ناموس کے بلوں کو زن مریدی اور خلاف اسلام قرار دے دیں بلکہ اس میں حارث منظور‘ ابراہیم شاہد‘ زوہیب اسد‘ ہارون طارق‘ ارفع کریم‘ ڈاکٹر عمران خان‘ ڈاکٹر نرگس‘ ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائے جیسے لوگ بھی ہیں‘ باصلاحیت‘ محنتی اور کامیابی کا لوہا منوانے والے لوگ اور امریکا ان لوگوں کا نام لے کر ہماری اس مقدس دھرتی کو بدنام کرنا چاہتا ہے جس میں لوگوں کو گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلایا جاتا ہے اور بے ہوش مریضوں کے گردے نکال لئے جاتے ہیں‘ یہ ہمارے خلاف سازش ہے اور ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
شرمین ہو‘ ملالہ ہو یا پھر ڈاکٹر نرگس ہوں یہ ہمارے محسن ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ دنیا بھر میں یہ ثابت کرتے پھر رہے ہیں‘ پاکستان فیل سٹیٹ نہیں‘ یہ دہشت گرد ملک بھی نہیں لہٰذا ہم ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم نے ماضی میں قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ فاطمہ جناح‘ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے محسنوں کے ساتھ کیا تھا‘ ملالہ سمجھ دار تھی‘ یہ نوبل انعام جیسا جرم کرنے کے بعد برطانیہ میں چھپ کر بیٹھ گئی‘ شرمین بھی بہت جلد سمجھ جائیں گی اور یہ بھی عنقریب آسکر کے گناہ پر کینیڈا میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم کمال لوگ ہیں‘ ہم گنڈاسا جٹ جیسے جھوٹ پر تالیاں بجاتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والی صباﺅں کے ننگے سچ کو سازش سمجھتے ہیں‘ ہم نے تو نوبل انعام کے جرم میں ڈاکٹر عبدالسلام کو بھگا دیا یہ تو پھر شرمین ہیں‘ یہ کیا چیز ہیں‘ یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
یہ شرمین کیا چیز ہے
1
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں