واشنگٹن (نیوز ڈیسک) اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں چار کروڑ افراد غریب اور ایک کروڑ 85 لاکھ انتہائی غریب ہیں جب کہ 50 لاکھ افراد انتہائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے فلپ آلسٹن نے اپنی رپورٹ میں امریکہ کو ترقی یافتہ دنیا کا سب سے غیر مساوی معاشرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی پالیسیاں صرف امیروں کو فائدہ پہنچاتی ہیں جب کہ ملک میں غریبوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
اپنی رپورٹ میں عالمی ادارے کے ایلچی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو بطور خاص تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غریبوں کی مشکلات میں یہ کہہ کر مزید اضافہ کر رہی ہے کہ وہ مزدوری کے قابل ہیں لہذا حکومت کی طرف سے انہیں ملنے والے فائدوں بشمول غذائی امداد کم کردینی چاہیے۔فلپ آلسٹن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری کی جانب سے دی جانے والی سہولتوں جیسا کہ میڈیکیڈ وغیرہ سے فائدہ اٹھانے والوں کی بھاری اکثریت کسی نہ کسی کام یا روزگار سے وابستہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی حکومت کا یہ تاثر دینا کے سرکاری ویلفیئر سے مستفید ہونے والے کاہل ہیں اور کام ہی نہیں کرنا چاہتے حقائق کے منافی بات ہے۔آلسٹن کے بقول امریکہ میں ویلفیئر نظام سے مستفید ہونے والے نصف افراد کسی کل وقتی پیشے سے وابستہ ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد یا تو ابھی زیرِ تعلیم ہے یا پھر خاندان کے کسی اور فرد کی کل وقتی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے کوئی کام کرنے سے معذور ہے۔عالمی نمائندے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرمپ حکومت کے دعووں کے برعکس امریکہ میں سرکاری ویلفیئر نظام سے فائدہ اٹھانے والے صرف سات فی صد افراد ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے۔امریکی معاشرے میں معاشی ناہمواری سے متعلق یہ رپورٹ جمعے کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کی جائے گی جس کی رکنیت امریکہ نے احتجاجاً چھوڑنے کا رواں ہفتے ہی اعلان کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آمدنی میں تفاوت کے اعتبار سے امریکہ مغربی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جہاں امیر اور غریب کی تقسیم بہت واضح ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کی محض ایک فی صد آبادی ملک کی کل دولت کے 38 فی صد کی مالک ہے۔رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے حال ہی میں متعارف کرائی جانے والی 15 کھرب ڈالر کی ٹیکس کٹوتیوں کا فائدہ بھی امیروں کو پہنچے گا اور اس سے غریبوں کے حالات مزید ابتر ہوں گے۔اقوامِ متحدہ کے خصوصی تفتیش کار نے بتایا کہ وہ ہر ملک میں حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کرتے ہیں
جس کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں حالات ٹھیک کرنے پر توجہ دیں۔لیکن فلپ آلسٹن کے بقول امریکی حکومت نے ان کی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق پر مشتمل بیان پر کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی رپورٹ پر کوئی ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کے قواعد کے مطابق کسی ملک سے متعلق آلسٹن کی مرتب کردہ رپورٹ کونسل میں پیش کیے جانے کے بعد وہ ملک اس پر اپنا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔گو کہ امریکہ کونسل کی رکنیت سے دستبردار ہوچکا ہے لیکن کونسل کا مبصر رکن ہونے کے ناتے اس کے پاس رپورٹ کا جواب دینے کا حق اب بھی موجود ہے۔