امریکی قانون ساز کا افغان امداد کو ڈیورنڈ لائن کی تسلیم سے مشروط کرنے کا مطالبہ

9  ستمبر‬‮  2017

واشنگٹن(آئی این پی) امریکی قانون ساز نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی امداد کو ڈیورنڈ لائن کی تسلیم سے مشروط کرنے کی ضرورت ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ بریڈ شرمین نے جنوبی ایشیا میں امریکا کا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے ہونے والی ایک سماعت میں افغانستان کی امداد کو مشروط کرنے کا مطالبہ کیا۔قانون ساز بریڈ شرمین عموما پاکستان کی جانب سخت رویہ رکھتے ہیں جبکہ یہ پہلا موقع ہے

جب خارجہ امور ہاس کی ذیلی کمیٹی میں کسی قانون ساز نے ایسی تجویز پیش کی۔اسی موقع پر ایک سینئر امریکی عہدے دار اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز نے پاکستان کو یاددہانی کرائی کہ افغانستان میں بھارت کا مفاد بھی اتنا ہی اصل اور قانونی ہے جتنا کہ پاکستان کا مفاد۔قانون ساز بریڈ شیرمین نے اپنی تجویز کے ساتھ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے اثرو رسوخ کے نتیجے میں پاکستان کے مفاد اورر خدشات پر بھی اظہار خیال کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود سرحد ڈیورنڈ لائن کو افغان حکومت کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔بریڈ شیرمین نے وضاحت دی کہ مجھے اندازہ ہے کہ ایسا کرنا مشکل ہے، وہ کہیں گے ایسا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرکے پاکستانی علاقوں پر دعوی کرتا رہے گا، پاکستان کو شامل کرنا بہت مشکل ہوگا، اور ہمیں افغان طالبان پر کنٹرول کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ 2430 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے جو 1896 میں قائم ہوئی تھی، تاہم افغانستان اسے تسلیم نہیں کرتا اور اکثر بھارت بھی افغانستان کے اس دعوے کی حمایت کرتا ہے۔کانگریس مین شرمین نے بتایا کہ کس طرح کابل کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار اور بھارت کا اس معاملے پر مبہم مقف پاکستان کے خدشات میں اضافے کا سبب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کو اپنے دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے اور بھارت کے افغانستان جیسے ملک (جو سرحد کو تسلیم نہیں کرتا) سے بڑھتے ہوئے تعلقات اسلام آباد کی تشویش میں اضافہ کرتے ہیں۔واضح رہے کہ دو اہم گواہان ایلس ویلز اور بین الاقوامی ترقی کی امریکی ایجنسی میں قائم مقام اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر رہنے والی گلوریا اسٹیل نے اس تنازع پر کوئی بات نہیں۔ایک موقع پر کیلی فورنیا کے ڈیموکریٹ ڈاکٹر ایمی بیرا کے تبصرے پر جواب دیتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ

جتنا بھارت کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھتا جائے گا اتنا ہی یہ پاکستان کی تشویش میں اضافے کا سبب بنے گا۔ڈاکٹر ایمی بیرا نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان کے استحکام کے لیے امریکا اس معاملے پر کس طرح آگے بڑھے؟ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے استحکام اور اداروں کی مضبوطی کے لیے تعمیری معاشی سرمایہ کاری ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے 2020 تک افغانستان میں 3 بلین ڈالر خرچ کرنے کا عہد کیا ہے، یہ سرمایہ کاری افغانستان کے لیے

ایک نہایت اہم پروگرام کے لیے کی جائے گی۔جنوبی ایشیا کی ذیلی کمیٹی کی صدارت کرنے والے کانگریس مین ٹیڈ یوہو نے افغانستان میں بھارت کے مثبت کردار کو سراہا اور 2018 کے امریکی بجٹ میں امریکا بھارت سیکیورٹی پارٹنر شپ کو مزید بڑھانے کے دفعات شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔کمیٹی کی سماعت کے دوران کانگریس بریڈ شرمین نے لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھایا، انہوں نے بالخصوص سندھ میں حالیہ دنوں میں سندھی اور مہاجر افراد کی گمشدگی کا دعوی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنان کے بارے میں جاننے کے لیے پاکستانی حکومت سے سرکاری طور پر رابطے کی امید کرتا ہوں، جبکہ لاپتہ ہونے والے افراد میں میرے دوست کا بھائی بھی شامل ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…