بیجنگ(آئی این پی) چین افغان مذاکراتی عمل کو ترجیح دیتے ہوئے افغانستان کی امن کوششوں میں مثبت اور موثر کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔افغانستان میں ہونے والی پیشرفت پر چین کی گہری نظر ہے اور اسے توقع ہے کہ اس سے پرامن اور خوشحال افغانستان کی منزل حاصل کرلیں گے۔چینی ملڑی میڈیا سنٹر کی آن لائن رپورٹ کے مطابق افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں افغان طالبان کے نمائندوں سے پہلی بار براہ راست بات چیت کرنے کے لیے دوحہ قطر میں اپنا نمائندہ بھیجا ہے۔
تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ امریکہ ایک عرصہ سے طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کررہا تھا اور اس نے یہ دلیل دی تھی کہ افغانستان کے امن عمل میں افغان حکومت کو شامل ہوناچاہیے اس لیے دونوں فریقین کا براہ راست مذاکرات پر اتفاق افغانستان کے بارے میں امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ مذاکرات افغانستان حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔تاہم افغانستان میں امن ابھی بہت دور کی بات ہے ۔تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنا رویہ ان وجوہات کی بناء پر تبدیل کیا ہے۔اول امریکہ17سال سے افغان جنگ میں پھنس چکا ہے اور اب اسے اپنی افغان پالیسی پرنظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کیمطابق یہ طویل جنگ بھاری اخراجات کا باعث بن رہی ہے امریکہ اس پر سالانہ اوسطاً45ارب ڈالر صرف افغانستان کی سیکیورٹی اور معاشی امداد پر خرچ کررہا ہے۔ جوافغانستان کی کل قومی پیداوار سے دوگنا ہے۔دوئم،ٹرمپ انتظامیہ کی نئی حکمت عملی کے زیادہ اثرات مرتب نہیں ہورہے اس لیے وہ افغانستان کے مسئلے پر کوئی نیا بریک تھرو تلاش کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اگست2017میں جب ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا تو اس نے طالبان کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرنے کے لیے اپنی مزید فوج افغانستان بھیج دی تھی۔
تاہم نئی حکمت عملی بھی طالبان کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور نہ ہی طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرسکی۔طالبان امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے اپنی شرائط سے بھی پیچھے نہی ہٹ سکے۔افغانستان کے ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران طالبان نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ اپنے فوجی واپس بلائے اور طالبان رہنماؤں کے خلاف پابندیاں واپس لے۔ جبکہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے فوجی دستے افغانستا ن میں ہی رکھے گا اور طالبان سے کہے گا کہ وہ افغان امن عمل میں شرکت کے لیے اپنی فوجی کاروائیاں بن کردے۔
اب طالبان اور افغان حکومت نے عیدالاضحی کے موقع پر ممکنہ جنگ بندی کے بارے میں بات چیت کی ہے۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگرچے طالبان افغان حکومت کے ساتھ عارضی جنگ بندی کرسکتے ہیں لیکن مختصر مدت کے لیے بھی امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنا مشکل ہے اس وقت افغانستان کو سلامتی کے کئی مسائل کاسامنا ہے۔ جن میں انتہا پسند گروپ ’’اسلامک سٹیٹ‘‘ ملک کے بعض جنوبی علاقوں میں طالبان سے زیادہ خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔افغانستان کا اخبار آریانہ نیوز لکھتا ہے کہ قومی سلامتی کے وزیر طارق شاہ بہرامی نے 2اگست کو کہا تھا کہ مستقبل قریب میں افغان حکومت طالبان کے ساتھ مختصر مدتی جنگ بندی کا ایک منصوبہ بنا رہی ہے۔ جبکہ اصل مقصد افغانستان میں مستقل امن اوراستحکام حاصل کرنا ہے۔
امریکہ کو سیاسی مذاکرات میں پیشرفت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ افغانستان کامسئلہ فوجی ذرائع سے حل نہیں کیا جاسکتا افغانستان کے ایک سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان امن عمل میں مذاکرات کا نتیجہ حیران کن بھی ہوسکتا ہے۔افغان امن عمل افغانیوں کی اپنی قیادت میں کے اصول پر ہونا چاہیے اور افغان حکومت اور امریکہ سمیت اس کے اتحادیوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ہمیشہ حمایتی کردار اداکرسکتے ہیں۔ اس سال فروری میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن طالبان نے اس پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا تھا۔مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی طرف پیشرفت کریں گے۔تاہم براہ راست بات چیت کے اثرات کا امتحان ابھی باقی ہے اور افغانستان میں امن عمل ابھی بہت دور کی بات ہے۔