نئی دہلی(آن لائن)بھارت کی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے بعد راجیا سبھا (ایوان بالا) سے بھی ایک ساتھ تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل کثیر رائے سے منظور کر لیا گیا ایوان بالا میں بل کو 99 میں 84 ووٹ ملے۔بتایا گیا کہ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے پارلیمنٹ سے باہر نکلتے ہوئے وکٹری کا سائن ظاہر کیا۔یونین وزرا نے ایوان بالا سے بل منظور ہونے پر ’تاریخ دن‘ قرار دیا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلم ویمن (پروٹیکشن رائٹس آن میریج) بل 2017 منظور ہونے پر
مسرت کا اظہار کیا۔انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ دقیانوسی اور قرون وسطیٰ دور کی روایت آخر کار تاریخ کے کچرا دان تک محدود کردی گئی۔نریندر مودی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ایک ساتھ تین طلاق مسترد کردی۔بھارتی وزیراعظم نے بل کی منظوری کو صنفی انصاف کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے معاشرے میں مزید یکسانیت کو فروغ ملے گا۔اس ضمن میں واضح رہے کہ مذکورہ بل آرڈیننس کے ذریعے نافذ العمل ہے تاہم نریندر مودی کی حکومت نے دوبارہ برسراقتدار آنے کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں بل کی منظور کا معاملہ اٹھایا۔خیال رہے کہ لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل تیسری مرتبہ بھی منظور کر لیا گیا تھا۔اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور ترینامول کانگریس نے بل پر رائے شماری کے بعد واک آؤٹ کیا تھا جس کے حق میں 302 اور مخالفت میں 78 ووٹ دیئے گئے۔شادی سے متعلق مسلمان خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل 2019 میں لوک سبھا میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے گزشتہ سال 21 جون کو پیش کیا تھا۔مذکورہ بل کے تحت ایک ہی وقت میں 3 مرتبہ طلاق دینا قابل سزا جرم ہے۔بل کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شخص کو 3 سال قید کی سزا ہوگی اور خاتون یا اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے شکایت درج کروانے پر جرم کو قابل سماعت قرار دیا جائے گا۔ملزم کو مجسٹریٹ کی جانب سے ضمانت دی جاسکتی ہے، جو صرف متاثرہ خاتون کا بیان سننے کے بعد اگر مجسٹریٹ مطمئن ہو تو
مناسب وجوہات کی بنیاد پر ضمانت دے سکتا ہے۔بل کے تحت متاثرہ خاتون کی درخواست پر مجسٹریٹ کی جانب سے جرم کا دائرہ کار مرتب کیا جاسکتا ہے۔متاثرہ خاتون کو شوہر کی جانب سے خود سمیت اپنے بچوں کے لیے مالی وظیفہ دیا جائے گا۔جس خاتون کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی گئیں وہ اپنے چھوٹے بچوں کی کسٹڈی حاصل کرسکتی ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں لوک سبھا میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا تھا, تاہم انتخابات کے باعث قانون سازی کا عمل رک گیا تھا۔