اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)توحید اور ایمان کا مزا جس نے چکھ لیا اسے پھر کوئی اور نظریہ نہ جچتا ہے اور نہ ہی وہ اسے چھوڑتا ہے۔ اسلام کی قندیل جس دل کے مندر میں جل اٹھے وہاں سے پھر شنک اور گھنٹیوں کے بجائے نعرہ تکبیر کی صدائیں ہی بلند ہوتی ہیں پھر چاہے دنیا جو بھی کہے۔ توحید کی شمع اپنے پروانوں کو پھر کفر کی ہوائوں سے لڑنے کیلئے وہ قوت عطا کر دیتی ہے کہ
شمع توحید کے پروانے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے نہیں گھبراتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بھارت میں پیش آیا جہاں انتہا پسند ہندوئوں نے ایک نو مسلم نوجوان کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ انیل کمار بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم تھا جہاں توحید نے اس کے دل کو چھوا اور کروڑوں خدائوں کو چھوڑ کر اس نے ایک رب المشرقین و رب المغربین کی اطاعت کے آگے سر جھکا دیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انیل نے اپنا نام فیصل رکھ لیا اور کچھ عرصہ بعد اپنے آبائی وطن بھارت (کیرالہ)آگیا جہاں اس کے ایک خدا کے آگے سجدوں نے جلد ہی اس کے قبول اسلام کی چار عالم نوید سنا دی ۔ ہندو انتہا پسند بپھر گئے اور اسے جان کی دھمکیاں دینے لگ گئے۔ جس نے جام توحید پیا اسے پھر کیا دھمکیاں روکیں گی، اس نے انتہا پسند ہندوئوں کی دھمکیوں کا ذکر مقامی عالم دین سے کیا جنہوں نے اسے مسلمانوں سے مدد لینے کا مشورہ دیا مگر فیصل نے تواسلام قبول کرتے عہد کر رکھا تھا کہ جو بھی جب بھی مانگوں گا اے رب یکتا و برتر تجھ سے مانگوں گا، اس نے عالم دین کا مشورہ دینے پر شکریہ ادا کیا اور وہاں سے اٹھ آیا ، وہ ہر خطرے سے بے پرواہ ہو چکا تھا اسے رب یکتا کے علاوہ کسی چیز کا خوف نہ تھا ۔ پھر وہ دن آن پہنچا جب رب تعالیٰ نے اس سے شہادت طلب کی۔ ہندو انتہا پسندوں نےفیصل کو اسلام چھوڑ کر دوبارہ ہندو ہونے کیلئے دبائو ڈالا۔
شمع توحید کے پروانے نے نعرہ تکبیر ۔۔اللہ اکبر بلند کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ کروڑوں خدائوں کے ماننے والوں سے برداشت نہ ہوا اور فیصل کو نہایت بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ فیصل کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اس کی دعوت و تبلیـغ کا مقدس فریضہ بھی سر انجام دے رہا تھا ، فیصل کی بیوی اور بچے بھی اسلام قبول کر چکے تھےجبکہ فیصل کی دلی خواہش تھی کہ اس کی والدہ بھی دین حق اختیار کر لیں۔ بھارتی پولیس روایتی طور پر ابھی تک ملزمان کا تعین کرنے میں ناکام ہے اور ابھی تک کسی کی گرفتاری بھی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔