سَدُوم ملکِ شام میں صوبہ حِمْصْ کا ایک مشہور شہر ہے. اسکی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبزوشاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قِسم قِسم کے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے.شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آجایا کرتے اور شہر کے لوگوں کو ان مہمانوں کی مہمان نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا۔شہر کے لوگ مہمانوں کی ہر درجہ آمد سے
بہت ہی کبیدہ خاطر اور تنگ ہوچکے تھے۔ ان کی مہمان نوازی سے اکتاہٹ اور بیزاری کو دیکھتے ہوئے شیطان لعین کو موقع مل گیا اور اس نے ایک ایسا گھنائونا کھیل کھیلا جس کی مثالی ماضی میںنہ ملتی تھی ۔ ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور ان لوگوں سے کہا کہ اگر تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی یہ تدبیر ہے کہ جب بھی کوئی مہمان تمہاری بستی میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بدفعلی کرو۔ چنانچہ سب سے پہلے ابلیس لعین خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے.(روح البیان، ج3، ص197، پ8، الاعراف:84)۔ حضرت لُوط کو اللہ تعالیٰ نے شہر سدوم کی جانب پہلے سے روانہ کر رکھا تھا ۔ آپ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے۔ آپ ؑ نےاپنی قوم کو جب شیطان کے چنگل میں دیکھا تو ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے فرمایاجس کاذکر قرآن میں بھی ہوا ہے”آپ ؑ نے اپنی قوم سے کہا؛ کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں
چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے.” (سورةالاعراف:80،81)حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کہا”اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں.” (سورةالاعراف:82)جب قومِ لوط کی سرکشی اور بدفعلی
قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ مہمان بن کر حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ان مہمانوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کرکے حضرت لوطؑ بہت فکرمند ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوطؑ کے گھر کا
محاصرہ کرلیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ سے دیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دِلسوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کردیا۔ مگر یہ بدفعل اور سرکش قوم اپنے بےہودہ جواب اور برے اقدام سے باز نہ آئی۔ تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگدِل ہوکر غمگین و رنجیدہ ہو گئے۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت جبریلؑ نے فرمایا کہاے اللہ عزوجل کے نبی! آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان پر عذاب لے کر اترے ہیں۔ لہٰذا آپ مؤمنين اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں
گرفتار ہوجائے گا۔چنانچہ حضرت لوطؑ اپنے گھر والوں اور مؤمنين کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے۔پھر حضرت جبریلؑ اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگباری ہوئی
کہ قومِ لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوطؑ کی ایک بیوی جس کا نام واعلہ تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ کہا کہ ’’ہائے رے میری قوم‘‘ یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر
بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی. چنانچہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے اُن پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا.” (الاعراف:83،84)جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا تھا
جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(تفسیرالصاوی، ج2، ص691، پ8، الاعراف:84)منقول ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ تو ابلیس نے کہا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یہ گناہ ناپسند ہے کہ مرد، مرد سے بدفعلی کرے اور عورت، عورت سے اپنی خواہش پوری کرے۔(روح البیان، ج3، ص198، پ8، الاعراف:84)