لاہور کی معروف یونیورسٹی میں ایک عزیز دوست میڈیا اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کی ڈگری کر رہے ہیں، واقعہ بیان کرتے دوران لیکچر ایک روز اسلام اور رسول ﷺ کی توہین کا معاملہ زیر بحث آیا تو لیکچرار صاحب نے دانشوری بکھیرتے ہوئے فرمایا گستاخ رسول کو تبلیغ کے ذریعے قائل کرنا چاہئے اور اپنے دعوے کی تائید میں مختلف قسم کے بودے دلائل جھاڑنے لگے جو شرعی لحاظ سے بھی غلط تھے۔ خاصا دینی علم ہونے کے
باوجود میرے دوست نے انکو دوسرے طریقے سے جواب دینے کا فیصلہ کیا اور بھری کلاس میں باآواز بلند گویا ہوئے ’’چل اوئے کھوتے کے بچے یہ کیا بکواس کر رہا ہے‘‘یہ گالی سن کر لیکچرار صاحب کی دماغ کی چولیں ہل گئیں، منہ سے جھاگ اڑاتے گالیاں بکتے اس دوست کا گریبان پکڑنے کو دوڑے، تو نے میرے باپ کو کھوتا کہا؟؟خیر بمشکل دیگر ہم جماعت دوستوں نے لیکچرار کو قابل کیا اور یہ دوست اپنی نشست پر کھڑا ہو کر کہنے لگاجناب والا آپ کے باپ کو گالی دینے پر معافی چاہتا ہوں لیکن آپ نے مجھے سمجھانے کیلئے تبلیغ کیوں نہ کی اور اس قدر جلال میں آکر دوگنا گالیاں کیوں دے گئے؟لیکچرار آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور ہنوز غصے میں کانپ رہا تھا جس پر دوست نے کہا ’’النبی اولی بالمومنین من انفسھم‘‘نبیﷺ مومنین پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں، مومن کیلئے نبیﷺ کی عزت اپنے ماں باپ سے بہت زیادہ ہوتی ہے، فداک امی و ابی یا رسول اللہ کے نعرے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے، بس اتنی سادہ سی بات تھی جس کو سمجھنے کیلئے کسی گہرے فلسفے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔۔!صلی اللہ علیہ و سلم