”آپ یہاں رکیں میں لائٹ آن کرتا ہوں“ اور پھر چوکیدار سلیپر گھسیٹتا ہوا عمارت کے پیچھے گم ہو گیا‘ میرے سامنے 25 بائی 25 فٹ کی چوکی تھی‘ میں سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک پہنچ گیا‘ دروازہ کھلا تھا‘ اندر اندھیرا تھا‘ میں اندھیرے کے باوجود اندر داخل ہو گیا‘ یہ ایک مستطیل ہال تھا‘ چھت اور دیواریں اونچی تھیں‘ چاروں دیواروں پر جالیاں لگی تھیں‘ روشنی اور ہوا جالیوں کے ذریعے اندر آ رہی تھی‘ رات کے ساڑھے دس بجے تھے‘ بازار بند ہو چکا تھا‘ صرف چائے خانے کھلے تھے‘ چائے کے کھڑکتے برتنوں اور لاہوری گالیوں کی آوازیں دھڑا دھڑ اندر آ رہی تھیں‘ ہال کے درمیان میں سفید سنگ مر مر کی قبر تھی‘ قبر پر کوئی رحم دل انسان سرخ گلاب کا ہار لٹکا گیا تھا‘ یہ ہار اور جالیوں سے چھن چھن کر آتی آوازیں اس مزار کا کل اثاثہ تھیں‘ عمارت کے پیچھے سے ٹک کی آواز آئی اور مقبرے کا بلب روشن ہوگیا‘ قبر مزید نمایاں ہو گئی‘ میں نے فاتحہ پڑھی‘ قبر کے گرد چکر لگایا اور باہر آ گیا‘ باہر چھوٹا سا لان تھا‘ لان کی مرجھائی ہوئی گھاس مقبرے کے مقیم کی داستان سنا رہی تھی‘ نئی انارکلی کی دکانیں بند ہو رہی تھیں‘ رات لاہور پر اتر رہی تھی اور مقبرہ اس اترتی ہوئی رات کی سیاہی بڑھا رہا تھا‘ رات کی شراب تاریخ کی شراب میں مل رہی تھی اور یہ ملتی ہوئی شرابیں وقت کا نشہ بڑھا رہی تھیں‘ میں چوکی کی سیڑھی پر بیٹھ گیا اور وقت کی کتاب میرے سامنے کھل گئی۔
وہ ترکستان کا رہنے والا تھا‘ بچپن میں غلام بنا لیا گیا‘ نیشا پور لایا گیا‘ غلاموں کی منڈی میں کھڑا کر دیا گیا‘ قاضی فخرو الدین وہاں سے گزرے‘ وہ امام ابو حنیفہؒ کی اولاد میں سے تھے‘ قاضی صاحب کی نظر بچے پر پڑی تو اس کی معصومیت نے ان کا دل کھینچ لیا‘ قیمت ادا کی اور اسے گھر لے آئے‘ بچے کا نام قطب الدین رکھا اور بیٹوں کی طرح اس کی پرورش شروع کر دی‘ قاضی فخرو الدین اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے‘ والد کی یہ محبت اولاد کے دل میں کینہ بن گئی‘ قاضی صاحب ضعیف بھی تھے اور علیل بھی‘ وہ جلد انتقال کر گئے‘ غلام زادہ دوبارہ غلام بن گیا‘ قاضی صاحب کے مردہ جسم کی بو ابھی کفن تک نہیںپہنچی تھی کہ ان کے ایک بیٹے نے اس کا ہاتھ پکڑا‘ اسے گھسیٹتے ہوئے غلاموں کی منڈی میں لے گیا اور اسے کھڑے کھڑے نیلام کر دیا‘ نیا آقا سوداگر تھا‘ وہ اسے غزنی لے گیا‘ غزنی میں شہاب الدین غوری کی حکومت تھی‘ شہاب الدین اس دور کا میاں شہباز شریف تھا‘ اس کا بڑا بھائی غیاث الدین غوری غورستان کا بادشاہ تھا‘ یہ سلطنت سنٹرل ایشیا سے ہندوستان تک پھیلی تھی‘ غزنی اس سلطنت کا بڑا صوبہ تھا‘ غزنی کا انتظام شہاب الدین غوری کے ہاتھ میں تھا‘ وہ زندگی اور تاریخ دونوں میں اپنے بھائی غیاث الدین غوری سے زیادہ مشہور تھا‘ اس کی فتوحات بھی زیادہ تھیں اور وہ صلاحیت میں بھی غیاث الدین سے بہت آگے تھا لیکن وہ اس کے باوجود مرنے تک بھائی کا وفادار رہا‘ شہاب الدین غوری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی‘ اس نے اس کا حل غلاموں کی شکل میں نکالا‘ وہ شاندار غلام خریدتا‘ ان کی شاہانہ تربیت کرتا اور پھر انہیں ملک کے مختلف علاقے اور شعبے سونپ دیتا‘ شہاب الدین غوری کے ان غلاموں نے کمال کر دیا‘ یہ لوگ آگے چل کر خاندان غلاماں کہلائے اور انہوں نے گورننس کے بے شمار ایسے اصول متعارف کرائے جو آج تک زندہ ہیں‘ قطب الدین کا نیا آقا شہاب الدین غوری کی اس عادت سے واقف تھا چنانچہ وہ اسے لے کر سیدھا دربار پہنچ گیا‘ شہاب الدین کو قطب الدین پسند آ گیا‘ اس نے اسے اپنے غلاموں میں شامل کر لیا‘ وہ باصلاحیت انسان تھا‘ وہ چند ہی برسوں میں بادشاہ کے قریب پہنچ گیا‘ شہاب الدین غنی تھا‘ وہ مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا تھا‘ اسے ایک دن معلوم ہوا قطب الدین اس سے بھی بڑا غنی ہے‘ یہ اپنے تصرف میں موجود ہر چیز محل کے خادموں میں تقسیم کر کے سوتا ہے‘ بادشاہ کو یہ ادا پسند آئی اور اسے اپنا بیٹا بنا لیا‘ دہلی اور اجمیر فتح ہوئے تو یہ دونوں شہر قطب الدین کو سونپ دیئے گئے‘ شہاب الدین اور قطب الدین دونوں اس کے بعد ہندوستان فتح کرتے چلے گئے اور سلطنت کے سائز میں اضافہ ہوتا چلا گیا‘ یہاں تک کہ قطب الدین کی جاگیر سمانا‘ میرٹھ‘ ہانسی‘ بنارس‘ گوالیار‘ گجرات‘ کالنجر‘ مہوہ اور برایوں تک پھیل گئی‘ ملتان اور لاہور بھی قطب الدین کی ملکیت بن گئے‘ وہ ہندوستان کا مختار کل ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود اپنی اوقات اور اپنے آقا کی مہربانی نہیں بھولا‘ شہاب الدین غوری جب بھی ہندوستان آیا‘ قطب الدین نے دہلی سے سوکوس باہر نکل کر اس کا استقبال کیا‘ شہاب الدین بھی پوری زندگی اپنے اس غلام پر فخر کرتا رہا‘ شہاب الدین غوری 15 مارچ 1206ءکو ہندوستان سے واپس افغانستان جاتے ہوئے گکھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا‘ شہاب الدین غوری کے انتقال کے بعد تخت اس کے بھتیجے سلطان محمود غوری کے پاس چلا گیا‘ وہ سلطان غیاث الدین غوری کا بیٹا تھا‘ سلطنت کا نام غورستان تھا اور دارلحکومت غور شہر تھا‘ سلطان محمود درویش صفت انسان تھا‘ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی سلطنت کے دو حصے کئے‘ افغانستان‘ ایران اور سنٹرل ایشیا کے علاقوں کو جوڑ کر ایک ملک بنایا اور ہندوستان کے شہروں کو اکٹھا کر کے دوسرا ملک تشکیل دیا‘ غزنی کو پہلے حصے کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور دہلی کو دوسرے حصے کا اور پھر یہ دونوں ملک شہاب الدین غوری کے دوغلاموں میں تقسیم کر دیئے‘ غزنی تاج الدین یلدوز کو مل گیا اور ہندوستان قطب الدین کے حصے آ گیا‘ قطب الدین خودمختاری کی یہ سند وصول کرنے کےلئے دہلی سے لاہور آیا‘ گھوڑے سے اتر کر سند اور خلعت وصول کی‘ ہونٹوں اور آنکھوں سے لگائی اور ملک سے سلطان بن گیا‘ سلطان ہند قطب الدین۔
وہ بادشاہ بن گیا لیکن حسد نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا‘ غزنی کی سلطنت پانے والا تاج الدین یلدوز خود کو ہندوستان کا مالک بھی سمجھتا تھا‘ قطب الدین دہلی میں جشن منا رہا تھا کہ یلدوز غزنی سے نکلا‘ لاہور فتح کیا اور لاہور پر قابض ہو کر بیٹھ گیا‘ قطب الدین واپس آیا‘ شہاب الدین کے دونوں غلاموں کے درمیان لڑائی ہوئی‘ قطب الدین جیت گیا اور یلدوز غزنی واپس بھا گ گیا‘ قطب الدین نے غزنی تک اس کا پیچھا کیا‘ غزنی میں بھی لڑائی ہوئی‘ یلدوز یہ جنگ بھی ہار گیا یوں غزنی بھی قطب الدین کے ہاتھ آ گیا‘ وہ غزنی میں بیٹھ گیا‘ یہ اس کی زندگی کا بدترین دور تھا‘ اس نے خود کو صرف دو کاموں تک محدود کر لیا‘ وہ دن رات اپنے دکھوں کو یاد کرتا تھا اور شراب نوشی کرتا تھا‘ یاسیت اور شراب نوشی نے سلطنت پر اس کی گرفت ڈھیلی کر دی‘ غزنی میں اس کے خلاف بغاوت ہوئی‘ شہر کے لوگوں نے دروازے کھول کر شہر دوبارہ تاج الدین یلدوز کے حوالے کر دیا‘ وہ جان بچا کر بھاگا اور لاہور پہنچ کر دم لیا‘ یہ شکست الارم ثابت ہوئی‘ وہ جاگ گیا‘ وہ جانتا تھا‘ یلدوز مضبوط ہونے کے بعد لاہور پر حملہ کرے گا چنانچہ اس نے لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا‘ وہ لاہور کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا رہا‘ لاہور مضبوط ہو گیا لیکن وہ قضا کے ہاتھوں ہار گیا‘ وہ 1210ءمیں لاہور کے قلعے کے باہر چوگان کھیل رہا تھا‘ وہ اچانک گھوڑے سے گرا‘ گھوڑے کی کاٹھی اس کی چھاتی پر گر گئی‘ پسلیاں ٹوٹ کر پھیپھڑوں اور دل میں پیوست ہو گئیں‘ شاہی طبیب اسے بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن موت قطب الدین سے زیادہ تگڑی تھی‘ وہ اس کی بے قرار روح کو لے کر اڑ گئی‘ پیچھے اس کا کچلا مسلا بے سانس جسم رہ گیا‘ یہ جسم چوگان کے میدان کے ایک کونے میں دفن کر دیاگیا‘ اس نے تین بیٹیاں پیچھے چھوڑیں‘ ایک بیٹی اس کے غلام شمس الدین التتمش کے عقد میں تھی‘ دوسری دونوں بیٹیاں دوسرے غلام ناصر الدین قباچہ کی بیویاں بنیں‘ یہ دونوں غلام بھی وقت کے عظیم حکمران تھے لیکن ان دونوں نے بھی زندگی ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر گزار دی‘ یہ دونوں عمر بھر ایک دوسرے کی تلوار سے بچتے رہے یہاں تک کہ ناصر الدین قباچہ بھکر سے فرار ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں ڈوب کر مر گیا۔
قطب الدین کو دنیا سے رخصت ہوئے 805 سال ہو چکے ہیں‘ ان 805 برسوں میں اس کی سلطنت ریت بن کر تاریخ کے صحرا میں بکھر گئی‘ اس کی آل اولاد بھی وقت کے قبرستان میں دفن ہو گئی‘ اس کی غلامی‘ اس کی سلطانی‘ اس کی جدوجہد‘ اس کی فتوحات اور اس کی منصوبہ بندی یہ سب وقت کی بنجر زمین میں جذب ہو گئے‘ پیچھے صرف چار چیزیں رہ گئیں‘ دہلی کا قطب مینار‘ یہ مینار آج بھی تلک بن کر زمین کے ماتھے پر چمک رہا ہے‘ سفید ہاتھی‘ اس نے دنیا کو سفید ہاتھی کی اصطلاح دی تھی‘ قطب الدین کے پاس ایک سفید ہاتھی تھا‘ وہ ہمیشہ اس ہاتھی پر سواری کرتا تھا‘ یہ شاہی ہاتھی تھا‘ یہ صرف اس وقت باہر نکالا جاتا تھا جب بادشاہ سلامت محل سے باہر قدم رنجہ فرماتے تھے اور یہ مرحلہ عموماً دو تین ماہ بعد آتا تھا چنانچہ ہاتھی کے پاس شاہی چارہ کھانے اور لید کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا‘ یوں یہ سفید ہاتھی ”وائیٹ ایلیفنٹ“ مشہور ہو گیا‘ قطب الدین کا یہ سفید ہاتھی اس کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکا‘ وہ بھی تیسرے دن فوت ہو گیا اور اس کے بعد کسی بادشاہ کو سفید ہاتھی نصیب نہیں ہوا‘ اس کی تیسری نشانی لکھ پتی کی اصطلاح تھی‘ وہ وقت کا حاتم طائی تھا‘ وہ مانگنے والوں کو لاکھ روپے سے کم خیرات نہیں دیتا تھا چنانچہ جو ضرورت مند اس کے دربار تک پہنچ جاتا تھا‘ وہ لکھ پتی ہو کر واپس آتا تھا‘ لوگ اسے لکھ بخش بھی کہتے تھے‘ لاہور کی قدیم گلیوں میں آج بھی سخیوں کو قطب دوراں یا قطب زمانہ کہا جاتا ہے‘ یہ قطب ولایت والا قطب نہیں‘ یہ قطب الدین کا قطب ہے اور اس کی چوتھی اور آخری نشانی لاہور کے انارکلی بازار کی ایک تنگ و تاریک گلی میں اس کا مزار ہے‘ وقت کے آٹھ سو تیشے بھی اس کی یہ نشانی نہیں مٹا سکے‘ یہ مقبرہ آج تک قائم ہے‘ اس کا خاندان‘ اس کی سلطنت اور اس کا دور‘ وقت نے اس کی ہر چیز خاک کا پیوند بنا دی لیکن وقت اگر نہیں مٹا سکا تو لاہور میں اس کا مقبرہ اور دہلی میں اس کا مینار نہیں مٹا سکا۔
قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی‘ وہ جب شہاب الدین غوری کے محل میں داخل ہوا تو دوسرے غلاموں نے ٹوٹی ہوئی انگلی کی وجہ سے اسے ایبک کہنا شروع کر دیا‘ یہ لفظ اس کی چھیڑ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید اس کی سخاوت پسند آ گئی اور باری تعالیٰ نے اس کی اس چھیڑ کو اس کا اعزاز بنا دیا چنانچہ آج تاریخ جب تک قطب الدین کو ایبک نہ کہہ لے یہ اس وقت تک خود کو مکمل نہیں سمجھتی۔
اور میں رات کے ساڑھے دس بجے اس قطب الدین ایبک کے مقبرے کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور رات آہستہ آہستہ قطب الدین ایبک کے لاہور پر اتر رہی تھی۔
رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی
26
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں