منگل‬‮ ، 04 فروری‬‮ 2025 

اسکارف والی ٹیچر کوبچوں کو پڑھانے سے روکنا جائزہے،جرمن عدالت نے ایسا فیصلہ سنادیا کہ جان کر ہر مسلمان کا دل چھلنی چھلنی ہو جائے گا

datetime 9  مئی‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برلن(این این آئی)جرمنی کی ایک لیبر کورٹ نے حکم سنایا ہے کہ ہیڈ اسکارف پہننے والی کسی مسلمان ٹیچر کے لیے یہ لازمی نہیں کہ متعلقہ صوبائی محکمہ تعلیم انہیں کسی پرائمری اسکول میں تعینات کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے کی جازت بھی دے دے۔غیرملکی خبررساںں ادارے کے مطابق فیصلہ برلن کی ایک لیبر کورٹ نے سنایا اور اس مقدمے کے فریقین یعنی ٹیچر اور محکمہ تعلیم دونوں کا تعلق جرمنی کے اسی شہر سے تھا ۔

جو وفاقی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سٹی اسٹیٹ یا شہری ریاست بھی ہے۔اس مقدمے میں درخواست دہندہ خاتون ٹیچر نے کہا تھا کہ وہ برلن ہی کے کسی پرائمری اسکول میں بچوں کو تعلیم دینا چاہتی ہیں مگر محکمہ تعلیم نے انہیں ان کے خواہش کے برعکس ہائر اسکینڈری سطح کے ایک ووکیشنل اسکول میں تعلیم کی ذمے داریاں سونپ رکھی ہیں۔اس مسلم خاتون کے مطابق ان کے ساتھ برلن شہر کے صوبائی محکمہ تعلیم کا یہ رویہ عوامی شعبے میں ملازمتوں کے دوران مساوی حقوق کے قانون کے تقاضوں کے منافی تھا اور ساتھ ہی ان کے ساتھ کیے گئے روزگار کے معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی بھی۔اس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں، جس کا جرمنی میں بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، کہا کہ محکمہ تعلیم کے لیے لازمی نہیں کہ وہ ہیڈ اسکارف پہننے والے کسی خاتون ٹیچر کو لازمی طور پر بچوں کے کسی پرائمری اسکول میں ہی درس و تدریس کے لیے تعینات کرے۔متعلقہ ٹیچر نے اپنی قانونی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے ساتھ صوبائی حکام کا یہ رویہ اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ وہ ایسا اس مسلم خاتون کے ہیڈ اسکارف کی وجہ سے کر رہے ہیں اور اسی لیے یہ عمل درخواست دہندہ کو مذہبی آزادی کے قانون کے تحت حاصل حقوق کی بھی نفی ہے۔اس پر برلن کی لیبر کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کا اس ٹیچر کی پوسٹنگ کے حوالے سے فیصلہ نہ تو پبلک سیکٹر میں دوران ملازمت مساوی حقوق کے صوبائی قانون کے منافی ہے۔

اور نہ ہی مذہبی آزادی کے قانون کی خلاف ورزی۔ساتھ ہی عدالت نے اس ٹیچر کو یہ حق بھی دیا کہ اگر وہ چاہیں تو مقامی لیبر کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف برلن کی صوبائی لیبر کورٹ میں اپیل بھی دائر کر سکتی ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ بات دراصل صوبے میں سرکاری ملازمین کے لیے مساوی حقوق کے قانون کے عین مطابق ہے کہ پرائمری اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پہننے والی کسی ٹیچر کو تدریس کی اجازت نہ دی جائے۔اس امر کی عدالت کی طرف سے وضاحت یوں کی گئی کہ صوبائی محکمہ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرائمری اسکولوں کی سطح پر بچوں کے لیے ایسے تعلیمی ماحول کو بھی یقینی بنائے، جس میں تدریسی عمل مذہبی حوالے سے بھی قطعی غیر جانبدار رہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رانگ ٹرن


رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…