واشنگٹن (این این آئی) امریکی صدر نے جب فلسطینی صدر محمود عباس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ساتھ ہی انہوں نے محمود عباس کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کے پاس ایک امن منصوبہ تیاری کے مراحل میں ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو راضی کرنا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ ٹرمپ کی اس بات کا مقصد بیت المقدس کے حوالے سے اپنے فیصلے کے اثرات پر روک لگانا ہے جو اس مسئلے پر طویل عرصے سے قائم امریکی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے۔ٹرمپ نے بیت المقدس سے متعلق اپنے حیران کن اعلان سے ایک روز قبل عباس سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور اس دوران وہائٹ ہاؤس کے مشیروں کی اْن کوششوں پر روشنی ڈالی جو وہ ایک امن منصوبہ وضع کرنے کے واسطے کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ منصوبہ 2018 کی پہلی ششماہی کے دوران پیش کیا جائے گا۔ تاہم ٹرمپ کے اعلان کے بعد مشرق وسطی پر چھائے غم و غصے کے سبب اب اس پیش رفت کا ممکن ہونا مشکل نظر آ رہا ہے۔امریکی ذمے داران کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کْشنر کی قیادت میں امریکی صدر کی ٹیم ایک ایسا منصوبہ وضع کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کے لیے بنیاد ثابت ہو۔ اس امید کے ساتھ کہ فلسطینیوں کے ساتھ سفارتی رابطوں میں تعطل زیادہ عرصے نہ رہے۔تاہم ایک امریکی ذمے دار کا کہناتھا کہ اگر فلسطینی اب بھی یہ کہتے رہے کہ وہ بات چیت ہر گز نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں ہم بھی منصوبہ پیش نہیں کریں گے۔ذمے دار کا کہنا تھا کہ عباس کے ساتھ گفتگو میں ٹرمپ کا اصرار رہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جانبین کے درمیان اس
معاملے یا دیگر معاملات کے حوالے سے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ایک امریکی ذمے دار کا کہنا تھا کہ فلسطینی اس حد تک کمزور پوزیشن میں ہیں کہ ان کے سامنے آخر میں امریکا کے زیر قیادت امن کوششوں میں اپنی شرکت کا سلسلہ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا۔امریکی ذمے
دار کے مطابق ٹرمپ کے معاونین فلسطینیوں کو قائل کرنے کے لیے یہ حجت پیش کریں گے کہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکی صدر زیادہ قوت اور زور کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتنیاہو سے رعائتیں اور دست برداری کے مطالبے کی پوزیشن میں ہوں گے۔