آپ نے اردو پوائنٹ کا نام یقینا سنا ہو گا‘ یہ پاکستان کی پرانی اور بڑی نیوز ویب سائیٹ ہے‘ یہ سائیٹ لاہور کے نوجوان علی چودھری نے پندرہ سال قبل بنائی‘ علی چودھری اس زمانے میں دن کے وقت نوکری کرتے تھے اور شام کو ”ویب سائیٹ“ چلاتے تھے‘ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن یہ ڈٹے رہے‘ یہاں تک کہ اردو پوائنٹ دنیا بھر کے پاکستانیوں میں پاپولر ہو گئی‘ علی نے نوکری چھوڑی اور یہ فل ٹائم ویب سائیٹ سے منسلک ہو گئے‘ ویب سائیٹ ترقی کرتی رہی‘ ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ‘یہاں تک کہ یہ ملک کی سب سے بڑی نیوز ویب سائیٹ اور علی چودھری ملک کے سب سے بڑے ”ویب سائیٹ انٹرپنیور“ بن گئے‘ یہ ملک کے ان نوجوانوں کےلئے مشعل راہ ہیں جو ہر سال یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں اور اپنا کام کرنا چاہتے ہیں‘ میں علی چودھری کا فین ہوں‘میں ہمیشہ ان سے بہت کچھ سیکھتا ہوں‘ یہ گزشتہ جمعرات اسلام آباد آئے‘ میں مصروف تھا چنانچہ میرے دفتر کا ایک نوجوان انہیں کھانا کھلانے سپر مارکیٹ کے ایک ریستوران میں لے گیا‘ یہ کھانا کھارہے تھے کہ ریستوران میں چھاپہ پڑ گیا‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ پولیس کی معیت میں ریستوران میں آئے اور وہاں موجود تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا‘ یہ دونوں پریشان ہو گئے‘ وجہ پوچھی تو بتایا گیا ریستوران میں ”شیشہ سرو“ ہو رہا تھا اور اسلام آباد میں پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی اور شیشے پر پابندی ہے‘ پولیس ریستوران کے تمام گاہکوں کو تھانے لے گئی‘ یہ لوگ تھانے پہنچے تو معلوم ہوا‘ ملزم ساری رات تھانے میں رہیں گے‘ صبح مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوں گے اور مجسٹریٹ ان کی ضمانت لے گا‘ مجھے رات دو بجے اطلاع ملی‘ میں نے چند لوگوں سے رابطہ کیا لیکن وہ تمام لوگ سو چکے تھے‘ میں نے کپڑے تبدیل کئے‘ ایک کتاب اٹھائی اور تھانے پہنچ گیا‘ میرا خیال تھا‘ میں علی چودھری اور اپنے دفتر کے نوجوان کے ساتھ بیٹھ کر کتاب پڑھوں گا‘ صبح ہو گی تو میں انہیں عدالت لے جاﺅں گا اور ان کی ضمانت کرا لوں گا‘ میں تھانے پہنچا تو صورتحال بہت دلچسپ تھی‘ چند نوجوان لڑکے لاک اپ میں بند تھے‘ علی چودھری اور میرے دفتر کا نوجوان رپورٹنگ روم میں بیٹھا تھا‘ تھانے کی بجلی بند تھی اور مچھروں نے یلغار کر رکھی تھی‘ علی کے ساتھ لاک اپ میں بند نوجوانوں کا والد بیٹھا تھا اور ان تینوں کے ساتھ ایک پریشان حال گورا بیٹھا تھا‘ وہ گورا کبھی مچھر مارتا تھا‘ کبھی کرسی پر پہلو بدلتا تھا اور کبھی وہاں موجود لوگوں سے موبائل فون مانگتا تھا‘ میں نے سلام کیا اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔
میں نے علی کو تسلی دی” آپ فکر نہ کریں‘ چار پانچ گھنٹے کی بات ہے‘ ہم گپ شپ کرتے ہیں‘ صبح ہو جائے گی تو ہم ضمانت کرا لیں گے“ علی نے مسکرا کر جواب دیا ”آپ میری فکر چھوڑیں‘ آپ اس گورے کو چھڑوائیں‘ یہ پہلی بار پاکستان آیا اور یہاں پھنس گیا“ میں نے گورے سے گپ شپ شروع کر دی‘ پتہ چلا ‘یہ فرانس سے تعلق رکھتا ہے‘ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا‘ یہ شہر کی سیر کےلئے ہوٹل سے باہر آیا‘ سپرمارکیٹ پہنچا‘ شیشہ دیکھا تو ریستوران میں بیٹھ گیا‘ کافی کا آرڈر دیا اور شیشہ پینے لگا‘ پولیس آئی اور اسے بھی گرفتار کر لیا ‘ میں نے اس سے پوچھا ”تم نے پولیس کو اپنی شناخت کیوں نہیں کروائی“ اس نے جواب دیا ”میں گھبرا گیا تھا‘ مجھے سمجھ ہی نہیں آئی یہ کیا ہو رہا ہے“ میں نے علی سے کہا ”آپ ہی مجسٹریٹ یا پولیس کو بتا دیتے“ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ” پولیس والے اسے پٹھان سمجھ رہے ہیں‘ یہ اسے اوئے خان کہتے ہیں‘ پولیس نے تھانے آتے ہی اس کا موبائل فون لے لیا‘ اس نے مجھ سے فون لیا‘ ہوٹل میں اپنی بیوی سے بات کی اور اس کی بیوی نے رونا شروع کر دیا‘ مجھے اس کی گفتگو سے پتہ چلا‘ یہ فارنر ہے‘ میں محرر کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی ”یہ فارنر ہے‘ ملک کی بدنامی ہوگی‘ آپ کم از کم اسے چھوڑ دیں“ محرر نے جواب دیا ” سر ہم ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑ سکتے‘ یہ چھاپہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ نے مارا تھا‘ یہ انہیں یہاں چھوڑ کر گئے ہیں‘ہم ان میں سے کسی کو رہا نہیں کر سکتے“ میں نے گورے سے معذرت کی اور اس کو آفر کی‘ آپ اگر ہوٹل میں اپنی بیگم کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں‘ پیرس میں کسی کو اپنی خیریت کی اطلاع کرنا چاہتے ہیں یا پھر ایمبیسی سے رابطہ چاہتے ہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں“ اس نے معذرت کر لی‘ اس کا کہنا تھا” میں سفارت خانے کے نوٹس میں لائے بغیر پاکستان آیا ہوں‘ میں انہیں ”انوالو“ نہیں کرنا چاہتا“ وہ پریشان تھا اور میں اس کی پریشانی پر پریشان تھا‘ میں نے ڈی ایس پی صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے گورے کو چھوڑنے کی درخواست کی مگر ان کا جواب بھی وہی تھا ”ہم کچھ نہیں کر سکتے“ تھانے میں اب عجیب صورتحال تھی‘ تھانے میں ایسے لوگ بند تھے جو ایک ایسے ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے جہاں شیشہ سرو کیا جا رہا تھا‘ ریستوران کا مالک اور عملہ کہاں تھا؟ پولیس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہاں ایک غیر ملکی تھا جو مچھر مار رہا تھا اور پریشان ہو رہا تھا‘ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتابھی تھا اور پولیس اسے پٹھان سمجھ رہی تھی اور میں علی کے سامنے بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار کر رہا تھا‘ یہ ایک عجیب صورتحال تھی۔
پولیس کو بہرحال میری حالت پر رحم آگیا‘ ڈی ایس پی نے مجسٹریٹ کو جگایا‘ مجسٹریٹ نے مجھے فون کیا‘ ان کا کہنا تھا ” اسلام آباد میں شیشہ ممنوع ہے اور یہ لوگ سرے عام قانون کی خلاف ورزی کر رہے تھے“ میں نے ان سے درخواست کی‘ آپ میری ذاتی ضمانت پر ان ”مجرموں“ کو چھوڑ دیں‘ میں صبح ان سب کو لے کر عدالت میں حاضر ہو جاﺅں گا‘ مجسٹریٹ اچھا آدمی تھا‘ وہ صورتحال سمجھ گیا‘ اس نے پولیس کو ”مجرموں“ کی رہائی کا حکم دے دیا‘ ضمانت کے پیپر تیار ہونے لگے‘ گورے کے کاغذات ہوٹل میں تھے‘ میں نے پولیس سے درخواست کی” آپ اس بے چارے کو میری ضمانت پر جانے دیں“ پولیس مان گئی‘ یوں ہم صبح ساڑھے چار بجے تھانے سے فارغ ہوئے۔اگلے دن معلوم ہوا‘ ہم جس گورے کو عام سیاح سمجھ رہے تھے‘ وہ دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی کاسینئر نمائندہ تھا‘ وہ پاکستان میں آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کےلئے یہاں آیا تھا اور وفاقی دارالحکومت میں شیشہ پینے کے جرم میں دھر لیا گیا‘ اس کی بیوی نے کمپنی سے رابطہ کیا‘ کمپنی نے اپنے گھوڑے دوڑانا شروع کر دیئے‘ وہ صبح ہوٹل پہنچا تو کمپنی نے پہلی فلائیٹ پر اسے دوبئی شفٹ کیا اور وہاں سے اسے واپس پیرس لے گئی‘ معاہدے درمیان میں رہ گئے۔
ہم ٹھنڈے دل سے صورتحال کا جائزہ لیں تو ہم کسی محکمے‘ کسی شخص کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے‘ شیشہ بلکہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘ اس پر پابندی ہونی چاہیے‘ میں حکومت بالخصوص چودھری نثار کو اس اقدام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں مگر پابندی کے ساتھ ساتھ قوانین بھی واضح ہونے چاہیے تھے‘ ہم یہاں مار کھا گئے‘ آپ بے شک شیشہ بیچنے والوں کو بھاری جرمانہ کریں‘ آپ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ریستورانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیں‘ آپ مالکان کو قید اور جرمانے کی سزا بھی دیں لیکن آپ قانون کی آڑ میں غیر ملکیوں اور علی چودھری جیسے لوگوں کو ذلیل نہ کریں‘ آپ ملک بھر میں اشتہاری مہم چلائیں‘عوام کو ایجوکیٹ کریں‘ قانون شکنوں کےلئے جرمانہ طے کریں اور آپ غیر ملکیوں کیلئے چھوٹا سا کتابچہ تیار کریں‘ یہ کتابچہ پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کو امیگریشن کاﺅنٹر پر دیا جائے‘ کتابچے میں واضح طور پر لکھا جائے‘ پاکستان میں شراب‘ منشیات اور فحاشی جرم ہے‘ پاکستان میں شیشے پر بھی پابندی ہے اور آپ حکومتی اجازت کے بغیر کس کس شہر اور کس کس مقام میں داخل نہیں ہو سکتے‘ آپ کتابچے میں محفوظ ہوٹلز‘ ریستوران‘ مارکیٹس‘ رینٹ اے کار اور ریسٹ ہاﺅسز کے نام اور پتے بھی شائع کریں اور آپ غیر ملکیوں کیلئے کوئی ہیلپ لائین بھی کھولیں تاکہ یہ لوگ کسی ایمر جنسی صورتحال میں ریاست سے رابطہ کر سکیں اور ریاست ان کی مدد کر سکے‘ ہمارا المیہ یہ ہے ہم بے وقوفوں کی طرح کان پہلے کاٹتے ہیں اور گنتے بعد میں ہیں اور یوں ہم اپنا بیڑہ بھی غرق کر لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
کاٹتے پہلے ہیں‘ گنتے بعد میں ہیں
4
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں