جنیوا(نیوز ڈیسک)اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 2017میں مختلف جنگوں اور مسلح تنازعات میں 10ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور ہو گئے، متعدد نا بالغ بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا، یمنی خانہ جنگی میں گذشتہ برس1300 سے زائد بچے ہلاک یا زخمی ہوئے،بچوں کو پر سکون ماحول اور تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں مختلف جنگوں اور مسلح تنازعات میں دس ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور ہو گئے۔
اس کے علاوہ بہت سے بچوں کو ریپ کیا گیا اور جنگوں میں نابالغ فوجیوں کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔امریکی شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے جمعرات اٹھائیس جون کو ملنے والے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مراسلوں کے مطابق اس عالمی ادارے نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2017 میں دنیا بھر میں بہت سے بحران زدہ علاقوں میں جنگی کارروائیوں کے دوران بے شمار اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایسی کارروائیاں بھی سینکڑوں بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا سبب بنیں۔عالمی ادارے کی اس سالانہ رپورٹ کو بچے اور مسلح تنازعات کا نام دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 21 ہزار سے زائد واقعات میں مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں۔ یہ شرح 2016 میں ایسی خلاف ورزیوں کی سالانہ تعداد کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ تھی۔عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی صورت حال کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے پچھلے سال مجموعی طور پر 1300 سے زائد بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔نابالغ بچے جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب کے بجائے بندوقیں پکڑا دی گئیں۔اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ان 1300 سے زائد بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعات میں سے نصف سے زائد کا ذمے دار سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد بنا۔
اس عسکری اتحاد کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف اپنے زمین، بحری اور فضائی حملے ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہے۔قریب 700 یمنی بچوں کی موت اور ان کے معذور یا زخمی ہو جانے کے واقعات کا سبب زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے حوثی باغیوں کے خلاف کیے جانے والے زمینی اور فضائی حملے بنے۔ یمنی تنازعے میں حوثی باغیوں کا حریف دھڑا اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2017 میں
یمن سمیت کئی ممالک میں جاری مسلح تنازعات میں ایسے بچوں کو بھی نابالغ فوجیوں کے طور پر جنگ میں جھونک دیا گیا، جن کی انفرادی عمریں محض 11 برس تک تھیں۔ مسلح تنازعات والے علاقوں میں بچوں کے حقوق سے متعلق عالمی ادارے کی خصوصی مندوب ورجینیا گیمبا نے اس موقع پر کہا، یہ بچے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے بچوں سے کم حقوق کے مالک نہیں اور نہ ہی ان سے ایسا سلوک کیا جانا چاہیے، جیسے وہ کم تر حقوق کے حامل ہوں۔ورجینیا گیمبا نے مطالبہ کیا کہ بحران زدہ علاقوں کے بچوں کو بھی یہ پورا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنا بچپن اور اپنی زندگی بامقصد طریقے سے گزار سکیں اور انہیں بھی معمول کی زندگی گزارنے کے لیے بحالی کے مکمل مواقع مہیا کیے جائیں۔