حضور نبی کریم ﷺ نہ صرف ایک مربی تھے بلکہ آپ نے وقت پڑنے پر ایک بہترین سپہ سالار کا کردار بھی ادا کیا، ایک غزہ کے موقع پر آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صفیں درست فرما رہے تھے کہ ایک صحابیؓ کو آپ نے صف سے باہر نکلے دیکھا ، آپ ﷺ کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی جس سے آپ صفیں درست فرما رہے تھے ،
آپ ﷺ نے اس چھڑی سے ایک ٹہوکا اس صحابیؓ کو دیکر صف میں درست طریقے سے کھڑے ہونے کا کہا۔ وقت گزر گیا کچھ عرصہ بعد آپﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان جلوہ افروز تھے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’کسی کا اگر مجھ پر کوئی بدلہ ہے تو آج لے سکتا ہے‘‘۔ صحابہ کرام حیران رہ گئے کہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ حضور اکرم ﷺ نے کسی کو تکلیف پہنچائی ہو یا کسی کا حق دبایا ہو اور اگر ایسا نعوذ با اللہ ہے بھی تو کس میں جرأت ہے کہ وہ آپﷺ سے بدلہ لے۔ اچانک ایک صحابی کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میرا آپ پہ بدلہ بنتا ہے ، آپ نے فلاں غزہ کے موقع پر مجھے اپنی چھڑی سے ٹہوکا لگا کر ایذا پہنچائی۔ حضور اکرم ﷺ کے چہرہ مبارک پہ تبسم مبارک ابھر آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’آگے آئیے اور بدلہ پورا کر لیں۔‘‘ صحابی ؓ آپﷺ کے نزدیک آئے اور فرمایا ’’جب آپ نے مجھے چھڑی سے ٹہوکا لگایا اس وقت میرے جسم کا اوپری حصہ بے لباس تھا یعنی کرتہ نہیں پہن رکھاتھا۔ آپ ﷺ بھی اپنا کرتا مبارک اتار دیں، انصاف کایہی تقاضہ ہے۔ آپ ﷺ کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہو گئی اور آپﷺ نے اپنا کرتہ مبارک اتار دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ششدر رہ گئے، اس صحابی ؓ کی گستاخی پر ہاتھ میانوں میں موجود تلواروں کے دستوں پر تڑپنے لگے
مگر نبی کریم ﷺ کے حکم سے بڑھ کر کچھ نہ تھا اور وہ خود ہی کرتہ اتار کر اس صحابیؓ کا بدلہ دینے پر مصر تھے۔ بدن مبارک سے کرتہ اتر گیا، بدلے کے خواہشمند صحابیؓ پر رقت طاری ہو گئی، آنکھوئوں سے آنسوئوں کے فوارے پھوٹ پڑے ، وہ بے ساختہ نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر کو چومنے لگ گئے، مہر نبوت جو دو شانوں کے درمیان تھی اسے چومتے ،
شانہ مبارک کو چومتے اور کہتے جاتے ، میں اور میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کون آپ سے بدلہ چاہے گا، میں نے تو سن رکھا ہے کہ جو جسم اطہر کے ساتھ مس ہو جائے اس پر جہنم کی آگ حرام کر دی جاتی ہے۔ سبحان اللہ !کیا عقیدت تھی، کیا محبت تھی، کیا شان تھی ۔جسم اطہر سےبچوں کی طرح لپٹے اور مہر نبوت کو چومتے صحابی ؓ کس قدر خوش نصیب تھےکہ جنہیں جسم اطہر کو مس کرنے اور چومنے کی سعادت حاصل ہوئی۔