پیر‬‮ ، 12 مئی‬‮‬‮ 2025 

بھارتی عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی مودی کے اقدام نے پورے ملک میں ہلچل مچادی

datetime 29  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(سی پی پی) انڈیا کی مرکزی حکومت نے اس ہفتے سپریم کورٹ میں دو ججوں کی تقرری کے لیے کولیجیم کے ذریعے بھیجے گئے دو ناموں میں سے صرف ایک کی منظوری دی جبکہ دوسرا نام کولیجیم کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ ا س پر نظر ثانی کرے۔حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر تقرری کے لیے جسٹس کے ایم جوزف موزوں نہیں ہیں کیوں کہ سینیارٹی میں کئی اور جج ان سے آگے ہیں۔

اور یہ کہ عدالت عظمی میں ان کی ریاست کی نمائندگی متوازن ہے۔جسٹس کے ایم جوزف کا نام کولیجیم نے ججوں کی تقرری کے لیے اپنے مسلمہ ضابطوں کے تحت ایک قابل جج کے طور پر بھیجا تھا۔ تقرری کے لیے دو ناموں کی سفارش جنوری میں بھیجی گئی تھی۔ حکومت ان سفارشات کو کے لر تین مہینے بیٹھی رہی اور جب منظوری دی تو صرف ایک ہی نام جج کی تقرری کے لیے منظور کیا۔حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے جسٹس کے ایم جوزف کا نام اس لیے منظور نہیں کیا کیونکہ جب وہ اترا کھنڈ کے چیف جسٹس تھے تو انھوں نے ریاست میں مودی حکومت کے ذریعے لگائے گئے صدر راج کو غیر آئینی قرار دے کر کانگریس کی حکومت کو بحال کرنے حکم دیا تھا جبکہ حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔ماہرین قانون اور سبکدوش ججوں کا خیال ہے کہ ججوں کی تقرری کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی کولیجیم کی سفارشات حتمی ہیں اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن کئی ججوں کے نام پر حکومت کو کچھ اعتراضات ہو سکتے ہیں اور وہ کولیجیم میں اپنے تحفظات پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ناموں کو رد کرنا عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں کئی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ کئی ماہرین قانون اور ججوں نے رائے دی ہے کہ چیف جسٹس کو اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔،ججز کی تقرری کے سوال پر حکومت اور کولیجیم میں یہ ٹکرا کافی عرصے سے چل رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 31 ججوں کی جگہیں ہیں جن میں اس وقت 24 جج ہیں۔ سات جگہیں خالی پڑی ہیں۔ اس برس کے آخر تک مزید پانچ جج سبکدوش ہو جائیں گے۔ ملک کی ہائی کورٹس میں 400 سے زیادہ ججوں کی جگہیں خالی پڑی ہیں۔ یہ صورت حال ان حالات میں ہے جب مقدمات کی سماعت اور فیصلے کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے۔ملک کی ذیلی عدالتوں میں کروڑوں مقدمات التوا میں پڑے ہو ئے ہیں۔

مقدمات برسوں تک چلتے رہتے ہیں۔ انصاف کا عمل عام آدمی کی رسائی سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔قانونی ماہرین کا خیال ہے ججوں کی تقرری سے لے کر عدالتوں کے طریق کار تک ہر پہلو میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کی عدالتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ عدلیہ ابھی تک اپنی خود مختاری اور آزادی کا پوری طاقت اور سختی کے ساتھ دفاع کرتی آئی ہے۔عدلیہ ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جن پر لوگوں کا اب بھی پورا اعتبار ہے۔ اس کی آزادی اور غیر جانبداری کے تحفظ کی ذمے داری صرف عدلیہ کی ہی نہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ ایک فعال اور متحرک جمہوریت کی ضامن ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



27ستمبر 2025ء


پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…