نئی دہلی (این این آئی)بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں 7 سالہ بچی نے پولیس میں اپنے والد کے خلاف اس لیے شکایت کی کیونکہ انہوں نے گھر میں بیت الخلا تعمیر کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بچی حنیفہ زارا نے پولیس کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ ان کے والد نے ان کو دھوکا دیا ہے اس لیے انہیں گرفتار کیا جائے کیونکہ وہ بیت الخلا کے لیے باہر جانے کو شرم ناک سمجھتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق بھارت میں اکثریت کو بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں اور50 کروڑ افراد کھلی فضا میں پیشاب کرتے ہیں، یہاں تک کہ جن علاقوں میں بیت الخلا تعمیر کیے جاچکے ہیں وہاں بھی لوگ باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مغربی ریاست تامل ناڈو کے ایک قصبے میں اپنے والدین کے ہمراہ رہائش پذیر حنیفہ زارا کو گھر میں بیت الخلا کی سہولت کبھی میسر نہیں ہوئی۔بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے پڑوس میں چند گھرانوں میں یہ سہولت موجود ہے اور انہوں نے بھی اپنے والد سے اس وقت بیت الخلا تعمیر کرنے کا مطالبہ تھا جب وہ نرسری کی طالبہ تھیں۔حنیفہ زارا نے کہا کہ میں باہر جانے پر شرماتی ہوں اور میں اس وقت برا محسوس کرتی ہوں جب لوگ میری طرف دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسکول میں کھلی فضا کو بیت الخلا کے طور پر استعمال کرنے سے صحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے انہیں علم ہوا تو اس کے بعد ایسا کرنے کی تحریک ملی۔پولیس کو اپنے خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ ان کے والد نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ جماعت میں اول آئیں تو وہ گھر میں بیت الخلا تعمیر کروائیں گے۔انہوں نے لکھا کہ میں نرسری سے اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کر رہی ہوں اور اب میں دوسری جماعت میں ہوں اور اب بھی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ تعمیر کروں گا، یہ دھوکے کی ایک قسم ہے اس لیے برائے مہربانی انہیں گرفتار کر لیں۔حنیفہ نے لکھا کہ اگر انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا تو وہ بیت الخلا کب تک تعمیر کریں گے اس حوالے سے پولیس کم از کم انہیں تحریری صورت میں آگاہ کرنے پر دباؤ ڈالے۔دوسری جانب حنیفہ کے والد احسان اللہ کا کہنا تھا کہ بیت الخلا کی تعمیر شروع کر چکا ہوں، لیکن اس کو مکمل کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور اس وقت بے روزگار بھی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے حنیفہ سے کہا تھا کہ مجھے مزید وقت دو لیکن اس نے مجھ سے بات کرنا بند کردی کیونکہ میں اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھ سکا۔حنیفہ 2 روز قبل اپنے والدہ کے ساتھ اسکول سے ہی شکایت درج کرانے پولیس اسٹیشن چلی گئی تھی۔پولیس افسر اے وَلارمتھی کا کہنا تھا کہ وہ ایک بیگ ساتھ لے کر آئی تھیں جو ٹرافیاں اور سرٹیفکیٹس سے بھرا ہوا تھا۔
جس کو انہوں نے میرے ڈیسک پر سجا دیا اور کہا کہ کیا آپ مجھے بیت الخلا دے سکتی ہیں۔خاتون پولیس افسر نے کہا کہ انہوں نے حنیفہ کے والد احسان اللہ کو بلایا تو وہ گھبرائے ہوئے تھے کہ ان کی بیگم اور بیٹی کہیں مشکل میں تو نہیں ہیں، لیکن جب انہیں حقیقت کا پتہ چلا تو وہ حیران رہ گئے۔ان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ نے حنیفہ کا پورا خط
پڑھنے کے بعد کہا کہ بیٹی نے خط کیسے لکھا جاتا ہے ان سے ہی سیکھا ہے کیونکہ وہ سرکاری عہدیداروں اور قانون سازوں کو خطوط لکھنے کے لیے گاؤں کے باسیوں کی مدد کرتے ہیں۔احسان اللہ نے کہا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ میرے اوپر ہی آئیگا۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ‘بچی کی شکایت دیانت داری پر مبنی تھی اس لیے ہم مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔