ہفتہ‬‮ ، 14 دسمبر‬‮ 2024 

ایرانی سیاست ومعیشت کا اہم بازار سلطانی غیر یقینی صورت حال سے دوچار

datetime 14  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرا ن پر امریکا کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ ، ملکی کرنسی ریال کی قدر میں حالیہ مہینوں کے دوران میں نمایاں کمی اور بے روزگاری ، افراطِ زر اور پست معیارِ زندگی کے خلاف حالیہ ملک گیر مظاہروں کے بعد تہران کا تاریخی بازارِ سلطانی بھی کساد بازاری کا شکار ہوچکا ہے ۔عرب ٹی وی کے مطابق بازارِ سلطانی میں کاروبار کرنے والے ایرانی تاجر اپنے ملک کی داخلی

سیاست کو ابتر معاشی مسائل کا براہ راست ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ سرعام حکومت کو کوسنے دیتے ہیں۔ان کے ہاں گاہکوں کا وہ رش نہیں جو کبھی ہوتا تھا اورکھوے سے کھوا چھلتا تھا۔بازارِ سلطانی صدیوں سے ایران کی اقتصادی اور سیاسی زندگی دونوں کا دھڑکتا دل رہا ہے لیکن اب ایرانی شہری خریداری کے لیے تہران کے شمال میں واقع مغربی طرز کے میگامال کا رْخ کررہے ہیں۔اس بازار میں کاروبار کرنے والے والے تاجروں اور وہاں مقیم خاندانوں نے ایران کے سابق شاہ رضا پہلوی کی حکومت کی مخالفت کی تھی اور 1979ء میں ان کی حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ان کی جگہ پھر اہلِ تشیع کی مذہبی حکومت اور منتخب حکام نے لے لی تھی۔جون میں بازارِ سلطانی میں کئی روز تک ہزاروں مظاہرین نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے اور ریال کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ان مظاہرین نے اپنے نعروں کا رْخ ایرانی قیادت کی طرف بھی موڑ دیا تھا اور انھوں نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت میں نظام کے خلاف سخت نعرے بازی کی تھی۔اس وقت ایرانی کرنسی کی قدر مزید گر چکی ہے۔ایک ڈالر ڈیڑھ لاکھ ریال کا ہوچکا ہے۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ نومبر میں جب ایران کی تیل کی صنعت پر امریکا کی مزید پابندیاں عاید ہوں گی تو ایرانی ریال کی قدر میں مزید کمی واقع ہوجائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس بات سے تو انکار کرتی ہے کہ وہ اقتصادی دباؤ کے ذریعے ایرانی حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں میں باہمی تعلق بالکل واضح ہے۔ایرانی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر بہت سے شہریوں نے حالیہ دنوں میں بازارِ سلطانی کا رْخ کیا ہے اور وہ آنے والے مشکل حالات سے قبل اپنی جمع پونجی سے زیادہ سے زیادہ خریداری کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ریال کی قدر میں مزید کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور ان کے لیے انھیں خرید کرنا مشکل ہوجائے گا۔اس صورت حال میں بازارِ سلطانی میں کاروبار کرنے والے بعض دکان دار اپنا سب کچھ فروخت کر کے یورپی ممالک کا رْخ کررہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں


شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…